ہمیں تو ہمیشہ ہلکے پھلکے کالم لکھنا ہی مرغوب رہا
لیکن اسباب پڑے یوں کہ ایک مدّت سے ایسے کالم خواب وخیال ہو گئے۔ اِس کی
ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے میاں کے اندر ’’سیاسی جرثومے‘‘ کچھ زیادہ ہی
کلبلاتے رہتے ہیں۔ جس طرح شاعروں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُنہیں اپنی شاعری
سنانے کے لیے سامعین نصیب ہوں تاکہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں ،اُسی
طرح ہمارے میاں کو جب کوئی اور میسر نہیں آتا تو وہ ہمیں گھیر گھار کے اپنے
سیاسی تجزیوں کی بھرمار کر دیتے ہیں کہ ہم تو ٹھہرے گھڑے کی مچھلی۔
نیوزچینلز پر شاید اتنی ’’بریکنگ نیوز نہیں چلتی ہوں گی جتنی اُن کے پاس
ہوتی ہیں۔ اُن کے لیکچرز سُن سُن کے ہم بھی سیاست کو مُنہ مارنے لگے ہیں۔
ہم اپنے قارئین کو بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے تجزیے درست ہوں تو
اُنہیں ہماری ذاتی کاوش سمجھا جائے اور اگر لال حویلی والے شیخ رشید احمد
جیسے ہوں تو اُنہیں ہمارے میاں کی ’’شرارت‘‘ سمجھا جائے کیونکہ ہم تو ہمیشہ
سے ’’میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ اور کڑوا کڑوا تھُو تھُو‘‘ کے قائل رہے ہیں۔ ویسے
بھی ہمارے عظیم سیاستدان یہی کچھ تو کرتے ہیں۔ اُنہیں بھی جہاں کہیں میٹھے
کی بھنک مل جائے وہ اُس کے گرد مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگ جاتے ہیں۔ یہ
الگ بات کہ قوم اُنہیں کھوتے، گھوڑے، لوٹے اور ضمیر فروش کہتی ہے۔
جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ، اُسی طرح ہمارے سیاسی ہونے
کا دوسرا سبب الیکشن کی آمد آمد ہے جہاں ہمیں گام گام پہ سیاستدان باہم
جوتم پیزار نظر آتے ہیں۔ یوں تو عام انتخابات میں محض دو ہفتے باقی ہیں
لیکن انتخابی سرگرمیاں مفقود اور ووٹرز میں سردمہری برقرار، اِس لیے ہم یہ
کیسے مان جائیں کہ انتخابات کا بَروقت انعقاد ہو جائے گا۔ اگر انتخابات کے
بَر وقت انعقاد کا معجزہ رونما ہو بھی گیا تو ہم یہ کیسے مان جائیں کہ وہ
انتخابات شفاف ہوں گے جبکہ سرویز کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی
جماعت نوازلیگ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور صرف نَیب اور عدلیہ ہی
نہیں ،زورآوروں کا نشانہ بھی یہی جماعت ہے۔ عدلیہ کا تقریباََ ہر فیصلہ
اِسی جماعت کے خلاف اور نیب کی پکڑ دھکڑ بھی اِسی جماعت کے لیے مختص۔
زورآوروں نے اپنے اُمیدواروں کو ’’جیپوں‘‘ پہ چڑھا دیا ہے اور اب چاروں طرف
ہا ہا کار مچی ہے۔ صرف آصف زرداری اور میاں نوازشریف ہی نہیں، کپتان بھی
اِن جیپوں والوں سے پریشان۔ ایسا پہلے بھی ہوا کرتا تھالیکن کسی کو کانوں
کان خبر نہ ہوتی تھی لیکن اب تو سب کچھ سرِعام اور دھڑلے سے کیا جا رہا ہے۔
پھرہم یہ کیسے مان جائیں کہ انتخابات کے بعد احتجاجی تحریکیں نہیں اُٹھیں
گی، جلاؤ گھیراؤ نہیں ہو گا اور انارکی نہیں پھیلے گی۔
جہاں اُمیدواروں کو کھلم کھلا دھمکیاں دی جا رہی ہوں کہ وہ نوازلیگ کو چھوڑ
دیں وہاں ہم یہ کیسے مان جائیں کہ یہ الیکشن انجینئرڈ نہیں ہوں گے۔ ہر وہ
شخص جس کا تعلق نوازلیگ سے ہے، وہ خواہ عطاء الحق قاسمی ہو، مرنجاں مرنج
صدیق الفاروق ،میاں نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فوادیا کوئی اور،
سبھی کے خلاف نیب اور عدلیہ متحرک۔ کسی کو یہ احساس تک نہیں کہ ایک جماعت
کو ہدف بنانے کی بنا پر ہمارے عظیم دوست چین کے سفیر نے یہ اعلان کر دیا ہے
کہ چین نے اقتصادی راہداری پر سرمایہ کاری روک دی ہے۔ یہ سی پیک، جس سے قوم
کی بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ محض خواب وخیال بن کے
رہ جائے ۔ لیکن ہم تو یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ یہ سب ہمارے مکروہ پڑوسی
بھارت کا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل میں ہم سَردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
چینی صدر نے ایک دفعہ میاں نوازشریف کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’مسٹر پرائم
منسٹر! سی پیک ہماری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے‘‘۔ اب چینی صدر بھی سوچتے
ہوں گے کہ کتنی بَدنصیب ہے یہ قوم جس کے لیے چین نے اپنے دِل ودولت کے دَر
وا کر دیئے لیکن یہ اِس سے مستفید ہونے سے انکاری ہے۔
ہم یہ کیسے مان جائیں کہ ہماری عدلیہ کے فیصلے ’’مینارۂ نور‘‘ ہیں جبکہ
آئین وقانون کی سُوجھ بُوجھ رکھنے والے وکلاء بھی اِن فیصلوں سے نالاں اور
اِنہیں متنازع قرار دے رہے ہیں۔حیرت ہے کہ آصف زرداری کے مقدمات کا فیصلہ
ہوتے ہوتے گیارہ سال بیت گئے، پرویز مشرف ملک سے باہر بیٹھا بڑھکیں لگا رہا
ہے لیکن عدلیہ بے بَس، ذوالفقارعلی بھٹو کا ’’جوڈیشل مرڈر کیس‘‘ سالوں سے
لٹکا ہوا ہے، میموگیٹ سکینڈل کا کوئی سَرپَیر نہیں، 2014ء میں کپتان اور
مولانا طاہرالقادری کے خلاف دہشت گردی کورٹ میں قائم کیے گئے مقدمات کا تا
حال کوئی پتہ نہیں اور شیخ رشید کے خلاف قائم مقدمے کا محفوظ فیصلہ بھی تین
ماہ بعد سنایا گیالیکن میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف
ایون فیلڈ ریفرنس کا محفوظ فیصلہ محض تین دنوں بعد۔ حالانکہ میاں نوازشریف
اور مریم نواز نے یہ درخواست بھی کی تھی کہ فیصلہ ایک ہفتے کے لیے مؤخر کر
دیا جائے کیونکہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء محترمہ کلثوم نواز
وینٹی لیٹر پر ہیں اورلواحقین کی خواہش ہے کہ محترمہ کلثوم نواز ہوش میں
آجائیں (ڈاکٹروں نے یہی اُمید دلائی تھی) اور وہ اُن سے چند باتیں کر سکیں۔
کیا ایک خاوند کی اپنی بیوی اور ایک بیٹی کی اپنی ماں سے باتیں کرنے کی
خواہش غلط تھی؟۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر ایسی اپیل دنیا کی کسی بھی عدالت میں
کی جاتی تو اُسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضرور قبول کر لیا جاتا لیکن
ہمارے عادلوں کو شاید جلدی ہی بہت تھی،اِسی لیے یہ اپیل مسترد ہوئی۔میاں
نوازشریف کو دَس سال اور مریم نواز کو سات سال قیدِ با مشقت کی سزا ہوئی
اور کیپٹن صفدر کو اعانتِ جرم میں ایک سال قیدِ با مشقت۔ اِس کے علاوہ 165
کروڑ روپے جرمانہ اور لندن فلیٹس کی ضبطی کا حکم بھی جاری کیا۔ میاں شہباز
شریف نے اِس فیصلے کو تاریخ کا سیاہ فیصلہ قرار دیا ہے اور میاں نوازشریف
نے وطن واپسی کا اعلان کر دیا۔ وکلاء کی کثیر تعداد اِس فیصلے کو انتہائی
کمزور اور مفروضوں پر مبنی قرار دے رہی ہے۔ ہم اِس فیصلے کو تاریخ کا سیاہ
نہیں بلکہ سیاہ ترین فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ وجہ اُس کی یہ کہ یہ فیصلہ سپریم
کورٹ کے فیصلے کے اُلٹ ہے۔ مستقبل کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا غنی
الرحمٰن کیس کا فیصلہ موجود ہے جس میں واضح طور پر لکھ دیا گیا کہ استغاثہ
کو پراپرٹی اور کرپشن کے درمیان تعلق ثابت کرنا ہوگا۔ اِس کے بغیر کوئی بھی
سزا نہیں دی جا سکتی۔ احتساب عدالت کے جج اپنے فیصلے میں ایک طرف تو یہ
لکھتے ہیں کہ استغاثہ پراپرٹی اور کرپشن میں کوئی تعلق ثابت نہیں کر سکا
جبکہ دوسری طرف سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔
ہم یہ کیسے مان جائیں کہ اِس قید کے بعد میاں نوازشریف کی مقبولیت میں مزید
اضافہ نہیں ہو گا ۔ سبھی جانتے ہیں کہ اقامے پر نا اہلی کے بعد میاں صاحب
کا بیانیہ بے پناہ مقبول ہوا، اتنا مقبول کہ کپتان کو بھی یہ کہنا پڑا،
پانچ رکنی بنچ نے ڈھیلا ڈھالا فیصلہ دیا جس کا نوازشریف کو فائدہ پہنچا۔ آج
کپتان خوش ہے اور تحریکِ انصاف میٹھائیاں بانٹ رہی ہے کہ ایک کرپٹ شخص کو
سزا ہوئی لیکن احتساب عدالت کے جج کا یہ فیصلہ ہے کہ استغاثہ کرپشن کا کوئی
الزام ثابت نہیں کر سکا۔ اب جبکہ عدالت نے بھی فیصلہ دے دیا کہ میاں
نوازشریف کرپٹ نہیں ہیں تو پھر اُن کو کرپٹ اور چور کہنے والے شرم سے ڈوب
مریں۔ کہے دیتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی پاکستان میں آمد کے بعد ایک دفعہ
پھر مسلم لیگ نون مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگے گی ، بیس فیصد غیریقینی
کے شکار ووٹرز کی غالب اکثریت کا رجحان نوازلیگ کی طرف ہو جائے گا اور
حریفوں کے سارے منصوبے دَھرے کے دَھرے رہ جائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کپتان کل
کلاں یہ کہتے نظر آئیں کہ میاں نوازشریف کو سزا ہی محض اِس لیے دی گئی کہ
مسلم لیگ نون کے اندر نئی روح پھونکی جا سکے۔ ایسے یوٹرن لینا کپتان کے
بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
ہم یہ کیسے مان جائیں کہ احتساب عدالت نے کسی دباؤ کے بغیر غیرجانبداری سے
فیصلہ کیا جبکہ احتساب عدالت کے جج پُراسرار طریقے سے بار بار فیصلے کا وقت
تبدیل کرتے رہے اور وہ فیصلہ جو ساڑھے دَس بجے سنایا جانا تھا، چار بجے یوں
سنایا گیا کہ میڈیا کے تمام نمائندوں کو باہر نکال کر عدالت کا دروازہ بند
کردیا گیا۔ جب میڈیا کے نمائندوں نے اِس پر احتجاج کیا تو اُن کے سامنے یہ
جھوٹ بولا گیا کہ جج صاحب فیصلہ نہیں سنا رہے بلکہ وکیلوں سے بات کر رہے
ہیں۔فیصلہ ساڑھے چار بجے کے بعد میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں سنایا
جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ حیرت ہے کہ ہماری عدالتیں بھی جھوٹ بولنے
لگیںٍ۔
|