27 دسمبر محض ایک تاریخ نہیں، یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ زخم ہے جو آج بھی تازہ ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سیاست صرف اقتدار کا کھیل نہیں ہوتی، بعض اوقات یہ جان کی بازی لگا دینے کا نام بھی ہے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اسی سیاست کی روشن مثال تھیں۔بینظیر بھٹو کی سیاست کا آغاز اقتدار سے نہیں بلکہ قربانی سے ہوا۔ والد، شہید ذوالفقار علی بھٹو، کے عدالتی قتل کے بعد انہوں نے ایک آمریت زدہ ریاست میں جمہوریت کا پرچم اٹھایا۔ قید و بند، تنہائی کی اذیت، نظر بندی اور جلاوطنی—یہ سب ان کی سیاسی تربیت کا حصہ بنے، مگر وہ کبھی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی سب سے بڑی خوبی ان کی غیر متزلزل جمہوری وابستگی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ بندوق اور فرمان سے حکومت تو کی جا سکتی ہے، مگر قوم نہیں بنائی جا سکتی۔ اسی یقین کے تحت انہوں نے ہر بار آئین، پارلیمان اور عوامی رائے کو بالادست مانا، چاہے اس کی قیمت اقتدار کی صورت میں ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑی۔ان پر الزام لگے، حکومتیں توڑی گئیں، کردار کشی کی گئی، مگر انہوں نے کبھی سیاست کو انتقام کا میدان نہیں بنایا۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں، اسی لیے ان کی سیاست میں برداشت، مکالمہ اور سیاسی بلوغت نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ جمہوریت کا حسن اختلاف میں ہے، تصادم میں نہیں۔ بطور وزیراعظم انہوں نے ریاست کو صرف طاقتور نہیں بلکہ انسان دوست بنانے کی کوشش کی۔ توانائی کے منصوبے ہوں، دفاعی صلاحیت کا فروغ، یا لیڈی ہیلتھ ورکرز جیسا انقلابی پروگرام—ان کی پالیسیوں کا مرکز عام آدمی تھا، خاص طور پر وہ طبقہ جو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا۔ بینظیر بھٹو کا سب سے بڑا امتحان 2007 میں سامنے آیا، جب انہیں اپنی جان کو لاحق خطرات کا پورا علم تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ واپسی یک طرفہ سفر بھی ہو سکتی ہے، مگر ان کے نزدیک جمہوریت کی بحالی ذاتی سلامتی سے زیادہ اہم تھی۔ یہی فیصلہ بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوا۔ آج جب ہم بینظیر بھٹو کو یاد کرتے ہیں تو سوال یہ نہیں کہ وہ کتنی بار وزیراعظم بنیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ انہوں نے سیاست کو کیا دیا؟ اس کا جواب واضح ہے: انہوں نے سیاست کو حوصلہ دیا، جمہوریت کو آواز دی اور عوام کو یہ یقین دلایا کہ آمریت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، عوامی طاقت کے سامنے ہمیشہ کمزور رہتی ہے۔بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں، مگر ان کی جدوجہد زندہ ہے— اور جب تک پاکستان میں جمہوریت، آئین اور عوامی حقِ حکمرانی کی بات ہوتی رہے گی،بینظیر بھٹو کا نام تاریخ کے ہر صفحے پر روشن رہے گا۔ |