ممتاز قانون دان رانا اخلاق احمدخاں (ایڈووکیٹ) کی جیون کتھا
(Dr.Izhar Ahmad Gulzar, Faisalabad/ Pakistan)
ممتاز قانون دان رانا اخلاق احمدخاں (ایڈووکیٹ) کی جیون کتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روبرو : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار . . . . . . . . . . . (پی ایچ- ڈی)
قانون میں وکیل وہ گمنام ہیرو ہیں جو پس منظر میں یہ دیکھنے کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں کہ انصاف ہوتا ہے اور قوانین اور ضوابط کے تحت چلنے والی دنیا میں لوگوں کے حقوق کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ کمرہ عدالت سے ہٹ کر یہ قانونی ماہرین ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک وکیل کے لئے پریکٹس میں قدم جمانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپنا آپ منوانے کے لئے اور ایک قابل اعتبار وکیل ثابت کرنے کے لئے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن عزت اور شہرت صرف محنت پر ہی منحصر نہیں ہوتی۔ اس میں دوسرے اسباب بھی شامل ہوتے ہیں بے شک ایک مسلمان کے لئے تقدیر پر بھروسہ اور مکمل ایمان اعتقاد کا بنیادی جزو ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تقدیر پر بھروسہ تدبیر سے آپ کو غافل اور بے نیاز کردے۔ جدوجہد اور کاوش جسے قرآن ’’سعی‘‘ کہتا ہے انسان کے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ انسان کی ’’سعی’’ کے ثمرات ضرور نظر آتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ تو دھرے رہنے سے حالات بدلا نہیں کرتے۔ اقبال نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے عمل سے غافل ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ! رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ نے اپنی وکالت کے سفر میں چند معمولات کو اپنی قانونی پریکٹس کا معمول بنایا ہوا ہے۔ ایک یہ کہ وکلاء کے معیار کا صاف ستھرا لباس پہن کر صبح سویرے عدالت کھلتے ہی آپ اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں ۔ دوسرا ان کا منشی یعنی کلرک ان سے پہلے موجود ہوتا ہے ۔ دوسرا معمول یہ کہ جو کیس یہ نہیں لڑنا چاہتے وہ نہیں لیتے ۔ خواہ کلائنٹ کتنا ہی اصرار کرے۔ صرف وہی کیس لیتے ہیں جس کو عدالت میں لڑنے اور دلائل دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ جو کیس خود نہیں لیتے ،کبھی کبھی کلائنٹ کے کہنے پر کسی اور وکیل کے حوالے بھی کرنا پڑ جاتے ہیں۔ اپنی مرضی کے کیس لینے سے اچھی نیک نامی ہو جاتی ہے۔عام طور پر وکیل صاحب وہی کیس لیتے ہیں۔ جس میں وہ کلائنٹ کا کیس لڑ سکیں۔ ورنہ نہیں لیتے۔ انہوں نے اپنی وکالت میں جو کیس لئے وہ زیادہ تر دیوانی یعنی سول نوعیت کے رہے ہیں ۔ فوجداری یعنی کریمنل کیس لینے میں انہیں کم دل چسپی رہی ۔ کیونکہ اس میں تھانے دار، علاقائی سیاستدان، کریمنل مافیا، وغیرہ بہت لوگ حصہ دار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے ۔ اس لئے یہ ادھر کا رخ کم کرتے ہیں ۔آپ زیادہ تر جائیداد کی منتقلی، وراثت، طلاق، خلع اور دیگر سول معاملات کے کیس لیتے ہیں ۔ یہ بات ممتاز قانون دان رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے شروع شروع میں فوجداری کیس لئے لیکن پھر ایسے کیسز کم کر دیے ۔
کہا جاتا ہے کہ کام یابی وہ لفظ ہے جو ہماری زبان سے بھی آئے روز ادا ہوتا ہے اور پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران دوسروں کی زبانی بھی سنتے رہتے ہیں۔ آپ کوئی بھی کام کرتے ہوں، کسی بھی شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ہوں اور کسی بھی ادارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں، دنیا کے چند کام یاب لوگوں بارے میں آپ نے ضرور کچھ باتیں پڑھی یا سنی ہوں گی۔ کام یاب لوگ مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے کام کو مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔‘ یہ متأثر کُن جملہ ہمارے ذہن میں کام یابی کا ایک خوش رنگ اور مختلف تصوّر اجاگر کرتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے وقت کے کام یاب ترین لوگوں کی فہرست میں شامل اکثریت کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے ابتدائی عمر میں مشکلات دیکھیں اور کٹھن حالات کا سامنا کیا، لیکن وہ وقت بھی آیا جب انھوں نے اپنی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ آج دنیا ان کی محنت، ان کے عزم و استقلال کی گواہ اور صلاحیتوں کی معترف ہے۔ محنت و جدوجہد کی مثال قائم کرنے والی ایک ایسی ہی شخصیت رانا اخلاق احمد (ایڈووکیٹ) کی بھی ہے۔ جنہوں نے ایک دور افتادہ گاؤں میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کی اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہو کر ایک نام پیدا کیا۔ رانا اخلاق احمد 5/جولائی 1967ء کو فیصل آباد کے ایک معروف درویش منش ٹرانسپورٹر رانا محمد احمد خان کے گھر فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر 87 گ ب (ملحقہ ڈجکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ان کے والد بزرگوار کی رحیم بس سروس میں ذاتی بسں چلتی تھی ۔ان کے والد نے اپنے اِس ہونہار فرزند کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی۔ اُنھوں نے ابتدائی تعلیم گھر ہی سے حاصل کی۔
اس کے بعد انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی ۔بعد ازاں میٹرک کا امتحان علاقہ کے ایک قدیم تعلیمی ادارے گورنمنٹ ہائی سکول ڈجکوٹ سے پاس کیا ۔بعد ازاں گریجویشن تک گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد سے تعلیم حاصل کی اور وکالت کی تعلیم بھی فیصل آباد میں مکمل کی ۔ سمن آباد کالج میں دوران تعلیم وہ سٹوڈنٹ یونینز سے بھی منسلک رہے۔ انہوں نے رانا ثناء اللہ خاں (سابق وزیر داخلہ)کی نگرانی میں 1995ء میں اپنی لاء پریکٹیس شروع کی ۔۔۔ رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ میرا دوست بھی ہے اور بچپن کا کلاس فیلو بھی۔۔آج سے تقریبا 50 سال قبل ہم ایک ہی ٹاٹ پر بیٹھ کر پرائمری تک اپنی تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔یہ وہ دور تھا جب گاؤں میں نہ بجلی تھی نہ پختہ سڑکیں تھیں ۔شام ہوتے ہی پورا گاؤں تاریکی میں ڈوب جاتا تھا ۔اور ہم لوگ لالٹینوں سے اپنے گھروں کو روشن کرنے کی سعی کرتے تھے اور اسی طرح لالٹین لگا کر راتوں کو پڑھنا مجھے آج بھی یاد ہے۔ مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔میں تو خیر آٹھویں کلاس پاس کر کے شہر شفٹ ہو گیا تھا ۔لیکن رانا اخلاق احمد نے نہ صرف گریجویشن کا امتحان اس گاؤں میں رہ کر مکمل کیا بلکہ اپنی وکالت کی تعلیم کے دوران بھی اگرچہ انہوں نے اپنی رہائش کسی ہوسٹل میں رکھ لی تھی لیکن ان کا تعلق اسی گاؤں سے جڑا رہا۔اور وہ تیسرے چوتھے روز اپنے گاؤں ضرور جایا کرتے تھے ۔اس طرح اس نوجوان نے اپنی محنت ، اخلاص اورطویل جدوجہد سے وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ بار فیصل اباد میں اپنی پریکٹس رانا ثناء اللہ خان (سابق وزیر داخلہ) کی نگرانی میں شروع کر دی ۔اس طرح رانا اخلاق احمد اور ان کے یار خاص محمد جاوید اعوان ایڈووکیٹ نے اپنی شب و روز محنت کے بل بوتے پر وکالت کے شعبے میں ایک معتبر نام پیدا کر لیا ۔اور آج اللہ کے فضل و کرم سے دونوں دوست محمد جاوید اعوان اور رانا اخلاق احمد وکالت کی دنیا کا ایک معتبر حوالہ ہیں ۔۔۔راقم ان دونوں ماہرین قانون کی محنتوں ، کاوشوں اور جدوجہد کا چشم دید گواہ ہے کہ انہوں نے دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھا۔اپنے پیشے سے مخلص ہو کر عوام الناس کی بھلائی کے لیے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور محنت کی ۔اور اللہ نے ان کی محنت کا بھرپور ثمر دیا ۔۔آج رانا اخلاق احمد اپنے ذاتی چیمبر میں آزادانہ طور پر اپنی پریکٹس کر رہے ہیں ۔ میں نے اپنے بچپن ہی سے رانا اخلاق احمد کو مطالعہ کا شوقین دیکھا۔شروع ہی سے یہ شخص کتابوں کا رسیا رہا اور ہر اچھی کتاب خریدنا ان کا مشغلہ رہا ۔۔۔۔۔ رانا اخلاق احمداِسْمْ بامُسَمّیٰ ہیں۔ نہایت منکسر المزاج ، نیک طینت اور سراپا اخلاص ہیں ۔دل کے نرم ، خدا ترس اور زندہ دل انسان ہیں ۔ غریب ، لاچار ، بیوہ اور یتیم لوگوں کو دیکھ کر ان کا دل پسیج جاتا ہے اور یہ اس طرح کے لوگوں سے فیس لینے کے بجائے ان کی مالی اعانت کرتے ہیں ۔اپنے گاؤں کے ہر شخص کے لیے ان کے چیمبر کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوتا ہے ۔اپنے گاؤں کے غریب اور کمزور لوگوں کے کیس مفت میں لڑتے ہیں اور ہر طرح کی امداد بھی کرتے ہیں ۔۔۔ایسے پیکر اخلاص و مروت سراپا خیر لوگ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتے ۔۔ان کا وجود اپنے گاؤں والوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔قحط الرجال اور بیگانگی کے موجودہ زمانے میں ان کا وجود اللہ کریم کی ایک نعمت ہے۔ سب لوگ ان کی بے لوث محبت ، خلوص، دردمندی، انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے کی جانے والی انتھک جدوجہد، حق گوئی و بے باکی، نیکیوں اور بے شمار ذاتی خوبیوں کی وجہ سے ان سے ٹُوٹ کر محبت کرتے ہیں ۔وہ ایک ایسا رانجھا ہے ، جوسب کا سانجھا ہے ۔ خدمتِ خلق، انسانی ہمدردی اور ایثار کے جذبات ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئے ہیں۔اللہ کریم نے رانا اخلاق احمد کو انسان شناسی کی اعلا ترین صفات سے متمتع کر رکھا ہے ۔وہ درد مندوں اور مظلوموں کے دُکھوں کا مداوا کرنے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں ۔۔جگر مراد آبادی نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا۔
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ قانون میں وکیل کی کیا اہمیت ہے؟
انہوں نے کہا کہ قانون میں وکیل، ایک قانونی پیشہ ور ہے جسے قانون پر عمل کرنے اور قانونی معاملات میں مؤکلوں کی نمائندگی کرنے کا لائسنس حاصل ہے۔ وکلاء قانون اور اس کے اطلاق کی گہری سمجھ حاصل کرنے کے لیے سخت تعلیم، تربیت اور امتحان سے گزرا ہوتا ہے۔ ان کا بنیادی کردار قانونی مشورہ فراہم کرنا، اپنے مؤکلوں کے مفادات کی وکالت کرنا، اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ قانون کی حدود میں انصاف کو برقرار رکھا جائے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں وکلا کے فرائض کے حوالہ سے کہا کہ وکلا ماہر نیویگیٹرز کی طرح ہیں ۔ قانونی منظر نامے قوانین، ضوابط اور نظیروں کی ایک پیچیدہ بھولبلییا ہے۔ وکلاء ان پیچیدگیوں کی گہری سمجھ رکھتے ہیں اور انہیں مؤثر طریقے سے نیویگیٹ کر سکتے ہیں۔ چاہے یہ معاہدوں کا مسودہ تیار کرنا ہو، کاروباری معاملات پر مشورہ دینا ہو، یا خاندانی قانون کے مسائل پر رہنمائی فراہم کرنا ہو، ان کی مہارت افراد اور کاروبار کو قانونی خرابیوں سے بچنے اور باخبر فیصلے کرنے میں مدد کرتی ہے۔
رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکلا پاور ڈائنامکس میں برابری کرنے والے ہوتے ہیں۔ قانونی تنازعات میں، مخالف جماعتوں کے پاس اکثر وسائل اور اثر و رسوخ کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ وکیل اپنے مؤکل کے پس منظر یا مالی حیثیت سے قطع نظر معیاری نمائندگی فراہم کر کے فرق کو پورا کرتے ہوئے برابری کا کام کرتے ہیں۔ یہ معاملات کو یکطرفہ لڑائیاں بننے سے روکتا ہے جس کا تعین صرف مالیاتی عضلات سے ہوتا ہے۔
رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ نے ایک وکیل کو ثالث اور مذاکرات کار قرار دیا ۔ان کا کہنا ہے کہ ہر قانونی اختلاف کو ایک مکمل عدالتی جنگ میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اٹارنی اکثر مذاکرات کار اور ثالث کے طور پر کام کرتے ہیں، ایسے دوستانہ حل تلاش کرتے ہیں جو اس میں شامل تمام فریقین کے لیے وقت، پیسہ اور جذباتی تناؤ کو بچاتے ہیں۔ سمجھوتہ کرنے کی ان کی صلاحیت معاملات کو ٹھیک کر سکتی ہے اور طویل قانونی تنازعات کو ٹال سکتی ہے۔
وکیل قانون میں انصاف کے محافظ ہوتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ قانونی کارروائی منصفانہ اور غیر جانبداری سے چلائی جائے انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے وکلاء ضروری ہیں۔ وہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہر فریق کو اپنا مقدمہ پیش کرنے، ثبوت کو چیلنج کرنے اور اپنے حقوق کی وکالت کرنے کا مناسب موقع ملے۔ وکلاء کے بغیر، انصاف کا ترازو عدم مساوات کی طرف بڑھ سکتا ہے، اور کمزور افراد کو آواز کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
وکیل قانون میں حقوق کے محافظ کوئی بھی جمہوریت انفرادی حقوق کے اصول پر استوار ہوتی ہے۔ ان حقوق کے دفاع کے لیے قانونی مشاورت ضروری ہے۔ وہ ان کلائنٹس کی وکالت کرتے ہیں جو اپنی شہری آزادیوں کی خلاف ورزیوں کا سامنا کرتے ہیں، جیسے کہ آزادی اظہار، مناسب عمل، اور رازداری۔ ان کا کام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ طاقتور پسماندہ لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔
رانا اخلاق احمد نے کہا کہ تبدیلی کے لیے وکلا ایک رہنما کی طرح ہوتے ہیں ۔ اٹارنی اکثر وسیع تر معاشرتی مضمرات کے ساتھ مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔ غیر منصفانہ قوانین اور امتیازی طرز عمل کو چیلنج کرتے ہوئے، وہ قانونی اور سماجی تبدیلی کے لیےاچھے رہنما بن جاتے ہیں۔ تاریخی مقدمات میں ایسے تاریخی فیصلوں کا باعث بنے ہیں جنہوں نے شہری حقوق، مساوات اور انفرادی آزادیوں کی نئی تعریف کی ہے۔
رانا اخلاق احمد نے بتایا کہ وکلا ہمیشہ اخلاقی معیارات کے حامی ہوتے ہیں ۔وکلاء کو اعلیٰ اخلاقی معیارات پر رکھا جاتا ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت، رازداری، اور ضابطہ اخلاق سے ان کی وابستگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قانونی کارروائیاں دیانتداری کے ساتھ چلائی جائیں۔ یہ عزم قانونی نظام میں اعتماد کو فروغ دیتا ہے اور اس کی ساکھ کو برقرار رکھتا ہے۔ رانا اخلاق احمد ایڈووکیٹ نے وضاحت کی کہ اٹارنی اکثر قانون کے مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، جیسے فوجداری قانون، خاندانی قانون، کارپوریٹ قانون، ماحولیاتی قانون، املاک دانشورانہ قانون، اور بہت کچھ۔ تخصص انہیں اپنے منتخب کردہ فیلڈ میں گہری مہارت پیدا کرنے اور مخصوص قانونی مسائل کا سامنا کرنے والے کلائنٹس کو ہدفی مدد فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اٹارنی برائے قانون صرف کمرہ عدالت میں بحث کرنے والے مقدمات میں پیشہ ور نہیں ہوتے ہیں۔ وہ انصاف کے ستون، حقوق کے محافظ اور تبدیلی کے معمار ہیں۔ ان کی مہارت اور لگن ایک منصفانہ معاشرے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے جہاں قوانین کو برقرار رکھا جائے، اور افراد کو تحفظ حاصل ہو۔۔ یاد رکھیں کہ ان کی اہمیت قانونی اصطلاح سے بہت آگے ہے، وہ انصاف کے محافظ اور حقوق کے علمبردار ہیں۔
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کا کہنا ہے کہ "صوفی نہ ہونے کے باوجود اس باکمال انسان میں چار ایسی خوبیاں موجود ہیں جو صوفیوں میں ہوتی ہیں ۔کم بولنا ،کم کھانا ،کم سونا اور صحبت ناجنس سے دور رہنا" رانا اخلاق احمد کی زندگی پر اگر نظر اڑائیں تو وہ ہمیں ایک کامیاب ہیرو کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی رانا اخلاق احمد کو مزید کامیابیوں اور کامرانیوں سے نوازے اور ان کو درازی عمر عطا فرمائے تاکہ آپ اسی طرح لوگوں کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں ۔آمین |
|