سرکاری اسپتالوں کی حالت زار

مراسلہ: زوبیہ صدیقی (جامعہ کراچی )
مکرمی!
پاکستانی عوام ایک طرف علاج معالجے کی مناسب سہولتوں کو ترس رہی ہے تو دوسری جانب نہ ہی انہیں پیٹ بھر کر کھانے کو میسر ہے اور نہ ہی سر چھپانے کو چھت ۔ اگر ہم اپنے طرز حکمرانی کو دیکھیں تو فرعون کو بھی مات دیتا نظر آتا ہے جبکہ محسوس یہ ہوتا ہے یہ ملک صرف اشرافیہ کے رہنے کے قابل ہے۔ ملک بہترین نظام قائم کرنے سے چلتے ہیں بھاگ دوڑ کرنے یا افسران کی معطلیاں کرنے سے نہیں۔ اخبارات بتاتے ہیں کہ پاکستان بھر میں ہیلتھ کے حوالے سے شرمناک صورتحال ہے جبکہ پنجاب کے اسپتال مسائل کا گڑھ بنتے جارہے ہیں طبی سہولیات کے فقدان کے باعث مریضوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے بلکہ کئی مریض جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ اربوں روپے کی لاگت سے میٹرو منصوبے تو تیار کئے جارہے ہیں لیکن صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکامی نظر آتی ہے۔ صوبے بھر میں شائد ہی کوئی ایسا سرکاری اسپتال ہو جہاں غریبوں کو مکمل احترام کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ہر سرکاری اسپتال میں مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی علاج کیلئے ترس رہا ہے تو کسی کی باری ہی نہیں آ رہی جبکہ اسپتال کے گارڈز اور ڈاکٹرز کا آئے روز مریضوں کے لواحقین ساتھ مار پیٹ معمول بنتا جارہا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہوتا ہے کہ ہسپتال عملہ پیسے لئے بغیر اندر نہیں جانے دیتا اور ڈاکٹرز کی توجہ مریضوں پر کم ہوتی ہے اگر انہیں کہا جائے تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ملتان میں جنوبی پنجاب کی واحد بڑی علاج گاہ نشتراسپتال مسائل کا گڑھ بن چکی ہے اسپتال میں ڈاکٹرز، ادویات، بیڈز اوردوسری سہولتوں کی شدید کمی ہے، 1100 بستروں کے اس اسپتال میں روزانہ 2200 سے 2500 مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جبکہ بچوں کے علاج کیلئے یہاں 72 بستروں پرمشتمل صرف دو وارڈز ہیں اور ایک بستر پر 5، 5 بچوں کا علاج روز کا معمول ہے اس اسپتال میں 2 سال پہلے 600 بستروں کا اضافہ منظور کیا گیا تھا مگر وہ اضافہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہا۔ اسی طرح راولپنڈی کے تینوں بڑے اسپتالوں میں بھی علاج معالجے کی سہولتوں کا شدید فقدان ہے، وارڈز میں بیڈز کی کمی کی وجہ سے ایک بیڈ پر 2 سے 3 مریضوں کو لٹایا جاتا ہے، جبکہ راولپنڈی ڈویڑن بھر میں ایم آر آئی ٹیسٹ مشین ہی موجود نہیں اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی انتہائی کم ہے جب کہ شعبہ سرجری میں مریضوں کو آپریشن کیلئے 6، 6 ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لاہور ہو یا راولپنڈی، سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ ہسپتالوں کی لیبارٹریوں میں تعینات ناتجربہ کارعملہ اور مشینری کی کمی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈائیلاسز کے مریضوں کی تعداد زیادہ اور مشینیں کم ہیں، جس سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال ملک بھر کے ہسپتالو ں میں ہے لیکن حکومت شائد اس اہم مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی جتنی میٹرو جیسے منصوبوں پر دے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ہیلتھ کے بجٹ میں اضافے کے ساتھ ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والے مریضوں کو عملے کے ناروا سلوک سے بچانے کا بھی انتظام کرے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.