وہ انٹرنیٹ کا رسیا تھا۔ اس کا ایک ہی شوق تھا اس نے
مختلف ناموں سے آٹھ دس سوشل آئی ڈیز بنائی ہوئی تھیں۔اس نے بے شمار فیس بک
کے گروپز میں شمولیت اختیار کی ہوئی تھی۔وہ مختلف پوسٹوں پر مختلف خواتین
کو نظر میں رکھتے ہوئے انھیں گروپ میں اور پرسنل میسجز میں انتہائی مخرب
الاخلاق میسجز کرتا۔ اکثر خواتین بدنامی کے ڈر سے ہی فیس بک اکاؤنٹ بند
کرکے ہمیشہ کے لئے توبہ کرلیتی تھیں ۔کچھ دلیر اور نڈر خواتین اس کی گروپ
ایڈمن سے شکایت کرکے اس کو باہر نکلوا دیتیں۔ مگر وہ ان کو فیس بک کے پرسنل
انباکس اور ای میل کے ذریعے ہراساں کرتا۔اس کو ان کو گندی گندی گالیاں دے
کر اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرکے بڑی خوشی محسوس ہوتی ۔وہ شیشے میں
اکثر اپنا عکس دیکھ کر سوچتا :
" میں تو شکتی کپور سے بڑا ولن بن گیا ہوں۔"
اس کا عکس یہ سن کر بے ساختہ اس کا منہ چڑاتا ۔ وہ ایک پچاس سالہ دھان پان
سا ، کھچڑی بالوں والا ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے
تھے۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں کلرک تعینات تھا۔ اس کی بیوی سدا کی بیمار
اور بے پروا عورت تھی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بچوں کے اخراجات اور بیٹیوں
کی شادیوں کی فکر نے اس کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں تھی اسی پریشانی میں
اکثر وہ رات گئے کمپیوٹر پر بیٹھ کر اپنا دھیان بٹاتا ۔ایک رات اس کے کان
میں شیطان کی سرگوشی نے اس کے ذہن میں یہ خیال ڈالا ۔ابتدا اس نے کم بے
ہودگی سے کی اور رفتہ رفتہ اس کی بے ہودگیاں بڑھتی گئیں ۔
آج کل وہ باربی ڈول کے نام سے ایک فیس بک آئی ڈی والی لڑکی کے پیچھے ہاتھ
دھو کر پڑا ہوا تھا ۔وہ لڑکی اپنے گھر کے ماحول سے برافروختہ تھی اور شادی
کی خواہشمند تھی۔اس کی کھٹی میٹھی چھیڑ چھاڑ پر بجائے خفا ہونے کے اس نے
خود اس کو پرسنل میسج کرکے دوستی کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے اپنا جال اس کے
گرد کسنا شروع کردیا ۔
آج وہ بنا ٹھنا گھر سے فتح ریسٹورنٹ کے لئے نکلا ۔ویٹر سے آٹھ نمبر فیملی
بوتھ کا پوچھ کر اس کے باہر پہنچا تو اندر سے آنے والی نسوانی آوازیں آشنا
سی محسوس ہوئیں ۔بے اختیار اس نے پردے کی جھری سے جھانکا تو اس کے سر پر
آسمان ٹوٹ پڑا ۔اندر بیٹھی ہوئی دونوں لڑکیاں کوئی اور نہیں اس کی اپنی
بیٹیاں تھیں ۔اس کی پچیس سالہ منجھلی بیٹی اس کی ستائیس سالہ بڑی بیٹی کو
کہہ رہی تھی ۔
"آپا! یہ سب غلط ہے ۔ہمیں اماں ابا کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ایک غیر مرد
سے ملنے نہیں آنا چاہئے تھا۔"
اس کی بڑی بیٹی بولی:
"ابا کو انٹرنیٹ سے فرصت کہاں ہے کہ وہ میری ڈھلتی ہوئی عمر کو دیکھیں
۔اماں صدا کی بیمار اور آدم بیزار ۔ میرا گھر کیسے بسے گا ۔شاید یہ آدمی
میرا ہاتھ تھام لے۔"
جنید کی آنکھوں میں ایسے لگتا تھا جیسے کسی نے مرچیں جھونک دیں ہوں۔ وہ
لرزتے پیروں سے واپس چل پڑا ۔اس کو اپنی اخلاقی باختگی کا شکار ان عورتوں
کے کوسنے یاد آرہے تھے ۔اس کو یاد آیا کہ کتنے گھروں کا سکون اس کے گندے
انباکس میسجز سے خراب ہوا تھا ۔اس کو اپنی پڑوسن یاد آئی کہ اس کے میاں نے
اس کے انباکس میں گندے میسیجز پڑھ کر اس کو کتنا مارا تھا اور جنید کی
مردانگی اور بیمار ذہنیت کو کتنی تراوٹ حاصل ہوئی تھی۔ اس کے قدم بے اختیار
ہی مسجد کی طرف اٹھ گئے ۔آج مولانا صاحب فحاشی پر لیکچر دے رہے تھے ۔
انھوں نے قرآن مجید کا حوالہ دیا:
لْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا
بَطَنَ (۵)
کہہ دیجیے میرے پروردگار نے ہر قسم کی اعلانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کو حرام
قرار دیا ہے۔
مولانا صاحب نے حدیث کا حوالہ دیا ۔
رسول خدا فرماتے ہیں:
علیٰ کل نفس من بنی آدم کتب حظہ من الزنا ادرک ذلک لا محالۃ فالعین زنا ھا
النظر والاذان زنا ھا السماع والیدزنا ھا البطش و الرجل زناھا المشی
واللسان زناہ الکلام والقلب یھوی ویتمنی۔(۱۰)
انسان کے ہر عضو کا زنا ہے وہ اسے پا لے گا۔ آنکھ کا زنا(غیر محرم کو)
دیکھنا کان کا زنا باتیں سننا، ہاتھ کا زنا چھونا، پاؤں کا زنا(غیر محرم)
کی طرف جانا، زبان کا زنا گفتگو کرنا جبکہ دل اس کی خواش اور تمنا کررہا
ہو۔
جنید خوف خدا سے لرز گیا اور سجدے میں گر گیا۔ اللہ تعالی نے آج اس کو
مکافات عمل سے ملوایا تھا اور اس کے آنسو اور ندامت سے جھکا سر اس امر کی
نشاندہی کررہا تھا کہ اللہ تعالی نے اسے ایک موقع اور دیا تھا۔
میں صرف ایک گذارش آپ سب سے کرونگی،ہر چیز کے مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں
۔براہ مہربانی فیس بک پر دوستیاں کرنے ، گروپز میں خواتین کو تختہ مشق
بنانے سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات یاد
کرلیا کریں اور پھر بھی احساس نہ جاگے تو اپنی ماں،بہنوں اور بیٹیوں کو نظر
بھر کر دیکھ لیا کیجیے ۔دنیا میں آپ جو بانٹیں گے وہی پلٹ کر آپ کے گھر آئے
گا چاہے وہ آسانی ہو یا دھوکا ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ |