لیڈر

کوئی افراتفری سی افراتفری ہے،ہمارے ملک میں سیاست ، مفادات کے لئے جوڑتوڑ اور تضادات کے اشتراک کا دوسرا نام ہے ۔یہ تو بہت نرم لفظوں میں کی گئی تعریف ہے ۔ورنہ ،میں اور آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری سیاست کی تعریف کیسے کیسے گُفتی اور ناگُفتی لفظوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔اور جب ایسے حالات ہوں تو ایک مخلص لیڈر کے سامنے آنے کی توقع کرنا عبث ہے۔

لیڈر وہ ہوتا ہے جو زمان شناس ہو،علم ومعلومات کا خوگر ہو،حق وباطل میں تمیز رکھتا ہو،ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو فوقیت دے،اقتدار کی لالچ سے دور ہوکر اپنی قوم کے مستقبل کی بہتری کے لئے فکرمند ہو،سوچ وسیع ہو،حقیقت پسندی سے کام لے اور عوامی نجی زندگی کے مسائل کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی بھی ایسے ڈھال لے جس سے عوام کی نفسیاتی الجھن کا حل پوشیدہ ہواورجس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ بین الااقوامی سطح پر قوم کی پہچان بن سکے ۔

ایک نہایت تکلیف دہ جملہ اکثر سماعت سے ٹکراتا ہے پاکستانی قوم نہیں بلکہ ایک بھیڑکا نام ہے۔یقینا ایسا ہوگا لیکن اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو موردِ وجود میں آنے اور قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کے بعد سے پاکستان کو کوئی ایسا لیڈر نا مل سکا جو اِسے ایک مظبوط قوم بنا سکے۔یہ ایک قوی حقیقت ہے کہ قوموں کی ترقی میں ایک اچھے لیڈر کی اپنے قوم کے لئے بنائی گئی مستقبل کی حکمت عملی کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔

ہم پاکستانی ان سیاست دانوں کو لیڈر کا خطاب دیتے ہیں جو پانچ سال ملک میں لوٹ کھسوٹ کا مال جمع کرکے پھر ساری زندگی چین کی بانسری بجاتے ہیں ۔اپنے حقیقی اثاثوں کو چھپا کر جھوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں ۔ایک بار اور کی اُمید لگائے پھر سے میدان میں کُود پڑتے ہیں کہ اگر کُرسی مل گئی تو پاکستان میں ایک بار پھر کرپشن کا بازار گرم کرنے کا موقع مل جائیگااور اگر نا بھی ملا تو زندگی کہ دن تو یوں بھی سکون سے گزر ہی رہے ہیں۔پاکستان کی عوام اور اُن کا مستقبل ان کے لیے اہم نہیں۔

کیا ایسے رہنما پاکستانی قوم کا مستقبل سنوار سکتے ہیں ؟ہر گز نہیں۔یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈز میں کیا وہ خصوصیات ہیں جو ایک ایسے رہنما میں ہونی چاہیے جیسے آپ امتِ مسلمہ کا لیڈر کہہ سکیں اب وہ سیاسی سربراہ ہوں یا بادشاہی۔لیڈر شپ کی کوالیٹیز پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔

مغرب کی مثال لے لیجئے وہاں عام آدمی کی نسبت کسی لیڈر کے معیارات سخت ہیں ۔کوئی بھی ایسا فعل جو عوام کے ذہنوں میں بنے ہوئے اس کے تاثر کو جس کی بناء پر اُسے عوا م میں مقبولیت حاصل ہوئی اور عوام کی ایک بڑی تعداد اس سے عقیدت رکھتی ہو،اگر نقصان پہچاتا ہے تو یقینا یہ عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔دوسری جانب یہ صورتحال بھی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے کہ اس ایک غلط فعل کو مثالی سمجھ کر آنے والی نسل اندھی تقلید کرتے ہوئے اپنانا شروع کردے اور فقط یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ہمارے اس لیڈر نے کیا جس نے قرارواقعی ہمیں ناصرف ایک نئی منزل کی طرف گامزن ہونے کا حوصلہ دیا بلکہ سب کچھ ٹھیک ہو جانے کے خواب بھی دیکھائے ،اگر اُس نے ایسا کیا ہے تو ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے ۔یہ طرز عمل زہرِقاتل کی طرح نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔وقتی طور پر نظر انداز کردینے سے معاملہ ختم نہیں ہوجاتا یہ ایک رہنما کی زندگی کے شب وروز ہیں اس لیڈر کی زندگی کے جیسے قوموں کی تقدیریں بدلنی ہیں جیسے پاکستان کی ڈوبتی معیشت،خارجی امور،دفاعی امور،معاشرتی پالیسیز کو تیار کرنا ہے جیسے پاکستان میں جہاں تعلیم کا معیار گرتا جا رہا ہے جہاں اخلاقی پستی ،ذہنی پسماندگی کے منحوس بادلوں نے اپنا ڈیرا جمادیا ہو،کونئی زندگی دینی ہے ،وہاں کوئی بھی کیاگیا غلط فعل پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ایک ایسا شخص جو مستقل سیاسی زندگی اور ذاتی زندگی میں تنازعات کا محور رہا ہو وہ کیوں کر پوری قوم کا لیڈر بننے پر حق دار ہوسکتاہے۔

خواہ اس لیڈر کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، خواہ اس کا، وہ کوئی سا بھی نعرہ ہوجس نے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا ہے وہ چاہے کسی بھی پرچم کے سائے الیکشن میں کامیاب ہو کر حکومت کی کُرسی تک پہنچاہو،لیکن وہ جو بھی ہے پاکستان کے لئے ہے اس کی زندگی پاکستانی عوام کی امانت ہے اس کے فعل کا اثر پوری قوم پرآئے گا۔لحاظا وہ عام نہیں۔اسے صادق اور امین کی شرط پر بھی پورا اترنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے قعل و فعل میں تضاد نا ہو۔عوام اپنے لیڈر کو ایک آئیڈیل کو طور پر دیکھتی ہے،ظاہر ہے لیڈر بھی ایک عام انسان کی طرح سوچتا سمجھتا ہے جینا چاہتا ہے لیکن عوام کے لئے اس کا لیڈر کسی دیو مالائی کردار کے شہزادے سے کم نہیں ہوتا جو کبھی غلط نہیں کرسکتا اور نا ہی اس کی گنجائش دی جاتی ہے۔کوئی بھی لیڈر اپنے کیے گئے فعال کو اپنی ذاتی زندگی کہہ کر عوام کے ذہنوں میں آئے گئے سوالوں سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتا۔

کرپشن کے الزامات نے ن لیگ کی حکومت کو کرپشن کے داغ دیے اور عوام کی ایک بڑی تعداد ن لیگ سے بدظن ہوگئی ۔زرداری صاحب کی لیڈر شپ بھی پانچ سال دورِ حکومت میں ایک کھرے رہنما کارول ماڈل بن کر سامنے نا آسکی،چیئرمین تحریک انصاف عمران خان صاحب اب تک اقتدارکی کُرسی سے دور ہیں لیکن عوام کو ان سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں،سراج الحق صاحب جماعت اسلامی کے لئے ایک بہترین لیڈر بن کر سامنے آئے جنھوں نے نا صرف جماعت اسلامی کے امیج کو بہتر بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا بلکہ عوام کو دلوں میں بھی اپنا ایک خاص مقام بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن سراج الحق صاحب کا مرکز میں حکومت بنا کر کامیاب ہونا ابھی مشکل لگتا ہے۔

عوام کی اکثریت کھرے کھوٹے کی تمیزکرسکتی ہے لیکن افسوس یہاں ووٹ پارٹی سے وفادایوں کی بناء پر دیا جاتا ہے نا کہ اُس شخص کو جو در حقیقت پاکستان کا لیڈر کہلوانے کے قابل ہو اور صلاحیت رکھتا ہو۔

25 جولائی 2018پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن بن کر سامنے آئے گا ۔پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کے دس سال مکمل ہوچکے ہیں اور آگے بھی ہمیں امید ہے کہ جمہوریت اپنی طاقت سے ملک میں بہتری لائے گی لیکن اب یہ آپ پر ہے پاکستانی عوام پر ہے کہ وہ اپنے لئے اُنھیں منتخب کرتی ہے جنھیں کسی صورت قوم کا لیڈرنہیں کہا جاسکتا یا پھر انھیں جن سے اُمید ہے کہ وہ پاکستان کی عوام سے مخلص ہو کر اس ملک کی بہتری میں اپنا بہترین کردار اد اکرتے ہوئے پاکستانی قوم میں ترقی کی اور اُمید کی ایک نئی روح پھونکیں گے اور دنیا بھر میں پاکستان کو ایک مستحکم ملک کی حثیت سے سامنے لائے گے۔
 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311874 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.