ماہِ رمضان کے بعد ہماری زندگی میں تبدیلی آنی چاہئے

عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم علامت عمل صالح کے بعد دیگر اعمال صالحہ کی توفیق اور دوسری علامت اطاعت کے بعد نافرمانی کی طرف عدم رجوع ہے۔ نیز ایک اہم علامت نیک عمل پر قائم رہنا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت یعنی پابندی ہو خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے حضور اکرم ﷺ کے عمل کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ ﷺ ایام کو کسی خاص عمل کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نہیں، بلکہ آپﷺاپنے عمل میں مداومت (پابندی) فرماتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔ (مسلم) حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا : اے عبداﷲ! فلاں شخص کی طرح مت بنوجو راتوں کو قیام کرتا تھا لیکن اب چھوڑدیا۔ (بخاری ومسلم) لہذا ماہِ رمضان کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمیں برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کا سلسلہ باقی رکھنا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر ہے۔ چند اعمال تحریر کررہا ہوں، دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ ان کا بھی خاص اہتمام رکھیں۔

ماہ ِشوال کے ۶ روزے: حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اﷲ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورۃ الانعام ۱۶۰) تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو ۶۰ دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔ یہ چھ روزے ماہ ِشوال میں عید کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے۔

فرض نماز کی پابندی: نماز ‘ ایمان کے بعد دین اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے جس کی ادائیگی ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن انتہائی تشویش وفکر کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اِس اہم فریضہ سے بے پرواہ ہے۔ رمضان کے مبارک ماہ میں تو نماز کا اہتمام کرلیتے ہیں مگر رمضان کے بعد پھر کوتاہی اور سستی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وحدیث میں اِس فریضہ کی بہت زیادہ اہمیت اور تاکید وارد ہوئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہر وقت (رمضان اور غیر رمضان) نماز کا پابند بنائے۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الصَّلاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤمِنِےْنَ کِتَاباً مَوْقُوْتاً (سورۃ النساء ۱۰۳) یقینا نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔ دن رات میں کل ۱۷ رکعتیں ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں: فجر کی ۲ رکعت، ظہر کی ۴ رکعت، عصر کی ۴ رکعت، مغرب کی ۳ رکعت اور عشاء کی ۴ رکعت۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود ، مسند احمد) حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اﷲ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دے چاہے جنت میں داخل کردے۔ (موطا مالک، ابن ماجہ، ابوداود ، مسند احمد) حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز ۔۔۔ (یعنی نماز کا اہتمام کرو)۔ جس وقت آپ ﷺنے یہ وصیت فرمائی آپ ﷺکی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نماز کی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطا مالک)

نمازِ وتر کی پابندی: رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: یقینا اﷲ تعالیٰ نے تم پر ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے جس کا وقت عشاء کی نماز سے طلوعِ فجر تک ہے۔ (ابن ماجہ، ترمذی، ابوداود) حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں نبی اکرمﷺ کا امت مسلمہ کو نمازِ وتر پڑھنے کا امر (حکم) موجود ہے جو عموماً وجوب کے لئے ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں بعد نمازِ عشاء یا اذانِ فجرسے قبل وتر پڑھنے کی پابندی کرنی چاہئے۔احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز وتر کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر دوسرے دن طلوع آفتاب کے بعد کسی بھی وقت قضا کرلینی چاہئے۔

سنن مؤکدہ کا اہتمام: حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اﷲ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں (فرض کے علاوہ) پڑھیں، اُس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیا گیا۔ (مسلم) ترمذی میں یہ حدیث وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: جو شخص دن رات میں مندرجہ ذیل بارہ رکعتیں پڑھے گا اُس کے لئے جنت میں گھر بنایاجائے گا: ۴ ظہر سے پہلے، ۲ ظہر کے بعد، ۲ مغرب کے بعد، ۲ عشاء کے بعد اور ۲ فجر سے پہلے۔ ان سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر سنن غیر مؤکدہ، نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرمائیں۔

قرآن کی تلاوت کا اہتمام: تلاوتِ قرآن کا روزانہ اہتمام کریں خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ علماء ِکرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریں اور دوسروں کو پہونچائیں۔ یہ میری ، آپ کی اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)

حلال رزق پر اکتفا: حرام رزق کے تمام وسائل سے بچ کر صرف حلال رزق پر اکتفا کریں خواہ مقدار میں بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کل قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اﷲ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ پانچ سوالوں کے جواب دیدے۔ ان پانچ سوالات میں سے دو سوال مال کے متعلق ہیں کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفا کرے، جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مسند احمد) نیز نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں۔ (صحیح مسلم ) عصر حاضر میں بعض ناجائز چیزیں مختلف ناموں سے رائج ہوگئی ہے، ان سے بچنا چاہئے کیونکہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اُس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ چرواہے کی تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے وہ بکریاں دوسرے کی چراگاہ سے کچھ کھالیں۔ (بخاری ومسلم)

بچوں کی دینی تعلیم وتربیت: ہماری یہ کوشش وفکر ہونی چاہئے کہ ہماری اولاد اہم وضروری مسائل شرعیہ سے واقف ہوکر دنیاوی زندگی گزارے اور اخروی امتحان میں کامیاب ہوجائے کیونکہ اخروی امتحان میں ناکامی کی صورت میں دردناک عذاب ہے، جسکی تلافی مرنے کے بعد ممکن نہیں ہے، مرنے کے بعد آنسو کے سمندر بلکہ خون کے آنسو بہانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزاریں گے تو ہمارا بچوں کی تعلیم میں مشغول ہونا، ان کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا اور ہر عمل دنیا وآخرت دونوں جہاں کی کامیابی دلانے والا بنے گا، ان شاء اﷲ۔ لیکن آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو بالغ ہونے کے باوجود نماز وروزہ کا اہتمام نہیں کرایا جاتا کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لئے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔

ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے دوری: معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہذا فحش وعریانیت وبے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں اور اپنی اولاد وگھر والوں کی خاص نگرانی رکھیں تاکہ یہ جدید وسائل آپ کے ماتحتوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں، کیونکہ آپ سے ماتحتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (سورۃ التحریم ۶)

اﷲ تعالیٰ مغفرت اور رحمت والے مہینہ میں کئے گئے ہمارے تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور ہمارے لئے جہنم سے چھٹکارہ کا فیصلہ فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 170131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.