کرپشن کے خاتمے کی جنگ میں 6جولائی (بروز جمعہ) کو تاریخ
ساز دن قرار جائے گاکیونکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ اس روز
سنایا گیا ،ایسا فیصلہ اور احتساب اس سے قبل کسی بھی سیاست دان کے لیے نہیں
ہوا جو نواز شریف اور اس کی اولاد کے لیے کیا گیا ،واضح رہے کہ ایون فیلڈ
ریفرنس کی طرف سے سنائے جانے والے فیصلے کا انتظا ربالاآخر 6جولائی کو ختم
ہوا ،جیسے ہی فیصلہ سنایا گیا تو ایک طرف فیصلے کو مسترد کیا گیا تو دوسری
طرف’گو نوا ز گو‘کا نعرہ لگانے والوں نے اس فیصلے کو عظیم قرار دیتے ہوئے
ڈھول کی تھاپ پربھنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اسلام آباد کی احتساب
عدالت نے شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر
ایوان فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے
قائد نواز شریف کو 10 سال قید، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال قیدبا
مشقت اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قیدبا مشقت کی سزاسنائی
۔صرف سزا ہی نہیں بلکہ نواز شریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے
سے زائد) اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ
بھی عائد کیا گیا بلکہ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد مریم نواز حلقہ 127سے
الیکشن لڑنے کے لیے بھی نا اہل قرار دے دی گئی۔اس کے علاوہ احتساب عدالت نے
شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم
ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دے دیا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی
جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات پر،
مریم نواز کو والد کے اس جرم میں ساتھ دینے پر قید اور جرمانے کی سزائیں
سنائی گئیں جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایون
فیلڈ ریفرنس سے متعلق تحقیقات میں نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر علیحدہ ایک
ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس، سپریم کورٹ کی
جانب سے پاناما پیپرز لیکس کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے دائر
کیا گیا تھا۔اس تاریخ ساز فیصلے سے قبل سابق وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ
نے پاناما پیپرز لیکس کیس اور بعد ازاں انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 سے
متعلق فیصلہ سنایا گیا تھا۔28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے
خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل
قرار دے دیا تھا۔جس سے ثابت ہوا کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے
تاحیات قائد نواز شریف کے خلاف 12 ماہ کے دوران تیسرا عدالتی فیصلہ سامنے
آیا ہے۔فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے انتہائی سخت
انتظامات کئے گئے تھے۔
جس وقت ایون فیلڈ ریفرنس کی طرف سے نوا زشریف،مریم نواز اورکیپٹن (ر) محمد
صفدر کو سزا سنائی گئی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان
سوات میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے ،اپنے خطاب کے دوران انہوں نے فیصلہ
پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری 22 سالہ جدوجہد کے باعث آج ایک
طاقتور کو سزا ہوئی ہے۔ان چوروں کی وجہ سے پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے۔
میں اﷲ کا شکر گزار ہوں میں نے جو 22 سال پہلے جو جدوجہد کی تھی اس کی وجہ
سے پہلی دفعہ ایک طاقتور کو انصاف کے نظام نے سزا سنائی ہے، پہلے صرف کمزور
اور غریب لوگ جیل میں جاتے تھے۔ طاقتور لوگوں کو پاکستان کے ادارے نہیں پکڑ
سکتے تھے۔ آج رات کو سارے پاکستانیوں کو اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے، نفل
پڑھنا چاہیے، یہ ہمارے نئے پاکستان کی شروعات ہے، ہمارے نئے پاکستان میں
بڑے بڑے ڈاکو اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے، بڑے بڑے ڈاکو اب جیلوں میں جائیں
گے جبکہ فیصلے کے فورا بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے ایک
پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیصلہ کو تاریخ میں سیاہ حروف میں یاد رکھنے کا
عندیہ دیا۔شہباز شریف کے بقول پورے مقدمے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے
گئے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں ایک ایسی شخصیت کے حوالے سے نیب کی عدالت نے ایسا
فیصلہ دیا جس کے بارے میں نیب کورٹ نے کہا کہ اصل دستاویز موجود نہیں اور
چونکہ فوٹو کاپی ہیں اس لیے ہم اس کیس کو خارج کرتے ہیں،اس طرح نیب نے بڑی
شخصیت کو بہت بڑا ریلیف دیا۔اپنی پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے نیب
عدالتوں کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اعلان کیا کہ نیب عدالت نے اپنا
فیصلہ تو سنادیا ہے مگر25 جولائی کو ایک عوامی عدالت بھی لگنے والی ہے ،
انشا اﷲ عوامی فیصلہ ثابت کرے گا کہ عوامی عدالت کا فیصلہ ٹھیک اور نیب
عدالت کے مقابلے میں عوامی عدالت کا فیصلہ گونجے گا۔ میں پاکستان کے کونے
کونے میں جاؤں گا۔اور جاکر اس زیادتی اور ناانصافی سے عوام کو آگاہ کروں
گانیز اس فیصلے کے خلاف ہر آئینی و قانونی راستہ اختیار کروں گا۔ عدالتی
فیصلے سے قبل مریم نواز نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن)
کے شیرو یاد رکھنا، فیصلہ جو بھی آئے گھبرانا نہیں، نواز شریف کے لیے یہ سب
نیا نہیں ہے وہ پہلے بھی نااہلی، عمر قید، جیل اور جلا وطنی بھگت چکے ہیں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ کوئی لیڈر ہے جو آپ کی خاطر،وطن عزیز کی خاطر، آپ کے
ووٹ کی عزت کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہے اور کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہے۔
فیصلہ تو 25 جولائی کو ہونا ہے۔
پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اْس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال
اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا
فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان
سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ’آف شور‘مالی معاملات عیاں
ہو گئے تھے۔پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو
جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ
15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی
عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان
کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔ویب سائٹ پر
موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور
حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز
تھے‘۔موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے
والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا
ہے۔ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی
جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس
حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت
کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی
مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر
کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔جسٹس آصف
سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم
دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ
پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی
تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع
کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر
کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟
گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے
والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم
نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی
وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔مذکورہ فیصلے کی روشنی
میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین
نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز
دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا
بھی حکم دیا تھا۔بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف
8ستمبر2017 کوعبوری ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔ایون فیلڈ یفرنس میں سابق
وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ
صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے
صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔9 اکتوبر کو ہونے والی
سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی
مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت
منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے
الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری
کر دیئے تھے۔مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017 کو براہ
راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے
نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017
کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے تھے۔26 اکتوبر2017 کو
نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017 کو پہلی
بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8
نومبر2017 کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی
گئی۔سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا
تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب
عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل
کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت
مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں
ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ
نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔سپریم کورٹ کی توسیع
شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت
میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں
درخواست دائر کی گئی تھی۔10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ
شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔11 جون 2018
کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث
کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت
نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری
کی درخواست واپس لے لی۔یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور
پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ
واجد ضیاء بھی شامل تھے۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے 3 جولائی
کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا اور اسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر
کی گئی تھی۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی
صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی
تھی، جس میں اس فیصلے کو چند روز کے لیے مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی
تھی۔نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا
گیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ فیصلے کے موقع
پر عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے لہٰذا چند روز کے لیے اس فیصلے کو مؤخر کیا
جائے۔المختصرنواز شریف کے خلاف پاناما پیپرز لیکس کیس کا فیصلہ سنائے جانے
کے 11 ماہ اور 7 روز بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف
6 جولائی 2018 کو نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنایا۔
اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے لیے فیصلے کے دن سے
25 جولائی کو انتخابات کے دن تک کا سفر انتہائی مشکل ہے۔ اب سب کی نظریں
شہباز شریف پر منحصر ہوں گی۔سینئر صحافی طلعت حسین کا نجی ٹی وی سے بات
کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز جیل
کی سزا ہوگی۔ لوگ اس بات پر تقسیم کا شکار ہیں کہ آیا یہ سزا ہوئی ہے یا
نہیں لیکن یہاں کچھ ووٹرز ہیں جو اب بھی ووٹ کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں
کہ ووٹ کسے دیں۔ جب ہم 100 صفحات کا فیصلہ پڑھیں گے تو چیزیں روزانہ کی
بنیاد پر ہمارے سامنے آجائیں گی۔ نواز شریف جب واپس آئیں گے تب ہی اس بارے
میں کچھ کہا جاسکے گا کہ ان کا ووٹرز پر کتنا اثر و رسوخ ہے۔فیصلے کے حوالے
سے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف
فیصلہ عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچائے گا۔ اس فیصلے کے بعد 20
فیصد وہ لوگ جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کسے ووٹ دیں گے، انہیں اپنا
فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ اگر نواز شریف وطن واپس آتے ہیں اور اس حقیقت
کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا۔
حالیہ سزاؤں کے نتیجے میں مریم نواز کا سیاسی کیرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی
ختم ہو گیا ہے،مریم نواز کو سات سال قید ہوئی ہے اس کے بعد 10سال کے بعد نا
اہل ہو جائیں گی۔اس طرح اگر یہ سزائیں ختم نہیں ہاتی تو 17سال تک ملکی
سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔
میاں نواز شریف فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ڈٹ گئے ہیں انہوں نے لندن میں ایک
پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ میں اور مریم پاکستان جانے کو بے تاب ہیں اور
جلد وطن واپس آ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ استغاثہ میں کسی ایک جگہ بھی کرپشن
اور لوٹ مار کا ذکر نہیں ۔ یہ مجھے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے
کی سزا دی جارہی ہے۔عوام میرا ساتھ دیں گے اور مسلم لیگ ایک بار پھر بھاری
اکثریت سے اقتدار میں آئے گی۔
اگر میاں نواز شریف جیسا کہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد پاکستان آ رہے
ہیں اور مسلم لیگ ن ان کا بھر پور استقبال کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ
چیز ان کی انتخابی مہم میں جان ڈال دے گی۔
|