کیا ہم نے سیاست کو ایک اجتماعی فکری عمل سے ہٹا کر ذاتی دشمنی، انتقام، اور منافقت کا کھیل بنا دیا ہے؟ کیا سیاست کا مطلب صرف مخالفین کو گرانا اور اقتدار کے لیے ہر حد پار کرنا رہ گیا ہے؟ یہ سوالات آج ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ اور ان کے پیچھے حالیہ برسوں کی وہ تلخ حقیقتیں ہیں جنہوں نے ہماری سیاسی اخلاقیات کو پستی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔
گزشتہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ سیاسی مخالفین کو عوامی مقامات پر جوتے مارنے، گالیاں دینے اور یہاں تک کہ ان کی خواتینِ خانہ پر پرچے درج کرانے کو ”سیاسی کامیابی“ سمجھا گیا۔ سوشل میڈیا کو گالیوں کا اسٹیج بنایا گیا۔ جس نے اختلاف کیا، اس کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلی، اس کے گھر کے دروازے پر جا کر شور مچایا گیا۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ جیسے اعلیٰ ادارے میں سیاسی رہنماؤں کے مائیک تک بند کر دیے گئے۔ جب یہی روایات عام ہو جائیں تو پھر نفرت کا کلچر ایک وبا بن کر پھیلتا ہے۔ اور پھر وہی وبا اپنے پھیلانے والوں کو بھی نہیں چھوڑتی۔
کیا یہ سچ نہیں کہ کل جنہیں ”چور، قاتل، مافیا“ کہہ کر عوامی اجتماعات میں ذلیل کیا جاتا تھا، وہی لوگ جیسے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوتے گئے تو انہیں ”صادق و امین“ کا درجہ دے دیا گیا؟ یہی دوہرا معیار عوام کو گمراہ ہی نہیں کرتا، بلکہ اجتماعی اعتبار کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ بیانیہ بازی نہیں، سادہ منافقت ہے۔
تحریک انصاف نے خود کو امریکہ مخالف جماعت کے طور پر پیش کیا۔ عالمی سازش کا نعرہ لگایا گیا، امریکی حکام کے خلاف کھلم کھلا تقاریر ہوئیں، اور ریاستی اداروں پر بیانیے کے تیر برسائے گئے۔ لیکن آج وہی قیادت امریکہ سے مدد مانگ رہی ہے، وہاں لابنگ فرموں کو خط لکھے جا رہے ہیں۔ آخر عوام ان تضادات کو کیسے نظرانداز کریں؟ کیا سیاست کا مطلب صرف وقتی فائدہ رہ گیا ہے؟
سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ ہو یا پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے حصول کے لیے وفاداریاں خریدنا۔ اس عمل نے جمہوری اقدار کی بنیادیں ہلا دیں۔ جب ایک سیاسی رہنما اخلاقیات کا بھاشن دے کر آتا ہے لیکن اقتدار کے لیے وہی سب کچھ کرتا ہے جس کی مخالفت میں وہ برسوں تقاریر کر چکا ہوتا ہے، تو اعتماد کا رشتہ ٹوٹتا ہے۔ ہماری سیاست کو اب خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ بدتہذیبی، گالم گلوچ، انتقامی سیاست، اور اداروں پر بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عوام کی اصل ترجیحات پر بات کریں : معیشت، تعلیم، صحت، اور قومی سلامتی۔
بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے جس کلچر کو فروغ دیا، اس میں مخالفت کو دشمنی، اختلاف کو غداری اور اپوزیشن کو مجرم بنا دیا گیا۔ لیکن آج جب وہی جماعت سیاسی دباؤ کا شکار ہوئی ہے، جب اس کے رہنما گرفتار ہو رہے ہیں، جب ایف آئی آرز کی بوچھاڑ ہو رہی ہے، تب وہی زبان مفاہمت، جمہوریت اور رواداری کی بولی بول رہی ہے۔ مگر کیا یہ سب صرف اپنے لیے ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ تماشا ختم ہونا چاہیے۔
پاکستان اس وقت سیاسی استحکام، قومی وحدت، اور سنجیدہ قیادت کا طلبگار ہے۔ اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب تمام سیاسی قوتیں نفرت، انتقام اور منافقت سے آگے بڑھ کر گفتگو، شائستگی، اور باہمی احترام کی طرف آئیں۔ آج اگر ہم نے یہ موقع بھی کھو دیا تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کریں۔ |