استعماری قوتوں کا ایک ہتھیار، بیرونی قرضے، اصل حقیقت اور اَس کا صحیح ترین حل

23دسمبر2010کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خزانہ حنا ربانی کھر نے بتایا کہ پاکستان کے بیرونی قرضہ جات 53.7ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ وزیرِ موصوف نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے تین سالوں میں یعنی 2007سے لے کر 2010تک پاکستان 6ارب ڈالر کی قرض کی ادائیگی اور تقریباً2.6ارب ڈالر سود کی مد میں بھی واپس کرچکا ہے یعنی ساڑھے آٹھ ارب ڈالر واپس کرنے کے باوجود بھی پاکستان کے قرضے 53.7ارب ڈالر ہی ہیں۔ یاد رہے کہ 19مئی 2007میں پاکستان اسٹیٹ بینک کی طرف سے ایک پریس ریلیز میں یہ بتایا گیا تھا کہ اُس وقت پاکستان کے کل بیرونی قرضے 38.8ارب ڈالر تھے۔

بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ سب سے پہلے پاکستان کی پہلی ملٹری گورنمنٹ ایوب خان کے دور میں ہوا جب پاکستان کا قرضہ 373ملین ڈالر سے بڑھ کر 2701ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ بھٹو کے دور میں بھی بیرونی قرضے لیے گئے اور 1978تک پاکستان کے بیرونی قرضے 8.7ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہ قرضے ایک بار پھر نہایت تیزی سے بڑھے اور صرف دو سالوں کے اندر اندر1980تک یہ قرضے 22ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ یہی معاملہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دورِ حکومتوں میں جاری رہا، یہاں تک کہ آخری ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے حکومت سنبھالنے تک یہ قرضے 38ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ملک بیرونی قرضوں کی طرف کیوں جاتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ جو ممالک یا ادارے قرض دیتے ہیں وہ قرض دینے کے ساتھ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ذیل میں اِن دونوں سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے:

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو نہایت آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر ملک اپنی کچھ اشیاء کو دوسرے ممالک کو برآمد کرتا ہے اور اِسی طرح کچھ اشیاء اپنے ملک میں درآمد بھی کرتا ہے۔ اب اگر برآمد کرنے پر ہونے والی آمدنی ، درآمد کرنے پر ہونے والے خرچ سے کم ہو تو اِسے ادائیگیوں کے توازن (Balance of payments) میں خسارہ کہتے ہیں۔ اگر یہ خسارہ مسلسل ہو تو یہ بحران کی شکل اختیار کرلیتا ہے یعنی آمدن اِس قابل نہیں ہوتی کہ وہ ادائیگیوں کو پورا کرسکے۔ چنانچہ اِس کرنسی کے ذخائر میں خسارے پر قابو پانے کے لیے خسارے والے ممالک کچھ عارضی حل اپناتے ہیں اور چند پالیسیاں اور اقدامات متعارف کرائی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی اقتصادی صورتحال بہتر کرسکے اور ادائیگیوں کے توازن(Balance of payments) میں بہتری لا سکیں۔ آج کل استعمال ہونے والے چند اقدامات یہ ہیں:
1) فنانشل مارکیٹ میں شرح سود کو بڑھا نا تاکہ بیرونی سرمائے کی ملک کے اندر آنے کی حوصلہ افزائی ہو۔
2) درآمدات کو کم کرنے کے لیے اُن پر کسٹم ڈیوٹیاں اور دیگر ٹیکس یا حربوں کا نفاذ۔
3) اپنی کرنسی کی قیمت کو گرانا تاکہ ملکی اشیاء کی قیمتیں بیرونی مارکیٹوں میں گریں اور اِس وجہ سے غیر ملکی اِن اشیاء کو خریدنے میں اضافہ کریں(کیونکہ اِس طریقے سے ملکی چیزیں غیر ملکیوں کے لیے سستی ہوجاتی ہیں)۔ باالفاظِ دیگر اِس طریقے سے برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ حربہ صرف اُس وقت کامیاب ہے جب جن اشیاء کو برآمد کرنا ہے وہ کثیر تعداد میں پیدا کی جاچکی ہوں تاکہ اِن کو فوری برآمد کر کے آمدنی حاصل ہوسکے۔ اور دوسرے ممالک جو یہی اشیاء بیچ رہے ہیں اپنی کرنسی کی قیمت نہ گرائیں۔ تاہم اگر ریاست نے اتنی بڑی تعداد میں برآمدات کرنے کے لیے چیزیں تیار نہ کی ہوں تو یہ اقدام الٹا نقصان دہ بن جاتا ہے کیونکہ کرنسی کی قیمت گرنے سے ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہاں پر اِس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ کچھ ممالک یا پھر تقریباً سارے بڑے ممالک اپنے خساروں کو پورا کرنے کے لیے اپنی کرنسیاں چھاپنا شروع کردیتے ہیں اور اِن کرنسیوں کی پشت پر کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اِس لیے کرتے ہیں تاکہ اُن کو اپنی کرنسی کی قدر نہ گرانی پڑے، نہ ہی قرض لینے پڑیں اور نہ ہی ایسے سخت اقدامات اُٹھانے پڑیں جن کی وجہ سے اندرونی انتشار اور ہنگامہ آرائی کا خطرہ ہو۔ لیکن بہر حال یہ نوٹ چھاپنے سے افراطِ زر میں اضافہ ہوگا یعنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ جو کہ اشیاء اور کرنسی کی مقدار میں عدم توازن سے پیدا ہوتا ہے۔ افراطِ زر پر عموماًقابو کرنسی کی تعداد اور اشیاء اورخدمات (services) میں توازن قائم کرکے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یعنی یہ اِس طرح ہوتا ہے کہ یا تو پیدا وار بڑھاکر اشیاء او خدمات (services) بڑھائی جائیں یعنی اقتصادی صورتحال بہتر بناکر خصوصاً پیداواری پہلو سے اور یا پھر مارکیٹ میں زائد کرنسی کو خرید کر اُسکی مقدار کو مارکیٹ میں کم کیا جائے۔ کرنسی کو مارکیٹ میں کم کرنے کا طریقہ کرنسی پر شرح سود بڑھانا ہے جس کے باعث لوگ اِس کرنسی کو بینکوں میں محفوظ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یا پھر یہ اِس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ تمام تجارتی بینکوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مرکزی بینک میں موجود اپنے کرنسی کے حصوں کو بڑھادیں اور اُس کے بعد اُنہیں منجمد کردیا جائے۔ تاہم اِن اقدامات سے بُرے نتائج نکلتے ہیں کیونکہ اِن سے سرمایہ کاری کم ہوجاتی ہے۔ اور اقتصادی صورتحال میں جمود (stagnation) آ جاتا ہے۔ چنانچہ جب نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کے بعد یہی عمل کیا تھا تو پاکستان کی معیشت کو یہی جمود دیکھنے کو ملا تھا۔

تاہم آج کل خسارے کو پورا کرنے کا سب سے آسان طریقہ قرضے لینا ہے جس سے ادائیگیوں میں توازن قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن جب قرضے لیے جاتے ہیں تو ایک نیا بحران پیدا ہوجاتا ہے جہاں یہ ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس سکتا ہے خاص طور پر جب یہ قرضہ اُن اقدامات میں نہ استعمال ہو جو ملکی آمدنی میں اضافہ کا باعث بنیں۔ اور یہی تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اِن ممالک نے قرضوں کے خسارے کو پورا کرنے کا سب سے آسان طریقہ سمجھا کیونکہ اِن ممالک میں کچھ تو اپنی بنیادی ضرورت کی چیزیں تک نہیں پیدا کرتے۔ اور ویسے بھی اِن کے پاس برآمد کرنے کے لحاظ سے چند اشیاء کے سوا کوئی ایسی خاص اشیاء نہیں ہوتی۔ اِس لیے اِن کے لیے قرضوں کے ذریعے خسارے کو پورا کرنا ہی ممکنہ ذریعہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ درآمدات میں کمی کرتے ہیں تو ملک میں اشیاء کی قلت پیدا ہوتی ہے جس سے اُن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجتاً پیدا واری عمل میں خلل واقع ہوتا ہے جس سے بیروزگاری بڑھتی ہے اور ترقی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور اگر ریاست چاہے کہ یہ خسارہ اپنے موجودہ سونے اور خارجہ کرنسی کے ذخائر(Reserves) سے پورا کرے تو یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ عموماً تیسری دنیا کے ممالک کے پاس یہ ذخائر(Reserves) بہت کم ہوتے ہیں۔ مزید برآں اگر یہ ذخائر خسارہ پورا کرنے میں لگ گئے تو اِس سے ذخائر (Reserves) خطرناک سطح تک آجائیں گے، جس کے نتیجے میں ملکی کرنسی کی قیمت گرنے لگے گی۔ اور اگر اِس کے ساتھ ساتھ اِن میں کئی ممالک میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کے استحصال کو بھی شامل کرلیں تو نتیجتاً قرضوں پر ہی انحصار رہے گا۔ جو چیز قرضوں کے بحران کو شدید کرتی ہے وہ اِن قرضوں کو تین مہلک چیزوں کے ساتھ منسلک کرنا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1: اِن قرضوں کو ایسے منصوبوں میں استعمال کرنا جن کا پیداواری لحاظ سے کوئی فائدہ نہ ہو، جیسا کہ اِن قرضوں کو تفریح اور عیاشیوں میں صرَف کرنایا پھر صِرف پروپیگنڈہ اور جھوٹ میں اڑا دینا۔ یہ سب اقتصادی لحاظ سے مفید نہیں بلکہ الٹا خسارے میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
2: اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کا کمیشن(Commission)اور رشتوتوں کے ذریعے قرضوں سے حاصل کئے ہوئے مال کا ایک بڑا حصہ غبن کرلینا۔ یہ سرکاری عہدیدار فوجی بغاوتوں یا حکومت کی تبدیلی کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس غبن کئے ہوئے مال کومحفوظ کرنے کی خاطر بیرونی ممالک سمگل کردیتے ہیں اور اِس طرح وہ ملک کو دہرا نقصان پہنچاتے ہیں یعنی پہلے عوام کے پیسے میں سے ایک بڑے حصے کا غبن کرنا، جسے ترقی کی کوششوں میں صَرف کیا جانا چاہیے تھا تاکہ ملکی اقتصادی صورتحال میں بہتری آتی اور دوسرا کہ اُس کو غبن کرنے کے بعد ملک سے باہر سمگل کردینا جس سے ملک پر خرچ ہونے والا سرمایہ ملک میں رہنے کی بجائے باہر چلا جاتا ہے۔ اِسی مسئلے پر امریکہ میں موجود مورگین ٹرسٹی بینک(Morgan Trustee Bank) نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں اندازا لگایا گیا تھا کہ تیسری دنیا کو دئیے ہوئے 40سے 60فیصد قرضے اعلیٰ افسران کے نام پر یا اُن کے رشتے داروں کے نام سے کھلے ہوئے خفیہ اکاؤنٹس کے ذریعے واپس پہلی دنیا کے بینکوں میں آجاتے ہیں۔ چنانچہ رپورٹ کے مطابق 80کی دہائی سے تیسری دنیا کو جاری کئے گئے تقریباً 1500ارب ڈالر میں سے تقریباً1000 ارب ڈالر پہلی دنیا کے بینک اکاؤنٹس میں واپس آچکے ہیں جو کہ تیسری دنیا کے اعلیٰ عہدیداروں اور افسران کے نام سے کھلے خصوصی اکاؤنٹس میں جمع ہیں۔
3: سپر پاورز یا پھر بڑے بااثر ممالک عموماً اِن قرضوں کو تیسری دنیاپر اپنے اقتصادی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ خاص طور پر ایسی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جس سے تیسری دنیا کے ممالک کو قرض لینے کی ترغیب ملے اور پھر اُن قرضے دینے والے ممالک کے مقاصد کو پوراکرنے پر آمادہ ہوں چاہے وہ مقاصد اقتصادی ہوں یا سیاسی۔ اور اِس کے ذریعے اُس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ آخر یہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو قرض کیوں دیتے ہیں؟ اِس بات کے ثبوت میں جنرل کلے کمیٹی کی رپورٹ کافی اہمیت رکھتی ہے۔ مارچ 1963کے آخری ہفتے میں امریکی امداد کے بارے میں جاری کردہ جنرل کلے کمیٹی (Commitee of General Clay) کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کا تیسری دنیا کے ممالک کو قرض دینے کی وجہ اور وہ شرائط جن پر یہ قرضے دئیے جاتے ہیں حقیقت میں امریکہ اور لبرل ممالک کا تحفظ کرنا ہے۔ یعنی اِن قرضوں کا مقصد تیسری دنیا کی امداد کرنا نہیں بلکہ اُنکو اپنے زیرِ اثر لانا ہے۔ جبھی 60کی دہائی کی شروعات میں انڈونیشیا میں امریکہ نے انتشار پیدا کر کے اُس پر دباؤ ڈلا کہ وہ قرض لے۔ گرانٹس اور قرضے آج بھی سپرپاورز چھوٹے ممالک پر سیاسی غلبے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی ادائیگیوں کا توازن ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے لیکن وہ پھر بھی ہر سال قرض اور گرانٹس جاری کرتا رہتا ہے۔

دوسرا ثبوت قرض دینے والے اداروں خصوصاً IMFکی شرائط ہیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ IMFکو بنانے کے وقت اِس ادارے میں فیصلہ سازی کو اِس طرح سے ترتیب دیا گیا کہ جس میں امریکہ کی اِس کے فیصلوں پر بالادستی یقینی بن گئی، کیونکہ IMFمیں ہر ملک کو فیصلوں میں اُتنے ہی ووٹ حاصل تھے جتنے اُس کا فنڈ میں مالی تعاون تھا۔ اورچونکہ امریکہ کا اِس فنڈ میں سب سے بڑا حصہ تھا یعنی کل مالیاتی فنڈ کے 27.2فیصد حصے کے برابر، لہٰذا IMFکے تمام فیصلوں میں امریکہ کی بالا دستی قائم ہوگئی۔

اِن تمام وجوہات کی وجہ سے یہ بات واضح ہے کہ اگر ایک مرتبہ کوئی ملک اِن قرضوں کی راہ اپنا لیتا ہے تو پھر وہ اُس کے جال میں پھنس جاتا ہے جس سے نکلنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ قرضوں کا بحران میں شدت سے جب بھی کوئی ریاست اپنا قرض (بشمول سود اور دیگر منافع جات) واپس کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو اُس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اِن قرضوں کی تاریخ کو آگے بڑھوانے میں کامیاب ہوجائیں اورساتھ ہی ساتھ مزید قرض لے لیتی ہے تاکہ اُن کااقتصادی پہیہ چلتا رہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے قرض دینے والے ممالک کا گروپ یعنی پیرس کلب اور قرض دینے والا کمرشل بینکوں کا گروپ یعنی لندن کلب دونوں کے دونوں کلب مقروض ممالک سے کہتے ہیں کہ وہ پہلے IMFسے اعتماد اور بھروسے کا سرٹیفکیٹ حاصل کریں، جیسا کہ اچھی چال چلن کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے۔ اِس سرٹیفکیٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ مقروض ملک اقتصادی ترقی کا رویہ اپنائے گا۔ لیکن اِس سرٹیفکیٹ کو حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مقروض ملک ایک اقتصادی اصلاحات کے پروگرام پر عمل درآمد شروع کرے۔ اِن اصلاحات میں عموماً ملکی کرنسی کی قیمت گرانے کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی ضروریات کی اشیاء پر سے سبسڈی کا خاتمہ کرنا، لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ روکنا یااُن کی سرے سے ادائیگی میں تاخیر کرنا، سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی کرنا، عوامی سہولیات بلخصوص توانائی کے شعبہ کی قیمتوں میں اضافہ کرنا، ملکی کرنسی پر شرحِ سود بڑھانا تاکہ بچت بڑھے اور بیرونی سرمایہ ملک میں آئے اور اِسی کے ساتھ آزاد تجارتی یعنی غیر ملکی تجارت کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا شامل ہوتاہے۔ اِس کی بہترین مثال موجودہ حکومت میں IMFکے ساتھ معاہدے کی شرائط ہیں جس کے تحت پاکستان میں RGSTکا نفاذ، بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، تمام سبسڈیز کا خاتمہ اور اِسی طرح کی دیگر شرائط کا لگایا جانا ہے۔

IMFکے ذریعے قرضوں کے مسئلے کو حل کرنا حقیقت میں مسئلے کو زیادہ گھمبیر بنا دیتا ہے، کیونکہ IMFکا پروگرام جس میں مسئلے کا حل بھی ہوتا ہے اُس کی بنیاد علمِ حساب (arithmetic basis) پر ہوتی ہے۔ IMFاِس مسئلے کو صرف ایک علمِ ریاضی کا ایک سوال سمجھتا ہے جس کے حل کے لیے وہ صرف اخراجات اور آمدن میں توازن قائم کرنے کے لیے یا تو آمدن میں اضافے کا سوچتا ہے اور یا تو اخراجات میں کمی لانے کا اور اِس بات کی قطعاً فکر نہیں کرتا کہ اِس مجوزہ حل کا انسانوں کی زندگیوں اور اُن کے معاملات پر کیا اثر پڑے گا۔ مثال کے طورپر IMF آمدن کو بڑھانے کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کو کہے گا حالانکہ وہ بخوبی واقف ہے کہ مقروض ممالک میں شرحِ ٹیکس ویسے ہی لوگوں کی استطاعت سے زیادہ نہیں تو کم از کم استطاعت کی حد تک ہوتی ہے۔ یا IMF یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِن ممالک میں روٹی، دودھ، چاول، چینی، گندم اور ایندھن جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں ویسے ہی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں، پھر بھی وہ اِن اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی ہدایات دیتا ہے۔ یا وہ یہ جاننے کے باوجود کہ مقروض ممالک کی پیداواری اور برآمدی قابلیت بہت کمزور ہے، لیکن پھر بھی ملکی کرنسی کی قدر گرانے کو کہتا ہے ، جس کا لازمی نتیجہ اشیاء کی قیمتوں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔ IMFکی ہدایات کے وجہ سے جہاں ایک طرف بنیادی اشیاء کی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں وہیں دوسری طرف IMFیہ ہدایات بھی جاری کرتا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں کے بڑھانے پر پابندی عائد کی جائے۔ بلکہ بسا اوقات IMF اِس حد تک تجاویز دیتا ہے کہ اُن کی تنخواہیں کم کردی جائیں تاکہ سرکاری اخراجات کم ہوجائیں۔ مثال کے طور پر IMFنے برازیلین حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ مزید قرض لینا چاہتا ہے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو 20فیصد تک کم کردے۔ دسمبر 1985 میں IMFنے نائیجیریا سے اپنی کرنسی کو 60فیصد تک گرانے کو کہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ تیل کی مصنوعات سے تمام سبسڈی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ 1986کی شروعات میں IMFنے سوڈان سے بھی کرنسی کی قیمت گرانے اور سبسڈی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتوں کو آزاد چھوڑنے (Liberalinsing prices) کا مطالبہ کیا تھا۔ اِسی طرح مصر سے 70کی دہائی میں، مراکش اور تیونس سے 1984کی شروعات میں، ڈومیکین ریپبلکن سے اپریل1984اور فروری1985میں، اردن سے اپریل1989میں سبسڈی کم کرنے اور قیمتوں میں اضافے کے مطالبات کئے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے اِن ممالک کی عوام نے IMFکی وجہ سے پڑنے والے بوجھ کے خلاف بطورِ احتجاج ہنگامہ آرائی شروع کردی تھی۔

تاہمIMFکے یہ تمام ظالمانہ مطالبات قرضوں سے نجات کے لیے نہیں بلکہ صرف اِن کی واپسی کی تاریخ میں تاخیر کے لیے ہیں۔ باالفاظِ دیگر کہ یہ تمام جابرانہ مطالبات صرف واپسی کی تاریخ کو بڑھانے کے لیے ہیں جہاں نئی تاریخِ واپسی تک قرضوں اور سود کا بوجھ اور زیادہ ہوچکا ہوگا۔

عام طور پر ورلڈ بینک کا قرض دینے کے حوالے سے کردار IMFکی طرح ہی ہے۔ IMFاُن ممالک کو قرض نہیں دے سکتاجو اُس کے قوانین کے مطابق قرضوں کی حد کو پار کرچکے ہیں۔ عموماً یہ قرض اُن منصوبوں کے لیے لئے جاتے ہیں جو اِس طرح سے ترتیب دئیے گئے ہوتے ہیں جو اِن مقروض ممالک کی ترقی میں رکاوٹ بن جائیں اوراِن ممالک کی معیشت زیادہ تر بیرونی امدادکی محتاج بن جائے۔

حقیقت میں IMFاور ورلڈ بینک کی پالیسیاں وہ حاصل نہیں کرسکیں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ اِن مقروض ممالک میں کہیں معیشت کی بحالی نظر نہیں آتی، اُلٹا قرضوں میں ڈوبے ہوئے ممالک کے قرض ختم ہونے کی بجائے، مزید بڑھ جاتے ہیں، اور اِس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ وہ IMFکی ہدایات پر چل کر اِن کو ختم کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔

IMFاور ورلڈ بینک کے ذریعے نافذ موجودہ عالمی اقتصادی نظام جو نہ صرف انسانی فطرت اور عقل کے خلاف ہے، کی طرف سے دئیے گئے حل کے نتیجے میں اِن ممالک میں ہونے اقتصادی بدحالی کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ 1972میں ترقی پذیر ممالک کے کل قرضے 91ارب ڈالر تھے جبکہ 1986کے آخر تک یہ قرضے 1000 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ گئے تھے۔ اِن قرضوں میں اسلامی ممالک کا حصہ 22.4 فیصد تھا، جبکہ عرب ممالک کا حصہ 15فیصد کے قریب تھا جو لگ بھگ 200ارب ڈالر کے برابر ہے۔ اکیلے مصر کا 1986تک قرضوں کا حجم 40ارب ڈالر تھا۔ یہ رقم اُس قرضے کی ہے جو 1970-85 کے عرصے کے دوران لیے گئے۔ سالانہ قسط ، سود کی رقم اور بقایا جات جو اُس کو جنوری 1987سے جون 1988کے درمیان واپس کرنا تھا صرف وہی 10ارب ڈالرسے بھی تجاوز کرگیا تھا۔ جبکہ پاکستان کے قرضوں کی تفصیل میں شروع میں بیان کرچکا ہوں۔

یہ صرف چند اعدادوشمار کی مثالیں ہیں جو اِس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ قرضوں کے حجم میں 1982کے بعد سے بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مسلمان ممالک کے یہ قرض اِس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اِن سے چھٹکارا ناممکن نظر آرہا ہے۔ اور یہ واقعی ناممکن رہے گا اگر اِس کے حل کے لیے ہم موجودہ عالمی اقتصادی نظام کے غلط تدارک(Treatment) اور IMFاور ورلڈ بینک کی مہلک پالیسیوں کے ساتھ نتھی رہیں گے۔

اِس مسئلے کا صحیح ترین حل صرف اور صرف اسلام نے دیا ہے اور اسلام کا نظامِ خلافت ہی ہے جس کے ذریعے آج مسلم ممالک میں موجودہ قرضوں کی وجہ سے آنے والے بحران سے نپٹا جا سکتا ہے۔ اِس کے لیے اسلام مندرجہ ذیل احکامات دئیے ہیں:
1: تمام قرضوں پہ لاگوں سود کی ادائیگی نہ کرناکیونکہ یہ ربا ہے، سورۃ البقرہ کی آیت نمبر279میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر تم توبہ کرلو(اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے‘‘اور یہ سود ہی ہے جو اصل میں قرضوں کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ پیچھے دی گئی مثالوں سے یہ صاف ظاہر ہے۔
2: قرضوں کو بغیر سود کے اداکردینا۔ قرضوں کے مسئلے کو حل کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اُن تمام لوگوں کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے جنہوں نے قرضے لینے کے ادوار میں حکومت میں شمولیت اختیار کی ہو یا پھر کوئی حکومتی عہدہ سنبھالا ہو۔ یہ اِس لیے کہ وہ اِنہی ادوار میں مال دار ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرضے اِنہی لوگوں کی عام ضروریات سے زیادہ موجود مال اور اُسی تناسب سے جس تناسب میں اُن کا زائد مال ہے، واپس دئیے جانا چاہیے۔ یعنی اگر پہلے شخص کا زائد مال 10لاکھ، دوسرے کا 5لاکھ اور تیسرے کا ڈھائی لاکھ ہو تو پھر قرضوں کی واپسی کی ذمہ داری میں بھی اُن کا تناسب اِسی حساب سے 4:2:1ہونا چاہیے۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ حکمرانوں پر ہی یہ ذمہ داری ڈالنی ضروری ہے تو اِس کے شرعی دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
ا) اسلام میں حکمران کی ذمہ داری اصل میں عوام کے امور کی دیکھ بھال کرنا ہے، اور اِن امور میں اقتصاد امور بھی شامل ہیں ، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’امام(حکمران) ذمے دار ہے، اور وہ اپنی ذمہ داری کے حوالے سے جوابدہ ہے‘‘او ر حکمران ہی ہوتے ہیں جو قرض لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا:’’نقصان(نہ اپنے آپ کو پہنچانا جائز ہے) اور نہ دوسروں کو‘‘یعنی تمام نقصان کو دور کرنا ضروری ہے اور یہ ذمہ داری اُن پر ہے جواِس نقصان کا سبب بنے ہیں۔ کیونکہ قرضے لینا اور لوگوں کو مقروض کردیناامت کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے۔
ب) دوسرا یہ کہ اسلام کے حکم کے مطابق وہ شخص جو کوئی حکومتی عہدہ رکھتا ہے اُس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی تجارتی کام میں شامل ہو۔ وہ صرف اپنے ماہانہ معاوضے کا حق دار ہے۔ تو اگر وہ اپنے دور میں مال دار ہو جاتا ہے، تو اُس کا احتساب ہونا چاہیے، اور یہ بات آج کل کے تمام حکمرانوں میں مشترکہ ہے کہ اُنہوں نے حکومت کے لیے ہوئے قرضوں سے مال کھا کر اپنی دولت بڑھائی ہے۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ کو اپنے کسی والی (گورنر) پر بدعنوانی کا شبہ ہوتا تو وہ حساب شدہ مال سے زائد مال کو ضبط کرلیتے۔ حضرت عمرؓ اپنے تمام والیوں کو عہدہ دئیے جانے سے پہلے بھی اور واپس لیے جانے کے بعد بھی اُن کی دولت کاحساب لگاتے اور اگر اُن کا مال اصولی حساب سے زیادہ پایا جاتا تو وہ اُس کو ضبط کرکے ریاستی بیت المال میں جمع کردیتے اور اُس وقت تمام اکابر صحابہؓموجود تھے اور کسی نے بھی اِس ضبتگی کو اُن کی ذاتی ملکیت پر دست درازی نہیں سمجھا تھا کیونکہ یہ آمدنی ناجائز تھی۔ کیونکہ اگر کوئی شخص کسی حکومتی عہدے پر فائز ہو اور وہ اپنے دورِ حکومت کے دوران بہت مال دار ہوجائے تو یہ اُس مال کو ضبط کرنے کے لیے ثبوت کے طور پر کافی ہے، کیونکہ اُس کا جائز حق صرف اُس کی تنخواہ ہے اور یہ تمام مال اُس سے زائد ہے۔ لیکن جہاں تک اُن سرکاری ملازمین کا تعلق ہے جوکسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں تو اُن کا مال اُس وقت تک ضبط نہیں کیاجاسکتا جب تک کہ قانونی طور پر کوئی واضح ثبوت نہ ملے کہ یہ مال چوری کا ہے یا ناجائز ہے۔ جو کچھ بھی والیوں یا سرکاری ملازمین سے ضبط کیا جائے گا وہ سرکاری خزانے کا حصہ بنے گا، اور تمام قرضے اُس سے ادا کئے جائیں گے۔

یہاں پر ضروری ہے کہ اِن حقائق کو بیان کیا جائے کہ کس طرح پاکستان کی حکمرانی پر فائز ہونے کے بعد ہمارے سیاست دان تیزی سے ترقی کرتے ہیں۔ آگے بیان کئے گئے اعدادوشمار خالصتاً سرکاری ہیں جو یہ سیاست دان الیکشن کمیشن کو ہر سال جمع کراتے ہیں اور اِن میں وہ اعدادوشمار بیان نہیں کئے گئے جو غیر سرکاری طور پر عوام الناس کی زبان پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعجاز جاکھرانی نے 2008میں جواثاثوں کی فہرست جمع کرائی اُن کی مالیت 15.6ملین روپے تھی جبکہ 2009میں جو فہرست جمع کرائی گئی اُن میں یہ اثاثے 61ملین تک جاپہنچے تھے۔ اِسی طرح پیپلز پارٹی کے ہی خورشید شاہ کے اثاثے 2008میں 24.6ملین روپے مالیت کے تھے جبکہ 2009میں بڑھ کر 51.6ملین روپے مالیت کے ہوچکے تھے جبکہ منظور وٹو کے اثاثے 2008میں 74ملین روپے سے بڑھ کر 2009میں 156ملین ڈالر ہوچکے تھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہ فیملی کا بزنس گروپ اتفاق گروپ نے اُس وقت ترقی شروع کی جب نواز شریف سیاست میں آئے تھے۔ شریف فیملی کوئی جاگیر دار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ فیملی انڈیا سے آئی تھی اور 1960میں ایک آئرن فونڈری، ایک برف بنانے والی فیکٹری اور ایک واٹرپمپ بنانے والی فیکٹری کی مالک تھی۔ نواز شریف سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں سیاست میں آئے تھے۔ اور اُسی دور میں ضیاء الحق نے اُسے پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا تھا۔ چنانچہ اُس کے بعد اتفاق گروپ تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ 1982میں اتفاق شوگر مل لگائی گئی، 1983میں برادرز سٹیل مل لگائی گئی، 1986میں برادرز ٹیکسٹائل مل لگائی گئی، 1986ہی میں برادرز شوگر ملز لگائی گئی، 1987میں اتفاق ٹیکسٹائل مل لگائی گئی، 1987ہی میں رمضان بخش ٹیکسٹائل مل لگائی گئی1988میں خالد سراج ٹیکسٹائل مل لگائی گئی اور یوں صرف چند سالوں کے اندراندر اتفاق گروپ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی گروپ بن گیا۔ اور وہ اتفاق گروپ جس کا 1981میں کل بزنس ٹرن اوور 337ملین روپے تھا ، اُس اتفاق گروپ کا 1987 میں ٹرن اوور 2500ملین روپے تک جاپہنچا تھا اور یہ اعدادوشمار اتفاق گروپ ہی کے جاری کردہ ہیں۔ یاد رہے یہ وہی دور تھا جب ضیاء الحق کی حکومت نے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ ایم کیوایم جو اپنے آپ کو پاکستان کی واحد ایسی سیاسی جماعت ظاہر کرتی ہے اور جو مڈل کلاس لوگوں پر مشتمل ہونے پر فخر کرتی ہے، اُس کے اراکین بھی اب مڈل کلاس نہیں رہے۔ اِس جماعت رکن اسمبلی ڈاکٹراے کیو خانزادہ نے 2008میں جو اثاثے ظاہر کئے اُن کی مالیت 6.2ملین روپے تھی جبکہ 2009میں ظاہر کئے گئے اثاثے17.7ملین روپے کے ہوچکے تھے۔ اِسی طرح سب جانتے ہیں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی بابر غوری ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے تاہم اب اپنے ہی ظاہر کئے گئے اثاثوں کے مطابق وہ 200ملین روپے کی مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔

یہ صرف چند اعداد وشمار ہیں جبکہ یہ تقریباً ہر اُس شخص کے معاملے میں ایسا ہی ہے جو کسی بھی دور میں حکومت میں شامل رہا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قرضوں کا حل یہی ہے کہ اِنہی حکمرانوں کے اثاثوں سے اِن کو ادا کیا جائے، کیونکہ یہ قرضے اِنہی کے دور حکومت میں لیے گئے ہیں۔

3: اسلام کے احکامات کے مطابق نئے قرضے نہیں لیے جائیں گے کیونکہ سرمایہ کاری کے لیے بیرونی قرضے حقیقت میں ملک کے لیے سب سے زیادہ خطر ناک حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے ادوار میں یہی قرضے کسی ملک کو نوآبادیاتی (colonise) بنانے کا ایک ذریعہ تھا جب کہ آج کل یہی قرضے دیگر ملکوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور سازشیں کروانے کا سب سے اہم طریقہ بن چکے ہیں۔ قرض دینے والے ممالک اِن منتخب شدہ منصوبوں اور طے شدہ شرائط کے ذریعے مقروض ملکوں کو اُس راہ پر لگادیتے ہیں جس سے حقیقت میں مقروض ملک مزید غریب اور اُن کے حالات مزید خراب ہوں ہو، اور اُن کا مقروض ملکوں پر اثرورسوخ بڑھ جائے، مزید برآں اِس سے مقروض ملکوں میں کوئی دولت نہیں آتی۔

قرضے ہر صورت میں خطرناک ہیں چاہے وہ پیداواری منصوبوں پر ہی کیوں نہ لگائے جائیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر قرضے اگر قلیل مدت کے لیے دئیے گئے ہوں تو وہ قرض دار ملک کی کرنسی کو بُری طرح متاثر کرتے ہیں، کیونکہ قرض واپس کرنے کے لیے ملکی کرنسی نہیں تسلیم کی جاتی اور صرف غیر ملکی کرنسی میں ادائیگیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ غیر ملکی کرنسی کی قلت کی وجہ سے قرض دار ملک غیر ملکی کرنسی میں ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہو، جس کی وجہ سے وہ غیر ملکی کرنسی کو مہنگے دام خرید نے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس کا براہِ راست اثر ملک کی اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کی شکل میں پڑتا ہے۔ تو اِس سے بچنے کے لیے وہ IMFکا رخ کرتا ہے، جو حقیقتاً امریکی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ملک کی اقتصادی صورتحال کو امریکی پالیسیوں کے مطابق چلانے لگے گا۔ اِس کے علاوہ بسا اوقات قرض دار ممالک بیرونی کرنسی کے حصول کے لیے اپنی اشیاء سستے داموں برآمد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے اقتصادی طور پر وہ گھاٹے میں رہتے ہیں۔

اِس کے برعکس اگر قرضے طویل مدت کے لیے دئیے گئے ہوں تو اُس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اِتنے عرصے میں قرضوں کا حجم اِس قدر بڑھ جائے کہ وہ مستقبل میں تجارتی توازن کو بگاڑنے کے ساتھ ساتھ قرض دار ملک کی نقد، سونا یا منقولہ اشیاء(movable properties) کے ذریعے قرض واپس کرنے کے قابلیت ہی نہ رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قرض دار ملک پر یہ دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ یہ ادائیگیاں غیر منقولہ اشیاء(immovable properties) جیسا کہ، جاگیریں، زمینیں حتیٰ کہ اپنی صنعتیں تک بیچ کر ادائیگیاں کرے۔ جس کی مثال اِنہی اداروں کی شرائط کے مطابق پاکستان بننے والا نجکاری کمیشن کی ہے جس کے تحت پاکستان کے تمام اہم اثاثہ جات بیچے جارہے ہیں جبکہ اِن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تقریباً90فیصد قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص ہوتا ہے۔

چنانچہ قرضہ لینے کے تباہ کن نقصانات واضح ہیں۔ ویسے بھی اِن میں سود شامل ہوتا ہے ،اِس لیے یہ ہر حالت میں ناجائز ہی ہیں۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ موجودہ نظام کے تحت کبھی بھی اِن قرضوں سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ یہ صرف خلافت ہی ہوگی جو مندرجہ بالا اسلامی احکامات کو نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں اِن قرضوں سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ مزید برآں یہ ریاستِ خلافت اسلام کے اُن معاشی احکامات کو بھی نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں ملک معاشی لحاظ سے خود کفیل ہوگا اور اُسے مزید قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ انشاء اللہ
Saleem Sethi
About the Author: Saleem Sethi Read More Articles by Saleem Sethi: 9 Articles with 8239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.