اقوام متحدہ کی رپورٹ پر پاکستان کا خیر مقدم اور بھارت
کاسیخ پا ہونا دونوں ممالک کے ٹکراؤ کو ایک بار پھر ظاہر کر گیا۔ اپوزیشن
کانگریس کی جانب سے اسے ملک کی ناکام خارجہ پالیسی قرار دینے کے الزامات کے
درمیان رپورٹ پر عمل درآامد کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے
کہ کیا اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشگردی اور انسانی
حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لئے کمیشن آف انکوائری تشکیل دے
سکے گا۔ یہ پہلی رپورٹ ہے جو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔
بھارت انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہے۔ اس کی فورسز مقبوضہ کشمیر میں
جنگی جرائم میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی
حقوق زید رائد الحسن نے کشمیر میں بین الاقوامی رسائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مگر بھارت دنیا کی آواز سننے پر آمادہ نہیں۔ وہ کشمیر میں اس کے قبضے کے
خلاف عوامی اپ رائزنگ کو دہشگردی قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹمیں
بھارت کے خلاف بر سر پیکار مجاہدین تنظیموں کو دہشتگردگروپ نہیں بلکہ آرمڈ
گروپس جبکہ مجاہدین کو لیڈرز قرار دیا ہے۔ جس پر بھارت چیخ چلا رہا
ہے۔بھارت کا اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرنا حقائق چھپانے کی کوشش ہے۔ اقوام
متحدہ کی رپورٹ مقبوضہ کشمیر میں جون 2016سے اپریل 2018تک کے حالات کا
احاطہ کرتی ہے۔ رپورٹ نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عمومی انسانی
حقوق پر تشویش ظاہر کی ہے۔ رپورٹ کا آغاز ہی برہان وانی کی شہادت سے کیا
گیا ہے اور حزب المجاہدین کو آرمڈ گروپ جب کہ برہان وانی کو اس کا لیڈر
قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمشن
کوبھارت نے کشمیر تک رسائی دینے سے انکار کیا۔ اس وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی خلاف ورزیوں کی انکوائری ناممکن رہی۔ رپورٹ کی تیاری میں میڈیا اور
این جی اوز ، سول سوسائٹی اور دیگر نگرانی پر اعتماد کیا گیا۔ اس میں
بھارتی کالے قوانین جیسے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ، آرمد فورسز سپیشل پاورز
ایکٹ(افسپا) کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ ان قوانین سے جرائم میں ملوث کسی
بھارتی اہلکار کا محاسبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ افسپاکے سیکشن 7کے
مطابق بھارتی فورسز پر گورنمنٹ آف انڈیا کی پیشگی اجازت کے بغیر مقدمہ نہیں
چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کالا قانون مقبوضہ کشمیر میں 28سال سے نافذ ہے۔ اس کے
ہوتے ہوئے بھارتی فورسز بے لگام اور باغی ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی سنگین
پامالی کرنے میں آزاد ہیں۔ کسی کو بھی قتل کر دیں ، کوئی جوابدہی نہیں۔
افسپا کے سیکشن4کے تحت بھارتی فورسز کسی کے خلاف بھی خطرناک اسلحہ کا
استعمال کر سکتے ہیں۔ جسے اپنا دفاع میں گولی کا استعمال قرار دیا گیا۔
49صفحات پر مشتمل اقوام متحدہ کی رپورٹ میں 2018میں بھارتی فورسز کی جانب
سے جھڑپون کے مقامات پر نہتے شہریوں کو گولیاں مار کر شہید کرنے کا بھی ذکر
کیا ہے۔ شوپیاں میں 27جنوری 2018کو فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے
تین افراد کو شہید اور لاتعداد کو زخمی کیا۔ یہ بھارتی فورسز کی پتھر کے
جواب میں گولی کی پالیسی ہے۔ جو کہ دہلی کے حکمرانوں کے موقف کی نفی ہوتی
ہے۔ ایسا 1947سے ہو رہا ہے۔ شوپیاں میں شہریوں کی شہادتیں ہوئیں تو اس کے
خلاف مظاہرے ہوئے۔ محبوبہ مفتی نے مجسٹریٹ لیول کی انکوائری کا حکم دیا۔
محبوبہ مفتی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا بی جے پی کا یہ پہلا جواز تھا۔ جب
ریاستی پولیس نے بھارتی فوج کی 10گڑھوال رائفلز کی فوجی افسر کے خلاف قتل
کا مقدمہ درج کیا تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایف آئی آر کسنل کرنے کا حکم
جاری کر دیا۔ مارچ 2018میں سپریم کورٹ نے تمام تحقیقات روکنے کا حکم دیا۔
اس کا بھی رپورٹ میں ذکر ہے۔ اسی طرح 4مارچ2018کو پہنو شوپیاں اور یکم
اپریل 2018کو شوپیاں اور اننت ناگ میں شہری ہلاکتوں اور اس کے خلاف مظاہروں
کا تذکرہ بھی اس میں شامل ہے۔ رپورٹ میں مندرجہ زیل سفارشات پیش کی گئیں
ہیں۔
۱۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی انسانی حقوق ضوابط کا احترام
کرے۔۲۔فوری طور پر افسپا کو ختم اور انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث بھارتی
فورسز کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے بھارتی حکومت کی اجازت کی شرط بھی ختم کی
جائے۔ ۳۔جولائی2016میں شہری ہلاکتوں ، پیلٹ فائرنگ اور تما م مظالم کی
آزادانہ، غیر جانبدار اور کریڈیبل تحقیقات کرائی جائیں۔ ۴۔سیکورٹی آپریشنز
کے دوران تمام ہلاکتوں کی سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تحقیقات کرائی
جائے۔ ۵۔1980کی دہائی سے مقبوضہ کشمیر میں تمام آرمڈ گروپوں کی جانب سے
تمام زیادتیوں بشمول اقلیت کشمیری ہندوؤں کے خلاف زیادتیوں کی تحقیقات
کرائی جائے۔ ۶۔سیکورٹی آپریشنز کے دوران زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کے
لواحقین کی بحالی اور معاوضے دیئے جائیں۔ ۷۔جنسی زیادتیوں کے تمام کیسوں کی
تحقیقات کرائی جائے جو سٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز نے کیں، متاثرین کو
معاوضے دیئے جائیں۔۸۔بھارت کے تمام قوانین عالمی انسانی حقوق کے معیار اور
ایس او پیز کے مطابق کئے جائیں۔ خاص طور پر فورسز کے طاقت کے استعمال ،
پیلٹ فائرنگ جیسے معاملات اور پیلٹ کے استعمال پر فوری طور پر پابندی لگائی
جائے۔۹۔عالمی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق پبلک سیفٹی ایکٹ میں ترمیم کی
جائے۔ ۱۰۔انتظامی حراست میں رکھے گئے تمام افرادکو رہا کیا جائے اور عالمی
قوانین کے مطابق معیار کا احترام کیا جائے۔ ۱۱۔18 سال سے کم عمر گرفتار
افراد کو بچے قرار دے کر ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ ۱۲۔انٹرنیٹ اور
موبائل ٹیلیفون نیٹ ورک تک رسائی پر پابندی کی تحقیقات کرائی جائے اور
مستقبل میں ایسی پابندیوں کو نہ لگانا یقینی بنایا جائے۔ ۱۳۔مقبوضہ کشمیر
میں صحافیوں کی نقل و حرکت پر پابندی اور اخبارات کی اشاعت پر بندش ختم کی
جائے۔ ۱۴۔مقبوضہ کشمیر میں نا معلوم قبروں کے بارے میں آزاد، شفاف اور
کریڈیبل تحقیقات یقینی بنائے جائے۔اگر ضروری ہو تو عالمی برادری سے مدد طلب
کی جائے۔ ۱۵۔قبوضہ کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا
جائے۔۱۶۔ جبری گمشدگیوں ، ٹارچر اور سزاؤں کے دیگر طریقوں سے عوام کو تحفظ
فراہم کیا جائے۔۱۷۔ مقبوضہ کشمیر میں عالمی تحقیقاتی گروپوں کو داخلے کی
اجازت دی جائے۔۱۸۔کشمیری عوام کے حق خود ارادیت حق کا مکمل طور پر احترام
کیا جائے جیسا کہ اسے انٹرنیشنل قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ |