واقعی غربت”ختم “ ہو رہی ہے

روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کا کہنا ہے اس کی پالیسیاں عوام کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ہیں جبکہ ان کے ثمرات توقعات سے زیادہ مثبت ثابت ہوئے ہیں۔ انیسویں ترمیم پر دستخط کی تقریب سے خطاب میں صدر آصف علی زرداری نے بھی ایسے ہی بلندو بانگ دعوﺅں کو دہرانے کی روش برقرار رکھی ہے۔ صدر تو دور کی بات آپ کسی بھی حکومتی عہدیدار یا پھر جیالے سے بات کرکے دیکھ لیں، سبھی کا یہی مؤقف ہوتا ہے کہ گزرے تین برسوں میں ”عوامی“ پارٹی نے عوامی ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لے کر ترقیاتی اور معاشی منصوبوں کے ایسے ایسے حوالے دیئے جاتے ہیں کہ سننے والے کا وہیں کم از کم خود کشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ خوش نما وعدوں اور اس طرح کے بے بنیاد دعوؤں کو دیکھیں تو واقعی پاکستان ترقی یافتہ دکھائی دیتا ہے لیکن جیالوں کے بجائے اگر حقیقت اور اعدادوشمار کی آنکھ سے نظارہ کریں تو ارض وطن پر سوائے بڑھتی ہوئی غربت اور لاچاری کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ یہی اعدادو شمار جہاں گزشتہ تین برسوں میں حکومتی ”کارناموں“ کا پردہ چاک کرتے وہیں سال نو کے آغاز ہی پر پٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں انتہائی غیر معمولی اضافے کا”تحفہ“ پیپلز پارٹی کی ”خیر خواہی“ کا بھی غماز ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بات کریں تو اس کے ذریعے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خط غربت کی لکیر سے نیچے 15فیصد آبادی کو ہر ماہ ایک ہزار روپے دیے جاتے ہے اور حکومت کا ہدف اس پروگرام کے تحت ملک کی 40 فیصد غریب آبادی تک پہنچنا ہے۔اس پروگرام پر بعض حلقوں بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تنقید بھی کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود کہیں بھی حکومت کی جانب سے اس سوال کا جواب نہیں آیا کہ صرف ایک ہزار روپے میں ایک گھرانے کا بجٹ آخر کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والے ماہانہ ایک ہزار روپے میں زیادہ نہیں صرف دو افراد کے اخراجات کا گوشوارہ ترتیب دیکر دکھا دیا جائے ہم یہ چمتکار کرنے والے کو اپنا”گرو“ مان لیں گے۔ اگر جواب نہیں میں ہے تو خدارہ انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کر کے دوسروں کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ ترک کردیا جائے کہ حقیقت سے صرف میرے جیسے لفظوں سے کھیلنے والے ہی نہیں اس ملک کا ایک عام شہری بھی اتنا ہی واقف ہے جو انتہائی بدتر صورتحال کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ خود سب اچھا کے دعوے کرنے والی حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے بھی کافی ہے۔

گیلپ سروے کے مطابق معاشی مشکلات کے باعث لوگوں کی ایک بڑی اکثریت گذشتہ تین نہیں بلکہ صرف ایک سال کے دوران حکومت سے مایوس اور بدظن ہوئی ہے جس کی سب سے بنیادی اور بڑی وجہ مہنگائی کا وہ طوفان ہے جو تھمنے ہی میں نہیں آرہا۔ گیلپ سروے کے بعد خود عالمی بنک سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مشرف دور میں پاکستان میں غربت کم ہو گئی تھی جبکہ موجودہ دور حکومت میں اس میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سابق دور میں مجموعی گرانی اوسطاً 7فیصد رہی جس سے غربت کی شرح 2001ء کے 34.5فیصد سے کم ہو کر 2007/08ء میں 17.2فیصد پر آ گئی۔ اس عرصہ میں بیروزگاری کی شرح 8.3فیصد (2001-02ء) سے کم ہو کر 5فیصد رہ گئی تھی۔ صنعتی شعبہ میں گروتھ ریٹ 7.5فیصد رہی۔ جبکہ لارج مینو فیکچرنگ سکیل (LMS) میں گرانی 90فیصد تک گئی جو کہ اب 4سے 6فیصد رہ گئی ہے۔ اس طرح روپے کی قیمت میں استحکام رکھا گیا اور اس کی ویلیو 62.5روپے فی ڈالر رہی۔ جو کہ اب 85روپے تک پہنچ چکی ہے اس سے پبلک ڈبٹ کے حجم میں 1125ارب روپے کا اضافہ ہوا اس طرح مجموعی طور پرپبلک ڈبٹ کا حجم جو جون 07ء میں 4814 ارب روپے تھا وہ جون 2010ء میں 8913ارب روپے سے بھی بڑھ چکا ہے۔ اس طرح 3سال میں اس میں 4099ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ جبکہ غیر ملکی قرضوں کا حجم اس عرصہ میں 40.3ارب ڈالر تھا وہ اب بڑھ کر 55.6 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔

حکومتی دعوﺅں کے جھوٹ ہونے کا ایک اور ثبوت ملک بھر میں خسارے میں چلنے والے قومی ادارے ہیں جن کو لاکھ اعلانات اور کاغذی کاروائیوں کے باوجود حالت سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتی جارہی ہے۔ حکومت ریلوے، سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اہم قومی اداروں کے مالی خساروں کو پورا کرنے کے نام پر سالانہ 300 سے 350 ارب روپے خرچ کررہی ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات جو یقیناً مالی دشواریوں میں اضافے کا سبب ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا شروع ہی سے یہ مؤقف رہا ہے کہ مالیاتی بحران سابق دور کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور مہنگائی سمیت تمام معاشی مسائل اسے ورثے میں ملے ہیں۔ ایک ساعت کے لئے مان لیا کہ ایسا ہی ہے لیکن سٹیٹ بینک کی اس رپورٹ کا کیا کیجیئے کہ جس میں سارے رام رولے کا ذمہ دار ہی حکومتی قرضوں کو قرار دیا گیا ہے جس میں شیطان کی آنت کی طرح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ مالی مشکلات کو کم کرنے کے لیے حکومت کو سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ہر ماہ قرض لینا پڑ رہا ہے جو مزید دشواریوں کا باعث بن رہا ہے۔ اندرون ملک قرض کے علاوہ حکومت نے عالمی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے اس کی شرائط پر معاہدے بھی عام آدمی کے منہ سے نوالہ چھیننے کا سبب ہیں۔ کہنے کو تو یہ قرضے عوامی منصوبوں یا پھر سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ ہو رہے ہیں لیکن گورنر سٹیٹ بینک اس بات سے متفق نہیں اور ان کے مطابق سارے کا سارا بکھیڑا حکومتی عیاشیوں کے لئے ہے۔ حکومتی اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں پورا کرنے کے لئے حکمران ”کچھ بھی “ کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں لیکن ان اخراجات کی کمی بارے سوچنے کی توفیق انہیں کبھی نہیں ہوئی۔ اوپر سے حالت یہ ہے کہ ہر حکومتی عہدیداراور حمایتی اس صورت حال کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے بھانت بھانت کی بولیاں بول کر عوام کے ساتھ ساتھ خود کو بھی دھوکہ دینے میں مصروف ہے۔

کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کی بہتری جانچنے کا عالمی پیمانہ وہاں کی سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو بھی کامیاب ترین ہونے کے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں سٹاک مارکیٹ میں انڈکس 13ہزار پوائنٹ تک گیا پاکستان اکانومی کا مائنز 1999ء میں 70ارب ڈالر سے بڑھ کر 60ارب ڈالر تک پہنچا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری 6ارب ڈالر رہی جس میں اس وقت 50فیصد سے بھی زائد کی کمی ہو چکی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کی تیسری سالانہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور حکومت میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں اضافے سے ہر سطح پر عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے جس نے معاشی نمو کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت صرف پنجاب معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے متحرک نظر آرہا ہے، مگر بلوچستان میں آمدنی کی سطح گر رہی ہے، سندھ کے دیہی علاقوں میں قوم پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہے۔ یہ صورتحال ملک کے پسماندہ علاقوں میں بنیادی سہولت کے ڈھانچے کی ترقی میں مرکزی حکومت کی سرمایہ کاری اور اقدامات کی ناکامی کی عکاسی کرتی ہے، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے۔پرائیویٹ انویسٹمنٹ کی شرح میں2008-09ء میں سات فیصد کمی ہوئی تھی جس نے مسائل میں مزید اضافہ کیا جو انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کا کارکن ہونے کے ناتے ہر جیالا چونکہ خود کو ہی حکمران سمجھتا ہے لہٰذا ان کے عتاب سے بچنے کے لئے براہ راست ان کو جواب تو ہمارے بس میں نہیں البتہ ان سطور کی آڑ لے کر جواباً اتنا ضرور عرض ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو حکومت کی مدت ختم ہونے تک غریبوں کا واقعی نام و نشان تک مٹ جائے گا، اس زاویے سے تو وہ اور ان کی حکومت سچ ہی کہتی ہے کہ غربت”ختم“ ہورہی ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54765 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.