جس طرح بونے کچھ بھی کرلیں ،یہ ہمیشہ بونے ہی رہیں گے۔
اِسی طرح جھوٹا کچھ بھی کرلے جھوٹاہی رہتاہے۔ جھوٹا اپنے ایک جھوٹ کو سچ
ثابت کرنے کے لئے سیکڑوں جھوٹ بولتا ہے اور سچ سے کوسوں دور ہوتاچلاجاتا ہے۔
مگر ا ِس پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب اِسے اپنے جھوٹ پر ندامت کا
سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے؛ اور اَب یقینی طور پر سا بق نااہل وزیراعظم اور ن
لیگ والوں پر وہ وقت آن پہنچاہے۔ جب اِن سب کے پیروں میں بھی ندامت کی
زنجیر یں پڑی ہوں گیں ، اور یہ اپنے سر نیچے کئے اپنی ندامت کی زنجیروں کو
دیکھ کر کفِ افسوس ملیں گے ؛ اور باقی زندگی گمنامی میں گزاردیں گے۔
بہر حال ، اِس سے انکار نہیں کہ سابق نااہل وزیراعظم اور اِن کے چیلے چانٹے
اپنی کرپشن کی وجہ سے شکاری کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ ہنوز یہ سلسلہ
جاری ہے۔ مگریہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج جب قومی احتساب اور انصاف فراہم
کرنے والے ادارے اپنی تمام تر تحقیقات کے بعد مطلوبہ کرپٹ عناصر کو قانونی
گرفت میں لارہے ہیں؛اور اِنہیں سزا دینے کے در پر ہیں۔ تو سابق نااہل
وزیراعظم اور اِن کے چہیتے اپنی کرپشن اور بددیانتی ماننے کے بجائے۔ اُلٹا
قومی احتساب اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے خلاف ہی آستینیں چڑھا کر
محاذ آرا ئی پر اُتر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف مُلک بلکہ پوری دنیا میں بھی
ماضی و حال اور مستقبل کے حکمرانوں کی نیک نامی سے متعلق پاکستان کا وقار
مجروح ہورہاہے۔آج وطنِ عزیز پاکستان کی اندرونی اور بیرونی طور پرجتنی بھی
بدنامی ہورہی ہے اِس کے ذمہ دار صرف کرپٹ حکمران ، سیاستدان اور اِن کے
چیلے چانٹے ہیں۔ جنہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر مُلکی وقار ،
خودمختاری اور سلامتی کو دباؤ پر لگایا اوراِن سب کرپٹ عناصر نے مل کر قومی
خزا نے کو اربوں اور کھربوں کا نقصان پہنچایاہے۔
تاہم اِن دِنوں کرپٹ عناصر کی موجودگی میں میرے دیس میں اگلے اقتدار کی
منتقلی کے لئے الیکشن کا بازار سجاہوا ہے ۔چاردانگ عالم میں سیاسی بونوں
اور جھوٹوں کی یلغارزورں پر ہے۔سیاسی بازی گروں اور سیاسی جوکروں نے اپنی
کمین گاہوں سے نکل کر غریب ، مفلوک ا لحال اور مسائل میں گھیرے ووٹروں کے
محلوں ، گلیوں اور بازاروں کی جانب چلنا شروع کردیاہے۔ اپنی جیت اور فتح کے
لئے سیاستدانوں کی زبان سے محبت او راُلفت کی چاشنی کی پھلچھڑیاں نکل رہی
ہیں۔ ستربرسوں سے کمزورجمہوری نظام کے نام لیواوں کی با ہیں غریبوں کو بغل
گیر ہو کر گلے لگا نے کو تڑپ رہی ہیں۔ نوابوں، سرداروں ، چوہدریوں ، وڈیروں
اورخانوں کی پکڑیاں ووٹروں کے قدموں میں پڑی ہو ئی ہیں، سرمایہ داروں اور
صنعت کاروں نے بھی اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں اوراقتدار کے پچاریوں
نے غریب ووٹروں کی دہلیز وں پر ڈیرے ڈال دیئے ہیں، آج جس مقام پر غریب کا
پسینہ گررہاہے،ہوسِ اقتدار کے چیلے چانٹے اُس جگہہ کی خاک بھی اپنے سر پر
ڈالنا کارِ ثواب اور اپنی جیت کے لئے نیک شگون سمجھ رہے ہیں، سیاسی
بہروپیوں نے غریبوں ،بے کسوں اورمجبوروں سے الفت اور محبت کا ایسا ڈرامہ
رچارکھا ہے کہ اِن سیاسی اداکاروں کی اداکاری دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ یہ
دودونی چارکرنے والے چکرباز شا طرلوگ بہت بڑے ڈرامے بازبھی ہیں۔اَب اِن
سیاسی نوٹنکی بازوں کو سمجھنا اور اِنہیں اِن کی اوقات میں رکھنا تو ووٹرز
کا کام ہے کہ یہ اِن اقتدار کے لالچی جوکروں کو اِن کی اوقات یاد دلا ئیں؛
اور اِنہیں اِن کے سیاہ کرتوت گنوائیں اوراِنہیں کان سے پکڑ کر اپنے محلوں،
گلیوں اور بازاروں سے باہر نکالیں۔ تاکہ اِنہیں اپنی اصل اوقات کا لگ پتہ
جائے۔ ووٹرز اپنا ووٹ اُسے دیں ، جو نیک نامی ،اخلاص، بھا ئی چارگی ، حب
الوطنی اور ملی یکجہتی میں اپنی مثال آپ ہو، تا کہ مُلک کو ایک باوقار اور
ایماندار قیادت ملے۔
بہر کیف ، آج جہاں ارضِ مقدس مملکت خدادادکستان میں 25جولائی 2018ء کو ہونے
والے قومی اور صوبائی الیکشن کا دن قریب سے قریب ترآتاجارہاہے؛ تووہیں، ایک
مرتبہ پھر مُلک کے طاقتور ترین کرپٹ عناصربھی کمزور جمہوریت کا احصار
باندھے اور جمہوری مالا جپتے یکدل اور یک زبان ہورہے ہیں۔غرضیکہ، اگلے
اقتدار کے لئے کرپٹ عناصر ایک دوسرے کی مدد کے لئے قدم سے قدم ملا کر چلنے
کا عہدہ پیمان بھی کررہے ہیں۔اَب جب کہ عام انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں۔ ،
مُلک بھر میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی الیکشن کی تیاریاں اور گہما
گہمی عروج پر ہے تو ایسے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایون فیلڈریفرنس
مقدمے میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کی متوقع یا یقینی سزا کے
خلاف مُلک گیر احتجاجی تحاریک بھی شروع کرنے کی تیاریاں کرلی ہیں۔ تو وہیں،
اِن کی اِدھر اُدھر کی ظاہرو باطن ہم پیالہ اور ہم نوالہ سیاسی اور مذہبی
جماعتوں نے بھی احتجاج کا حصہ بننے کا اعلان کردیاہے۔ اَب اِس صورتِ حال
میں متوقع انتخابات کاپُر امن انعقاد کیسے یقینی ہوسکتاہے؟ یہ ایک ایسی
حقیقت ہے جسے جان کر ریت میں منہ چھپانا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا
۔اِس مرتبہ الیکشن میں کئی ایسی حقیقتیں اور بھی ہیں۔ جن کا ادراک وقت آنے
پر ہوجائے گا۔ فی الحال، مُلک کی موجودہ سیاسی اور غیر یقینی صورتِ حال میں
تولاکھ حکومتی مشینری کے باوجود بھی آزادانہ اور پُرامن ماحول میں صاف و
شفاف انتخابات کا انعقاد اپنی ذات میں بے شمار سوالیہ نشانات کی کیلوں سے
بھرا پڑاہے۔
تاہم یہاں یہ امر آنے والے متوقع الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کے لئے
بڑی حد تک ِ غورطلب ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری (مائنس
بھٹو)نے اپنی سیاسی فہم وفراست سے کام لیتے ہوئے اِنتہائی مدبرانہ انداز سے
پاکستان مسلم لیگ (ن) والوں کو اپنا یہ پیغام بھی ضرور پہنچادیاہے کہ’’
اگلے انتخابات میں اِن کی وفاق میں جیسی بھی پوزیشن ہو۔ اِن کا عمران سے
اتحاد تومشکل ہے مگر حالات جیسے بھی ہوں، ن لیگ الیکشن کا بائیکاٹ ہر گز نہ
کرے۔یعنی کہ آج بلاول کے جو دل میں تھا۔ وہ زبان پر بھی آگیاہے؛ کہ آئندہ
آنے والے وقتوں میں کچھ بھی ہوجائے ، پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی اندر سے
ایک ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی اِس میں بھی کو ئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے سربراہ
عمران خان المعروف مسٹر سونامی یقینی طور پر جو یہ کہتے ہیں کہ’’ نوازاور
زرداری دو ایسی دیمک کے نام ہیں؛ جو باری باری مُلک کو چاٹ رہے ہیں اور قوم
کی خون پسینے کی کمائی کو اپنے اللے تللے پر اُڑا کر مُلک کو قرضوں کے بوجھ
تلے دباکر مُلکی معیشت اور عوام کا بیڑا غرق کر رہے ہیں‘‘تواَب یہ سو فیصد
درست لگنے لگاہے۔یعنی کہ آج تک جیسا عوام سوچتے اور سمجھتے رہے تھے ۔ وہ سب
حقیقت کے یکدم برعکس تھااور حقیقت یہی ہے آج جو عمران خان کا زرداری اور
نواز سے متعلق کہنا ہے ۔ اوراَب جو حقیقی رنگ میں سا منے آگیاہے ۔ (ختم شُد)
|