جب آپ ﷺجوان ہوئے تو آپ نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش
بنایا۔ اس انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ خاندان بنو ہاشم اور قریش مکہ کا پیشہ
تجارت تھا۔ آپ ﷺ کے آباؤ اجداد تجارت کی وجہ سے مشہور ومعروف تھے۔ آپ ﷺ کے
والد ماجد حضرت عبداﷲ تجارت ہی کی غرض سے شام تشریف لے گئے اور واپسی پر
مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور وہیں انتقال ہوا۔
تجارت انسان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرتی ہے۔بات چیت کا ڈھنگ،معاملہ
فہمی،اپنی بات دلائل سے منوانے کا سلیقہ اور مختلف ممالک کے اسفار اس تجارت
ہی سے ممکن ہوتے ہیں۔یہ تمام صفات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم میں بدرجہ اولیٰ
پیدا کرلیں تھیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تجارت کی غرض سے شام کی طرف دوبار
سفر کیا۔پہلا سفر 12 سال کی عمر میں ابو طالب کے ساتھ کیا۔یہ سفر اگرچہ
بحیثیت تاجر نہیں تھا مگر اس سفر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تجارت کے
اسرارورموز ضرور سیکھے۔ دوسرا سفر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی
اﷲ عنہا کا سامان تجارت لے کر کیا۔ اس بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شام کی
مشہور منڈی بصرہ تشریف لے گئے اور اجرت میں حضرت خدیجہ نے ایک یا 2اونٹ دیے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ سفر بحیثیت تاجر تھا۔ اس تجارتی سفر میں بہت
زیادہ منافع ہوا جوکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشہ وارانہ مہارت کی دلیل
ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامان تجارت میں خوشبو ئیں،جواہرات اور چمڑے
وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تجارتی اخلاق کا ہر کوئی
گرویدہ تھا۔صدق و امانت ایسی صفات ہیں جو تاجروں کو اپنی طرف مبذول کرواتی
ہیں۔عبداﷲ بن ابی الخمسا ء سے مروی ہے کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم سے معاملہ کیا۔میرے زمہ کچھ دینا باقی تھا،میں نے آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا میں ابھی لے کر آتا ہوں۔ اتفاق سے گھر جانے کے بعد
میں اپنا وعدہ بھول گیا۔تین روز کے بعد جب یاد آیا کہ میں تو آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم سے واپسی کا وعدہ کر کے آیا تھا۔ یاد آتے ہی فوراً وعدہ گاہ پر
پہنچا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اسی مقام پر پایا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
صرف اتنا فرمایا تم نے مجھے زحمت دی۔ میں 3دن سے تمہارا اسی جگہ انتظار کر
رہا ہوں۔
تجارتی معاملات میں معاملات کی صفائی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا طرہ امتیاز
تھا۔حضرت عبداﷲ بن سائب رضی اﷲ عنہ اسلام لانے سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کے ساتھ مل کر تجارت کی۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو صحابہ کرام رضوان
اﷲ علیہم اجمعین نے ان کے سامنے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف کی۔ وہ کہنے
لگے ’’میں آپ علیہ السلام کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر
قربان ہوں آپ میرے شریک تجارت تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ معاملہ صاف
رکھتے تھے‘‘۔
عبداﷲ بن سائب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’زمانہ جاہلیت میں آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا شریکِ تجارت تھا۔جب اسلام قبول کرنے کے بعد حاضر ہوا تو آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر سوال کیا۔ مجھے پہنچانتے ہو؟ میں نے عرض کیا
کیوں نہیں۔ آپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے۔ نہ کسی
بات کو ٹالتے تھے نا ہی تکرار کرتے تھے۔ایک اور صحابی حضرت قیس بن سائب رضی
اﷲ عنہ بیان کر تے ہیں کہ زمانہ قبل از نبوت میں میں نے آپﷺ کے ساتھ مل کر
تجارت کی ، آپ ﷺ بہت ہی اچھے شریک تھے نہ تکرار کرتے اور نہ جھگڑتے
تھے۔آمنہ کے دریتیم اور صدق و وفا کے پیکر کا یہ باب امت کے تاجروں کے لیے
زریں اصول اور تاجر پیشہ برادری کے لیے اخلاق کریمہ اور اوصاف حمیدہ کے
نقوش متعین کرتا ہے۔
مگر افسوس در افسوس کہ آج کے دور میں تاجر ان زریں اصولوں سے کوسوں دور نظر
آتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں باہمی اعتماد،امانت و دیانت، شرافت و اعانت،
اخوت و یگانگت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کمزوریوں کی بدولت ہم نہ صرف اپنی
منڈیوں میں بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی کوئی قابل ذکر اہمیت نہیں رکھتے۔ امت
مسلمہ کو اپنی تجارت و معیشت کو مستحکم اور قابل ذکر بنانے کے لیے مکی تاجر
ﷺ کے تجارتی اوصاف کو اختیار کرنا لازم اور ضروری ہے۔ |