فرض کریں آپ ایک مزدور ہیں اور سڑ ک کنارے کام کر رہے ہیں
ایسے میں ایک پیش بہا قیمتی گاڑی آپ کے پاس آ کر رکتی ہے اس مین سے ایک ہٹا
کٹا خوش لباس خوشبؤں سے لبریز آدمی اتر کر آپ کو سلام کرتا ہے اور کہتا ہے
کہ جناب میں ہوں آ پ کا خادم میں ہوں آپ کا نوکر تو جناب سمجھ لیں کہ وہ
جھوٹ بول رہا ہے اسی طرح گزشتہ کئی سال سے آپ نے اپنے علاقے میں ایک پیش
قیمت گاڑی جس کے کالے شیشے آپ کو تجسس میں ڈال رہے ہوتے ہیں کہ جناب اس
گاڑی میں کون ہو سکتا ہے فراٹے بھرتی آپ کے پاس سے گزر جاتی تھی اب وہی
گاڑی بہت آہستہ رفتار سے آپ کے پاس سے گزرے گی اس کے کالے شیشے نیچے اترے
ہونگے اس میں بیٹھا ہوا شخص آپ کو سلام پر سلام کرتا ہوا گزر رہا ہے تو
سمجھ لیں کہ اس کا کوئی بہت بڑا مطلب ہے جو وہ آپ سے حل کرانا چاہتا ہے تو
دوستو ایسے لوگوں کے فریب میں مت آنا آج ہمارے نوکر نظر آنے والے یہ لوگ
اصل میں بہت بڑے ڈرامے باز ہیں جن کے چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے کئی خفیہ
چہرے بھی ہیں جو ہمیں فل وقت نظر نہیں آتے مگر جیسے ہی یہ لوگ ہمارے ووٹ
لیکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں ان کی چہرے کے نقاب اڑھ جاتے ہیں اور وہ ہمارے
سامنے نظر آنے لگتے ہیں ہم نے ان کو خود سر پرچڑھایا ہوا ہے ہمارے حاکم جب
ہمارے ہاں سڑکوں پر چلتے ہیں تو ان کے لئے سڑکیں ایک ایک گھنٹہ پہلے ہی بند
کر دی جاتی ہیں جبکہ یہی حاکم جب بیرون ممالک میں ہوتے ہیں تو دوڑ دوڑ کر
سڑ ک پار کرتے نظر آتے ہیں کیا وجہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو پروٹوکول دیتے
ہیں جن کا کام ہے کہ وہ ہمیں (عوا م)پروٹوکول دیں تو جناب ہم نے ہی ان نام
نہاد لیڈروں کو اپنے سرپرچڑھایا ہوا ہے ان کا کام ہے عوام کی حفاظت کرنا
مگر یہ تو خود اپنی حفاظت کا بندو بست کیے ہوئے ہیں مانتے ہیں کہ دنیا میں
لوگوں کا ان کے مرتبے کے مطابق عزت و احترام کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں
کوئی عزت کرئے نا کرئے یہ حکمران خود سے ہی لوگوں سے عزت کروانے کی کوشش
میں ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان کا کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں ہے جس کو
یہ بلا پسند نہ ہو اس موذی بیماری سے ایک طرف تو عوام کا نقصان ہوتا ہے
پاکستان میں سیاست صرف پیسے کمانے کے لیے کی جاتی ہے ہمارے ہاں جو سب سے
بڑا کرپٹ ہوتا ہے اسے ہی سب سے بڑا سیاسی کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے تمام
دنیا میں ایشوز کی سیاست کی جاتی ہے لیکن پاکستان جہاں پر سیاست میں ایک
دوسرے کو ننگا کیا جاتا ہے سیاست کے اس گندے جوہڑ میں کسی کی عزت و آبرو کا
خیال نہیں رکھا جاتا شاید ہمارے ہاں کسی کی ذات پر پت کرنا ہی سیاست کا
مفہوم ہے
پاکستانی سیاست میں کردار کشی کوئی نئی بات نہیں آج کے بڑے بڑے سیاستدان
ماضی میں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ان کی کردار کشی کرتے نظر آتے
رہے ہیں اس وقت کی گئی کردارکشی خود ان کے اپنے گلے پڑ رہی ہے جس کو صرف
مکافات عمل کہا جا سکتا ہے ہمارے ہاں گالی اور گولی کی سیاست نئی بات نہیں
پاکستانی سیاست میں جو جتنا بدتمیز ہوتا ہے اتنا ہی مشہور ہوتا ہے ایسے بد
تمیز افراد ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں اور ایسے افراد کو میڈیا اپنے مختلف
شوز میں بلا کر مزید پر موٹ کرتا ہے یہ لوگ اپنے سیاسی بیانات میں اپنے
مخالفین کی ماوں بہنوں کو گندی گالیاں نکال کر اور اپنے آقاوں اور بڑے
عہدوں کے لیے اپنے لیڈران کے جوتے چاٹ کا اعلی عہدے حاصل کر لیتے ہیں اور
بڑے عہدوں کے حصول کیلئے یہ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کو خراب کرنا کوئی
گناہ نہیں سمجھتے ان خوشامدی لوگوں کی وجہ سے نظریاتی کارکن بڑے دباؤ کا
شکار ہیں کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ
اپنے نظریاتی کارکنوں کی حفاظت کرے لیکن عام مشاہدہ دیکھنے میں آیا ہے کہ
جو لوگ اپنے لیڈران کے سامنے ان کی بات کی مخالفت کرتے ہیں ایسے لوگوں کو
یہ خوشامدی اور مفادپرست لوگ ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں دنیا بھر میں
جہاں جہاں سیاسی لوگ موجود ہیں ان سب کی سیاست کو اگر دیکھا جائے تو سب سے
منفی سیاست پاکستان میں کی جاتی ہے یہاں ایک لمحے میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو
جھوٹ بنا کر دیکھا لیا جاتا ہے لوگ نئے آنے والے چہروں کیلئے مٹھائیاں
بانٹتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ جانے والے چہرے کے لیے بھی
مٹھائیاں تقسیم کرتے نظر آ ہیں نئے آنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری خوشی
کیلئے یہ مٹھائی بانٹی جارہی ہے جبکہ جانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید
ہمارے غم میں مٹی جا رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے یہ پاکستانی سیاست کا ایک
تاریک پہلو ہے ہم لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے غلط لوگوں کو منتخب کر کے
اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جنھیں صرف اور صرف اپنے پیٹ کی اور اپنے خاندان کی
اپنے بچوں کی پروا ہوتی ہے ایسے لوگوں نے ملک کو سوائے رسوائیوں ،بھوک ،
غربت ،افلاس کے سواء کچھ نہیں دیا ان کے لئے ملک پاکستان کچھ بھی نہیں شاید
یہی وجہ ہے کہ ان کی اولادیں باہر ان کا کاروبار باہر ان کی خوشی اور غمی
باہر تو پھر کیونکر یہ لوگ پاکستان کے مفاد میں ہوں گے اور جب کبھی الیکشن
آتے ہیں یہ لوگ اپنے ڈرامہ بازیاں پھر سے شروع کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل
کر لیتے ہیں ایسا ہی آجکل دیکھنے کو مل رہا ہے ہمارے نام نہاد لیڈرلینڈ
کروزر سے اترکر سکوٹر پر سوار ہو چکے ہیں سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار
تصاویر گردش کر رہی ہے جس میں کچھ جانے پہچانے چہرے اسکوٹر پر بیٹھے ہوئے
ہیں جو کبھی اپنی دو کروڑکی گاڑی سے نیچے اترنا پسند ہی نہیں کرتے لیکن آج
وہ ووٹ کے حصول کے لیے ایسے کرتب دکھا کر عوام کو مرعوب کرنے کی ناکام کوشش
میں ہیں میری عوام سے اپیل ہے کہ خدا راہ ان کو پہچانو ان کی ڈرامے بازیوں
میں مت آنا نہیں تو اگلے پانچ سال تک ان کی راہ ہی تکھتے رہو گے اور یہ دو
دو کروڑ والی گاڑیوں میں ایسے فراٹے بھر کر نکلیں گئے کہ تمھیں کئی منٹ تک
دھول مٹی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آئے گا سو بچو ان سے ان کا یہ ہوٹر سے
سکوٹر کا سفر صرف 25جولائی تک ہے اس کے بعد ان کی گاڑیوں کی گرد ہی آپ کو
نظر آئے گی۔ |