الیکشن 2018ء : تبدیلی آئے گی ؟

ہر دفعہ عام انتخابات سے قبل یہی اُمیدیں لگائی اور بندھائی جاتی ہیں کہ اس الیکشن کے ذریعے ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے لیکن الیکشن 2018ء کے حوالے سے یہ غلغلہ کچھ زیادہ ہی سنائی دے رہا ہے ۔ شاید اس لیے کہ اس دفعہ ایک تیسری قوت بھی بھرپور’’ اہتمام‘‘ کے ساتھ میدان میں ہے اوراس کا نعرہ ہی تبدیلی ہے ۔لیکن کیا الیکشن 2018ء کے ذریعے ایسی کوئی تبدیلی آجائے گی جس سے واقعی قومی اور ملکی بیڑے کا رُخ تبدیل ہو جائے اور ہم بحرانوں کے بھنور سے نکل کر فلاح کے کنارے لگ جائیں ؟

تبدیلی صرف عوام ہی لا سکتے ہیں اور عوام کا حال یہ ہے کہ اس کی اکثریت چڑھتے سورج کی پوجا کرتی ہے ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس پارٹی کا منشور کیا ہے ؟ ایجنڈا کیا ہے ؟ ، اس میں کیسے لوگ ہیں ؟ ان کا کردار کیا ہے ؟ ان کا ماضی کیسا ہے ؟ کیا وہ ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہیں بھی یا محض اقتدار کے لیے بناوٹی چہرے سجائے ہوئے ہیں ۔یہ سب دیکھنے اور پرکھنے کی بجائے عوام کی اکثریت صرف ہوا کا رُخ دیکھتی ہے کہ زیادہ لوگ کس پارٹی میں جارہے ہیں ۔ زیادہ امکان کس پارٹی کا ہے کہ وہ حکومت بنائے گی ۔ بس اُسی کو ووٹ دینے ہیں ۔اس سوچ کے پیچھے صرف وقتی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے کہ نوکری مل جائے گی ، قرضے معاف کروا لیں گے ، کوئی سڑک ، سکیم پاس ہو جائے گی ۔انہی لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی کرپشن ، کالے دھن ، ناجائز کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے اکثریتی پارٹی کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔کچھ لوگ ایسے ہوتے جو برادری اور مسلک کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں اور کچھ تو ضمیر فروشی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں ۔

عوام کی یہی جزوقتی سوچ سیاستدانوں کے اندر کے مفاد پرست اور ابن الوقت مداری کو بیدار کرنے کا باعث بنتی ہے اور یوں انقلاب اور تبدیلی کے نعرے محض نعرے ہی رہ جاتے ہیں ۔سیاسی مداری عوام کی جزوقتی سوچ سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ایک طرف دلکش نعروں ، دعوؤں اور وعدوں کا ایسا پرکشش میلہ سجاتے ہیں کہ عوام اُن کے دام فریب میں آئے بغیر نہیں رہتے اور دوسری طرف ووٹ خریدنے کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں ۔یوں وقتی مفاد کا یہ کھیل تبدیلی کے دن یعنی الیکشن کو منڈی اور سیاست کو تجارت بنا دیتا ہے ۔جو زیادہ بولی لگاتا ہے وہ جیت جاتا ہے اور حکومت میں آنے کے بعد اس کا زیادہ فوکس صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ ان پانچ سالوں میں کس طرح زیادہ سے زیادہ ملک اور قوم کو لوٹا جائے ۔کیسے لوٹی ہوئی دولت کو ملک سے باہر لے جایا جائے ۔ ملک اور قوم کا مفاد ، ملکی ترقی و خوشحالی ، ملکی سلامتی اور بقاء کو درپیش چیلنجز ، دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ، معاشی ترقی کی دوڑ ، تبدیلی اور انقلاب وغیرہ یہ سب باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔

یہی حال سیاسی پارٹیوں کا ہے ۔ الیکشن سے پہلے ہر سیاسی پارٹی اپنا منشوراتنے دلفریب انداز میں پیش کرتی ہے کہ جیسے ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی عوج ثریا تک پہنچانے کا راز صرف اسی کے پاس ہے ۔ اُس کے اعداد وشمار کے جادوگر زبانی جمع خرچ سے ملکی معیشت اور اقتصادی ترقی کے ایسے ہوائی زینے تعمیر کرتے ہیں کہ جیسے اُن کے حکومت میں آتے ہی ملک مہاتیر محمد کے ملائیشیاکو پیچھے چھوڑ جائے گا ۔لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہی پارٹی سب سے پہلے معاشی بحران کا رونا روتی ہے ۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں ۔ این جی اوز ، بیرونی کمپنیاں اور قوتیں جو سیاسی پارٹیوں کو فنڈز دیتے ہیں ، حکومت بننے کے بعد وہی این جی اوز اور بیرونی قوتیں اُن سیاسی پارٹیوں سے اپنی مرضی کی پالیسیاں بنواتی ہیں جس سے ملک میں انتشار ، بے یقینی کی فضا اور سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے ۔اس بحران سے نکلنے کے لیے سیاستدان بین الاقوامی فرمز اور تھینک ٹینکس کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو انہیں ملکی مفاد کے خلاف فیصلے کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ IMFاور ورلڈ بینک کی معاشی پالیساں اور بلیک میلنگ مزید معاشی بحران کا باعث بنتی ہیں اور یوں ملک پہلے سے زیادہ معاشی ، سیاسی اور معاشرتی عدم استحکام کا شکار ہو تا چلا جاتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بھی عوام کی جزوقتی سوچ ہے جس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سیاسی پارٹیاں الیکشن میں پیسہ پانی کی طرح بہاتی ہیں۔ظاہر ہے یہ پیسہ حکومت میں آنے کے بعدلوٹ مار کے ذریعے ہی پورا کیا جاتا ہے لیکن اس کے لیے خزانے کا خوب بھرا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ چنانچہ خزانے کو بھرنے کے لیے بیرونی قرضے لیے جاتے ہیں جن کے بڑھتے ہوئے سود کی ادائیگی کے لیے قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ یوں قرضوں کا سود عوام اپنی جیب سے بھرتے ہیں ، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے ۔ این جی اوز اور بیرونی قوتوں کی بلیک میلنگ سے ملک سیاسی ، معاشی اور معاشرتی انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے ۔

تبدیلی اس وقت آئے گی جب عوام کی سوچ تبدیل ہو گی ۔ عوام جزوقتی مفاد کو دیکھنے کی بجائے اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے حوالے سے سوچیں گے۔ ظاہر ہے اس کے لیے کچھ قربانیاں دینا ہوں گی ۔یہ ملک بنا بھی قربانیوں کی بناء پر تھا اور اس میں انقلاب بھی قربانیوں سے ہی آئے گا ۔سب سے پہلے ہمیں اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرتے ہوئے موجودہ فرسودہ نظام کا بائیکاٹ کرنا ہوگا ۔ کیونکہ جب تک یہ فرسودہ نظام رہے گا اس کے تحت 1000سال تک بھی الیکشنز ہوتے رہیں گے تو پھر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ہر دفعہ بحرانوں میں شدت آئے گی ۔وجہ یہ ہے کہ یہ نظام انگریزوں نے اپنے خاص مہروں اور ایجنٹوں کے لیے بنایاہوا ہے ۔وہی مہرے جنہوں نے 1857ء کی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور اس کے بعد بھی انگریزوں کی وفاداری میں اسلام اور مسلمانوں سے غداریاں کرکے جاگیریں ، عہدے اورخطاب وصولتے رہے ۔موجودہ نظام کے تحت وہی نواب زادہ ، ملک زادے ، مخدوم زادے اور پیرزادے ہی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آئیں گے چاہے جتنی بار بھی الیکشن ہو ں یا جو بھی پارٹی حکومت بنائے ۔ہمارا آئین اور قانون بھی اسی طبقے کو تحفظ دینے کے لیے ہے۔ لہٰذا تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا اور نظام اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگا جب تک عوام کی سوچ تبدیل نہیں ہوگی اورہم ایک حقیقی تبدیلی کے لیے اپنے جز وقتی مفادات کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جائیں گے ۔

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 52274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.