طالب علمی کے دو ر میں نصابی
کتابوں کے اندر ایک کہانی پڑھا کرتے تھے جس میں ایک شکاری فاختہ کو شکار
کرنے کیلئے نشانہ لیتا ہے ،اور دوسری طرف سر پر ایک عقاب منڈلا رہا ہوتا ہے
کہ کب فاختہ اڑے اور کب میں اسے اپنے پنجوں میں جکڑوں۔ فاختہ بیچاری کے پا
س کوئی طریقہ نہیں ہوتا بچنے کا اگر وہ بیٹھتی ہے تو شکاری اپنی بندوق سے
اس کا شکار کرے گا اور اگر وہ اڑتی ہے تو عقاب اپنے پنجوں سے اس کا شکار کر
کرے گا۔ آج جب مسلم اُمہ کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے وہ فاختہ والی
کہانی یا د آجاتی ہے ۔
میرے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی فاختہ صفت اُمت بھی آج چاروں اطراف سے
شکاریوں کے بیچ میں گھِری ہوئی ہے ۔گھروں میں بیٹھتی ہے تو لوڈ شیڈنگ سے اس
کے سکون اور رات کی نیندوں کا شکار کیا جاتا ہے ۔ عبادت کیلئے نکلتی ہے تو
بم دھماکوں سے اس کی جان کا شکار کیا جاتا ہے ، کاروبار کر تی ہے تو کساد
بازار ی کے ذریعے اُس کے مال کا شکار کیا جاتا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے کیلئے
جاتی ہے تو گمراہ کن نظریات کے ذریعے اسکے عقیدے کا شکار کیا جاتا ہے ۔ دل
بہلانے کیلئے ٹی وی کا سوئچ آن کرتی ہے تو اس کے کلچر اور تہذیب کا شکار
کیا جاتا ہے ۔ راہنمائی کیلئے مولوی کے پاس جاتی ہے تو فرقہ وارانہ تعصب کے
ذریعے اُس کی امن پسندی کا شکار کیا جاتا ہے ۔ اپنا حق لینے کیلئے سڑکو ں
پر نکلتی ہے تو سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے اُس کے جذبات کا شکار کیا جاتا
ہے۔نیچے سے بند توڑ کر اگر امت کو سیلاب زدہ کیا جاتا ہے تو اوپر سے ڈرون
طیاروں کے ذریعے اُس کی جان اور املاک کا شکار کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب کچھ
ہونے کے بعد دانشور حلقوں سے آوازیں آتی ہیں کہ اُمت بے حس ہے ، تبلیغی
حلقوں سے آوازیں آتی ہیں کہ امت خراب ہے ، آکسفورڈ اور کیمرج کا فارغ
التحصیل طبقہ کہتا ہے کہ امت بے شعور ہے ۔وفاق المدارس اور تنظیم المدارس
کا فارغ التحصیل طبقہ کہتا ہے کہ امت مشرک ہے ، بدعتی ہے ، گستاخ رسول ہے ۔
واہ ری بیچاری امت ، تجھے جس عظیم ہستی نے بہترین امت قرار دیا تھا آج اُسی
ہستی کے غلاموں کے غلام تجھے ذلیل و رسوا کر رہے ہیں اور تیری بے بسی کے
اوپر بے حسی کا لیبل لگا کر تیری بے بسی اور بیچارگی میں اور زیادہ اضافہ
کر رہے ہیں ۔
لوگوں کی باتوں میں آکر جب میں اس امت کو حکیم صاحب کے پا س لے کر گیا تو
حکیم الامت نے کہا
’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘
یہ سن کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا او ر میں اس نمی کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ
کونسی نمی ہے جب وہ امت کے اندر تھی تو وہ ایک باوقار امت تھی اور روم و
فارس ا س کی ٹھوکر میں تھے ۔اور آج اسی نمی کی غیر موجودگی میں یہ امت خود
یہود و نصاریٰ کی ٹھوکر میں ہے ۔ وہ کونسی نمی ہے جو جب امت میں تھی تو کسی
کو ہمارے پیارے نبی کی شان میں گستاخی کی جرات نہیں ہوتی تھی اور آج اُسی
نمی کی غیر موجودگی میں کفا ر ہمارے نبی کی شان میں کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔
وہ کونسی نمی ہے جو امت میں تھی تو چاروں اطراف اسلام کی حکومت تھی اور آج
اُسی نمی کی غیر موجودگی میں اسلام پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں
۔
وہ نمی بلا شبہ اسلامی نظام ہی تھا جو پہلے امت کی زندگیوں میں نظر آتا تھا
اور آج اسکو صرف مسجدوں تک محدود کر دیا گیا ، مالیاتی اداراں میں اسلامی
نظام کی جگہ سودی نظام نے لے لی، اسلام کی وہ نمی جو پہلے حکمرانوں کے
ایوانوں میں نظر آتی تھی آج اُسکو صرف چھ فٹ کے قد کے اوپر نافذ کرنے کی
بات ہوتی ہے ۔ پہلے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا جاتا تھا اور آج ایک
مسلمان کے سامنے اپنے مسلک کو حق کہا جاتا ہے ۔ پہلے ہمارا نظام تعلیم
اسلامی تھا تو الخوارزمی جیسے سائنسدان ، بن قاسم جیسے سپہ سالار اور ابو
حنیفہ جیسے امام پیدا ہوئے اور آج اگر پاپ سنگر اور کرپٹ لیڈر پیدا ہو رہے
ہیں تو اس کا الزام پھر بیچاری امت کو دے دیا جاتا ہے کہ جیسی عوام ویسے
حکمران۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کرپشن کی وجہ مغرب سے لیا گیا کرپٹ نظام
ہے ۔جس کی وجہ سے کرپٹ طبقہ پیدا ہو رہا ہے۔ پہلے جب ہمار ا معاشی نظام
اسلامی تھا تو زکوۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا اور آج اگر زکوۃ دینے
والا کوئی نہیں ملتا تو اس کا الزام بھی امت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے کہ
گناہوں کی وجہ سے مال کے اندر برکت ختم ہو گئی ہے اور بجائے اسکے کہ امت پر
اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے دو چار تعویز گنڈے دیکر برکت کو واپس
لانے کی تدبیر کی جاتی ہے ۔ پہلے جب عدالتوں میں اللہ کے دیئے ہوئے قانون
کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے تو جرائم کی شرح اتنی زیادہ نہ تھی اور آج اگر
جرائم زیادہ ہو رہے ہیں تو پھر امت کوہی مورود والزام ٹھہرایا جاتا ہے اور
عام امت کے درمیان اس طرح کے بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں جنکے اوپر لکھا
ہوتا ہے ’’ دہشت گردوں! کیمرے کی آنکھ تمہیں دیکھ رہی ہے ‘‘۔اور عام آدمی
بھی اپنے آپ کو دہشت گرد ہی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پہلے محدود وسائل کے باوجود
اسلام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتا رہا ۔ اب اگر آبادی
بڑھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے وسائل بھی بڑھا دیئے ۔دنیا کے ستر فیصد
وسائل رکھنے والے ان مغربی ایجنٹوں نے وسائل پر تو خود قبضہ کر لیا اور
مسائل امت کی طرف منتقل کر دیئے اور اوپر سے امت کو ہی سمجھانا شروع کردیا
کہ ’’ بچے دو ہی اچھے ‘‘۔
لیکن امت بے حس نہیں ہے وہ اپنی اس نمی کو محسوس کر رہی ہے جس سے اسکو
گزشتہ کئی دہائیوں سے دور رکھا گیا ۔ آج کے مختلف سروے اس بات کا ثبوت ہیں
کہ امت اسلام کو بطور نظام اپنے اوپر نافذ دیکھنا چاہتی ہے ۔ امت مغرب اور
اسکے ایجنٹوں کی چالاکیوں سے بخوبی واقف ہے ۔ امت کسی ایسے چارہ گر کی تلا
ش میں ہے جو کہ ان کے جذبات کو زبان دے سکے اور مزید کسی ایسے سوراخ سے ڈسے
جانے کی اہل نہیں ہے جہاں سے وہ پہلے بھی کئی بار ڈسی جاچکی ہے ۔
امت جانتی ہے کہ شکاری خواہ کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو ، کتنا ہی با تدبیر
کیوں نہ ہو ، اللہ کی تدبیر کے سامنے وہ ہیچ ہے ۔
شکاری جب فاختہ کا نشانہ لے رہا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک سانپ بھیجتا ہے
جو کہ شکاری کو ڈس لیتا ہے اور شکاری کا نشانہ خطا ہو کر سیدھا عقاب کو جا
لگتا ہے فاختہ کے دونوں دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں ۔
مستقبل تو پھر فاختہ کا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ |