پانی کی دستیابی کا مسئلہ دن بدن سنگین شکل اختیار کر رہا
ہے۔ اُمیدواروں سے ووٹر ’’پانی دو ، ووٹ لو ‘‘ کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔
مسئلے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے دو ڈیموں کی
تعمیر کا بیڑہ خود اٹھا لیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ صد فیصد درست ہے کہ اس وقت
ملک میں پانی کی قلت ہے اور مستقبل میں یہ مسئلہ نہایت گھمبیر صورت اختیار
کر سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں ہمارے ذمہ دار اور متعلقہ ادارے بھی اپنا کام
ٹھیک طریقے سے نہیں نبھا رہے ہیں۔ مجھے راولپنڈی سے ایک قاری غازی مہرجان
کا خط موصول ہوا جو انہوں نے کینٹ بورڈ راولپنڈی کے حکام کے نام لکھا ہے۔
میں اُس کا خط یہاں من و عن اس لئے شائع کر رہا ہوں کہ انہوں نے پانی کی
عدم دستیابی کے حوالے سے کتنی کوششیں کی ہیں۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے
اُن کی کاوشوں کو سراہتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ ان کی جائز گزارش کو
پذیرائی بخشی جائے گی۔ خط ملاحظہ ہو۔ ’’ محترم انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ
میں کینٹ بورڈ راولپنڈی کی حدود ٹینچ بھاٹہ ، اﷲ والی گلی میں رہائش پذیر
ہوں۔ چند سال قبل جب پانی کی ترسیل کینٹ کے علاقہ میں ہر جگہ رواں دواں تھی۔
اﷲ والی گلی کے آخری نصف مکانات اس سے محروم تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ جب
شروع میں پانی کے لئے لائنیں بچھائی جارہی تھیں تو اس کی نگرانی کینٹ بورڈ
کے چند ٹاؤٹس کے حوالے کی گئی ۔ نتیجاتاً اﷲ والی گلی کے آخر ی نصف حصے میں
بہت چھوٹی پائپ لائن بچھا دی جو انتہائی ناکافی تھی۔ کچھ عرصہ تو بمشکل
گزارا ہوتا رہا لیکن بعد میں پانی کی ترسیل بالکل بند ہوگئی۔اس سلسلے میں
کینٹ بورڈ کو متعدد درخواستیں دی گئیں لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ لہٰذاآخری
حربے کے طور پر اپنے بنیادی حق کے لئے معزز عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ کچھ
عرصہ مقدمہ چلتا رہا اور کینٹ بورڈ کو مقررہ چندپیشیوں میں غیر حاضری پر
جرمانہ بھی کیا گیا۔ آخر میں کینٹ بورڈ نے معزز عدالت کو یقین دہانی کروائی
کہ پانی کی سپلائی کا بندوبست کر دیا جائے گا۔ اس یقین دہانی پر کیس کو
فائل کردیا گیا۔
پھرکینٹ بورڈ کی جانب سے ایک چھوٹی متوازی لائن بچھائی گئی جس کو پہلے سے
موجود ہ بچھی چھوٹی لائن جس کے آخر میں پانی کی بوند تک نہیں آتی تھی ، کے
ساتھ گلی کے آخر نصف کے ساتھ ملا دی گئی۔ کچھ عرصہ چند ایک گھروں میں
معمولی سا پانی آتا رہا۔ بالآخر جب والو مین سے بات کی گئی تو اس نے کہا کہ
ہمیں تو اس لائن کے بچھانے کی اطلاع نہیں دی گئی ہے اور اس وقت اس لائن میں
جو پانی آرہا ہے وہ ایک پُرانی پائپ لائن جس میں معمولی سا پانی اطراف کی
لائنوں سے آتاہے ۔ آپ کی پائپ لائن میں آجاتا ہے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا
کہ کینٹ بورڈ نے عدالت میں مقدمہ لے جانے کا انتقام اہل محلہ سے یوں لیا۔ہم
نے ایک بار پھر کینٹ بورڈ کے متعلقہ حکام سے بات کی اور اپنی شکایت گوش
گزار کی تو انہوں نے راحت سٹریٹ سے کنکشن جوڑاجس میں ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ
ہردوسرے دن پانی سپلائی ہوتا تھا۔ جس پر بمشکل گزارا ہوجایا کرتا تھا۔ اَب
ماہ جنوری سے ایک بوند پانی بھی آخری گھروں کو نہیں آرہا ہے ۔ تھوڑے عرصے
کے لئے ڈیم میں پانی کی کمی کو میں استثنیٰ میں شمار کرتا ہوں۔ گزشتہ کئی
ماہ سے اس سلسلے میں کوئی درخواست اس لئے نہیں دی کہ علاقہ میں نئی پائپ
لائنیں بچھائی جارہی تھیں اور یہ یقین دہانی بھی کروائی جارہی تھی کہ اَب
پانی کی ترسیل کا مسئلہ مکمل حل ہوجائے گا ، یعنی پانی کی سپلائی مکمل بحال
ہوجائے گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ بڑی پائپ لائن محلے کے نصف تک بچھا کر
ادھوری چھوڑی دی گئی ہے۔ شاید یہ بھی کینٹ بورڈ کی انتقامی کاروائی ہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ نئی پائپ لائن کو گلی کے آخرتک بچھایا جائے اور متوازی
لائن گلی کے آخر نصف میں جوڑا جائے تا کہ آخری گھروں تک پانی پہنچ سکے۔
اُمید ِ قوی ہے کہ میری جائز گزارش کو پذیرائی بخشی جائے گی ۔میں کینٹ بورڈ
کے احترام میں اس کھیل کو ضبط تحریر میں نہیں لارہا ہوں جو پانی کی سپلائی
کے سلسلے میں اﷲ والی گلی کے آخر نصف کے رہائشیوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔
بہرحال میں اپنا قانونی حق محفوظ رکھتا ہوں۔ اگرمیری مذکورہ بالہ گزارشات
پر عمل درآمد نہ ہوا تو ایک بار پھر معزز عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے
گااور میں وہ تمام بے ضابطگیاں جو پانی کے سلسلے میں اس وقت اہل محلہ کے
آخری رہائشیوں کے ساتھ کینٹ بورڈ کی جانب سے رواں رکھی جارہی ہیں ، عدالت
کے نوٹس میں لاؤں گے‘‘۔ |