فسادی (قسط نمبر ٣)

کبھی کبھی خاموشیاں آتش فشاں مادے کو اندر ہی اندربڑھاتی ہیں ۔ ایک لاوہ پنپتا رہتا ہے ، جبکہ ظاہری حالات سے پتہ بھی نہیں چلتا کہ کوئی مسلہ بھی ہے۔

آمنہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مگر بھابھی مجھے تو پتہ تھا نا ،کہ بھائی گھر پر نہیں ہیں ۔ میں نے اس لیے ناک نہیں کی۔ آپ کو بُرا لگا تو سوری ۔ مگر اب تیار ہوں اور میرے ساتھ کچن میں چلیں ۔ نصرت نے دل ہی دل میں سوچا انکار کر دینا چاہیے ۔ اس کے دل میں اپنے بھائی کی بات آئی۔ امی دیکھنا چار دن ہی رہے گی سسرال میں یہ۔ کوئی برداشت نہیں کرئے گا ایسی منہ پھٹ لڑکی۔ دھکے دے کر نکال دے گا اس کا شوہر۔
نصرت نے اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی خواہش کو بلائے طاق رکھا اور لہجے کو نرم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے تم جاو میں فریش ہو کر آتی ہوں ۔ وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی الماری کے قریب آ گئی۔ کیا پہنوں ؟
کچن میں داخل ہوئی ہی تھی کہ ساس صاحبہ کا پھولا ہوا منہ اور چڑی ہوئی ناک دیکھ کر نصرت کو اندازہ ہو رہا تھاکہ وہ ابھی تک غصے میں ہیں ۔ انہوں نے با آواز بلند بتانا شروع کیا کہ بنانا کیا کیا ہے اور پھر کچن سے باہر چلی گئیں۔ نصرت نے آمنہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے تو کھوسہ بنانا نہیں آتا ۔ میں نے تو کبھی نہ کھایا نہ بنایا ۔ آمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں بھابھی جو آتا ہے وہ بنا لیں ، کھوسہ میں بنا لوں گی۔
نصرت کو آمنہ کی طبعیت اچھی لگی ۔ اس نے کچن میں اس کا ہر ممکن ساتھ دیا۔ وہ بات بے بات مسکراتی ۔ اپنے کالج کی باتیں کرتی۔ وہ فسٹ ایر کی طلبہ تھی ۔ نصرت کو اپنا وہ دور یاد آیا جب اسے اس عمر میں باغی اور فسادی کہا جاتا تھا۔وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اس نے گھیر میں چینی کی بجائے نمک کا ایک چمچ ڈالا ہی تھا کہ آمنہ چلائی ، ارے بھابھی وہ چینی نہیں ہے۔ نصرت نے پریشانی سے دیکھا ۔ اب کیا کریں ۔ اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ نمک کھیر میں مل چکا تھا اور اس کی زندگی میں بھی ۔ اب تو بس اس کا ذائقہ چکھنا تھا۔
انہوں نے کھیر میں چینی ڈال کر ہو جانے والی غلطی کو مٹانے کی ناکام کوشش کی۔ نصرت نے گھیر چکھی ، نمک چینی کی مٹھاس پر حاوی آ چکا تھا۔ کڑوہٹ جب مٹھاس سےلپٹتی ہے تو ہمیشہ مٹھاس ہی دم توڑتی ہے۔اس نے افسردہ لہجے میں کہا نمک اپنا آپ دیکھا رہا ہےمگر کھیر کھانے کے قابل ہے۔آمنہ نے مسکرا کر کہا بھابھی یہ تو مٹھاس کی مقدار پر ہے ۔ مقدار طے کرے گی نا جیت اور ہار۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں۔
آمنہ اور نصرت کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ماموں کی آواز آنگن سے بلند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ بھئی اچانک سے جانے کا آڈر نہ ہوتا تو میں چھوڑتا تمہارے بیٹے کی شادی۔ تنزیلہ کی آواز بھی سنائی دی۔ بھائی آپ اگر پہلے بتا دیتے تو میں دن ہی بدل دیتی شادی کا۔ پھر مردانہ آواز بلند ہوئی۔ مجھے پتہ ہوتا تو بتاتا نا۔
آمنہ نے نصرت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ چلیں بھابھی ماموں کو سلام کر کے آتے ہیں ۔نصرت نے آمنہ کے پیچھے پیچھے جاتے ہوئے ماموں جان کو سلام کیا۔ انہوں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔ بھئی داد دینی پڑے گی ، دیر آئے درست آئے بچی تو اچھی بہو بنائی ہے تم نے۔ وہ واقعی پولیس والے لگتے تھے۔ بھاری بھر کم جسم کالا رنگ ،باہر نکلا ہوا پیٹ ۔ انہیں دیکھ کر نصرت کو حیرت ہوئی۔ یہ واقعی آفاق کے ماموں ہی ہیں ۔ ان کی رنگت اور جسم سے تو وہ کوئی انڈین فلم کے ویلن لگتے تھے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ آدمی کو بیوی خوبصورت مل جائے تو سمجھو قسمت والا ہے۔ باقی تو وہ ٹھوک بجا کر اپنی مرضی سے کر ہی لیتا ہے۔ ان کی بات نصرت کو شدید بُری لگی مگر وہ ہونٹ سی کر رہ گئی۔ اس کے دل میں آیا ، جیسی شکل ہے ویسی سوچ بھی ہے اس کالے بھالو کی۔ وہ دل ہی دل میں غصے اور نفرت کے جذبات سے بھری ہوئی کمرے میں چلی گئی۔جبکہ تنزیلہ اور ان کے بھائی بھاوج کے ہنسنے کی آوازیں اس کے غصے کو اور ہوا دے رہی تھیں ۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ وہ تمام عمر جس چیز پر تنقید کرتی رہی آج کیوں اس کے ساتھ سمجھوتا کر رہی ہے۔ اس آدمی کو منہ پر کہنا چاہیے تھا ۔ بیوی ٹھوک بجا کر ٹھیک کرنے والی چیز نہیں ہے۔میں چپ کیوں کر گئی۔ وہ خود کو کوس رہی تھی کہ ماموں کو چھوڑ کر سب ہی اس کے کمرے میں آ کر بیٹھ گئے ۔
تنزیلہ اور اس کی بھابھی خاندان والوں کی باتیں کرنے لگی تو نصرت کے دل میں آیا ،یہ لوگ پورے گھر کو چھوڑ کر اس کمرے میں کیوں آ گئیں ۔ وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔ اسے اپنا چلانا یاد آ رہا تھا۔ امی میرے کمرے میں یہ کباڑ نہ رکھا کریں ۔ مجھے میرے کمرے میں کوئی فالتو چیز نہیں چاہیے۔ آپ سے اگر کوئی ملنے آتا ہے تو خبر دار میرے کمرے میں اسے بٹھائیں ۔ پورا گھر ہے جہاں مرضی لے جائیں ۔ امی منہ بنا کر کہتی ۔ بیٹا مہمان اللہ کی نعمت ہوتے ہیں ۔ اس کا غصے سے کہنا ۔ کہ کیسی نعمت ہے جو گناہ کی دعوت دے، غیبت سے دامن بھرتی ہے۔ ممانی جان کی باتوں نے نصرت کو چونکا دیا۔ آفاق کے خیالوں میں گم ہو۔ نصرت نے ان کی طرف دیکھا۔ ایک افسردگی کی لہر اس کے تمام بدن میں گھوم گئی۔
آفاق ۔ اس کی سماعت میں نام دوبارہ سے گونجا۔ اسے اس اذیت میں مبتلا کرنے کا وسیلہ وہی ہے۔ کاش کہ میں نے اسے کبھی دیکھا ہی نہ ہوتا۔ منافق اوربہروپیا ۔ عورت کی بے بسی پر بات کرنے والا۔ممانی نے پھر نصرت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔آفاق جیسا لڑکا تو ہمارے پورے خاندان میں نہیں۔ آفاق کی امی نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔ میرے بیٹے کے لیے تو ہزاروں رشتے تھےمگر جہاں قسمت ہو۔ ان کے لہجے میں افسردگی تھی یا اطمینان نصرت کو سمجھ نہیں آیا۔
مہمان جا چکے تھے ، آفاق کی امی نصرت کی موجودگی میں کھانے کی بُرائی کر رہی تھیں ۔ انہوں نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ ایسی کھیر بنائی سب نے ڈالی پر کھائی کسی نے نہیں ۔ آج کل ماں باپ بیٹیوں کو ایم اے ، بی اے تو کروا دیتے ہیں ،پر وہی کام نہیں سکھاتے جو انہیں کرنا ہے۔ ایسے جیسے کھانا تو میاں پکا کر کھلاے گا۔ اب اگر کھانا میاں نے پکانا ہے تو بی بی کو لانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آفاق چپ چاپ بیٹھا امی کی باتیں سنتا رہا ۔ ہوں ہاں کرتا رہا۔ نصرت چپ چاپ کمرے میں آ گئی۔
اسے شادی کرنے پر شدید غصہ آ رہا تھا۔ اس نے کیوں شادی کر لی ۔ اب کیا کرئے۔
وہ غصے میں بھری بیٹھی تھی کہ آفاق کمرے میں آیا ۔ وہ جوتے اتار کر بستر پر لیٹ گیا ۔اپنے موبائل پر خبریں پڑھتے ہوئے اس نے نصرت سے ٹی وی کا ریموٹ مانگا ۔ نصرت نے ریموٹ دینے کی بجائے ۔ افسردگی سے کہا۔ آپ کو خانسامہ ضرورت تھی تو شادی کیوں کی ۔ کوئی خانسامہ لے آتے۔
آفاق نے کچھ دیر اسے گھور کر دیکھا اور پھر سنجیدگی سے کہا۔ عورت کی زمہ داری ہے کھانا بنانا ۔ اپنے کام میں اچھا ہونا ہی انسان کی قدرو منزلت طے کرتا ہے۔ جب بچے اچھا کام نہیں کرتے تو بڑے انہیں ڈانٹتے ہیں ۔ امی کی باتوں کا بُرا ماننے کی بجائے تمہیں سمجھنا چاہیے کہ تم نے کیا کیا ۔ غلطی سے سیکھنا ہی انسان کو بہتری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اب ریموٹ دو۔
نصرت نے غصے سے کہا۔ میں بچی نہیں ہوں ۔آفاق اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اس نے گھورتے ہوئے کہا۔ تم چاہتی کیا ہو؟ ایک تو تمہارے منہ میں جو آتا ہے تم کہہ دیتی ہو۔ امی سے تم نے کیا کہا۔ میں جانور ہوں ۔ تمہارے ساتھ کون سا جانوروں والا سلوک کیا ہے؟ نصرت نے فوراً سے کہا میں نے ایسا نہیں کہا۔ آفاق نے غصے سے اسے دیکھا اور چیخ کر کہا تو کیا میری امی جھوٹ بول رہی ہیں ۔یہ گھر ہے کوئی جنگ کا میدان نہیں ۔ مجھے سکون چاہیے ۔ سمجھی ۔
نصرت نے افسردگی سے کہا۔ آپ جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں نا یہ منافقت بند کریں ۔ جو بندہ غیر جانبداری سے سوچ نہیں سکتا ۔وہ انصاف کیا خاک کرئے گا۔ آپ کی امی نے جو کہا وہ ٹھیک اور جو میں کہہ رہی ہوں ،وہ آپ سن ہی نہیں رہے۔ آفاق اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ یہ منافق کس کو کہا ہے ۔ تمیز نہیں ہے تمہیں بات کرنے کی نصرت بھی کھڑی ہو گئی۔اس نے غصے سے کہا ، میں بھی یہی بات کہہ سکتی ہوں ۔ جو آپ کہہ رہےہیں ۔ آفاق نے چیخ کر کہا۔ کیا کہو گی تم ۔
نصرت نے تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ یہی کہ تمیز ہونی چاہیے بات کرنے کی۔ آفاق نے ایک ذور دار طمانچہ اس کے منہ پر مارا ،اتنی تمیز کافی ہے یا اور چاہیے۔ اس نے چیخ کر کہا۔ نصرت حیرت کا مجسمہ بنی کھڑی رہی ۔ وہ امید نہیں کر رہی تھی کہ آفاق ایسا بھی کچھ کر سکتا ہے۔ تھوڑی دیر وہ اسے گھورتا رہا جیسے انتظار کر رہا ہو کہ وہ مذید بولے تو وہ اس کی دھلائی کرئے ۔ نصرت مگر حیرت اور افسوس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ آفاق کمرے سے جا چکا تھا۔ نصرت کافی دیر تک وہاں کھڑی رہی پھر وہیں بیٹھ گئی۔
نصرت کو شدید حیرت او ر افسوس تھا ۔ وہ پہلی دفعہ اپنے حق میں لڑنے کی بجائے رو رہی تھی۔ آفاق جب کمرے میں آیا تو اس کی انکھیں سوجھی ہوئی ، اور دماغ سویا ہوا تھا۔ آفاق نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ وہ میں ذرا غصے میں تھا۔ دیکھو کبھی کبھی بہت مساہل ہوتے ہیں ۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں ۔ عورتوں اور مردوں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ ہمیں ہزار مسلوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک دن میں دس لوگوں سے منہ ماری کرنا پڑتی ہے۔ عورت ہونے کے جہاں کچھ نقصان ہیں وہاں بہت سےفائدے بھی ہیں ۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ کوئی زمہ داری ہی نہیں ۔
نصرت کو اپنے سوئے ہوئے دماغ پر الفاظ کے چھینٹوں نے بیداری کا احساس دیا ۔ وہ فوراً سے بولی ہاں عورت کی تو کوئی بھی زمہ داری نہیں ۔ مرد نے زمہ داری لینے کے ساتھ ساتھ عورت کی آزادی بھی تو لے لی ہے۔ آفاق مسکرانے لگا۔ اچھا تو میں نے تمہیں قید کیا ہوا ہے۔ نصرت نےغصے سے کہا۔ میری مجال میں آپ کو کچھ بتاوں ۔ بتانا اور پوچھا تو ماں کا حق ہوتا ہے صرف۔ آفاق نے پھر مسکرانے کی کوشش کی ۔ میری امی سے تمہاری لڑائی ہوئی ہے۔ نصرت نے ایک غصے بھری نظر آفاق پر ڈالی مگر اس کی ڈھیٹ مسکراتی صورت سے ہار مانتی ہوئی خاموش ہو گئی۔
کبھی کبھی خاموشیاں آتش فشاں مادے کو اندر ہی اندربڑھاتی ہیں ۔ ایک لاوہ پنپتا رہتا ہے ، جبکہ ظاہری حالات سے پتہ بھی نہیں چلتا کہ کوئی مسلہ بھی ہے۔آفاق نے معافی مانگ کر پیار بھرے جملوں سے اپنے کیے پر مٹی ڈال دی۔ نصرت نے بھی اسے معاف کر دیا۔ اس نے محسوس کیا کہ عورت کی یہ صفت رب کی خاص دین ہے ۔ وہ معاف کرنے کا لامحدود جذبہ رکھتی ہے۔وہ جب کبھی تنہا ہوتی تو سوچتی ،عزت کی خواہش کرنا۔ صرف مردوں کا حق ہے۔ اگر رب نے عورت کو فقط مرد کی تنہائی دور کرنے کے لیے بنایا تھا تو اسے کیوں دماغ اور تخلیقی صلاحتوں سے نوازا ۔ کبھی کبھی اس کی سوچ مذہب سے بھی انحراف کر جاتی۔ مگر پھر وہ کھینچ کر اسے واپس لاتی کہ نا انصافی رب کی پیدا کی گئی نہیں ہے بلکہ معاشرے کی دین ہے جو صدیوں سے ہندو معاشرےکے ساتھ مدغم رہنے کی وجہ سے اپنی شناخت بھی کھو گیاہے۔ ہم اسلامی قوانین کو نہیں بلکہ قوت کے قانون کی پیروی کر رہے ہیں ۔ جس میں شیر ہرن کو چیرتا پھاڑتا ہے اور جنگل کا راجہ ہوتا ہے۔ہمارے گھر بھی ایسے ہی ہیں ۔ جہاں ہر طاقت ور کمزور کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ مرد عورت پر حکم چلاتا ہے تو عورت اپنے ننھے بچوں کو تحقیر کا نشانہ بناتی ہے ۔ہر کوئی کمزور کو دبے لفظوں میں دبے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ساس اور بہو کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔کوئی بھی تبدیلی کے لیے کوشاں نہیں ۔وہ سوچوں کے گہرے سمندر میں کھو سی جاتی۔
ایک دفعہ جب اس کی اپنے بڑے بھائی سے لڑائی ہوئی تو اسے اس کی امی نے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ بیٹا بھائی بڑا ہے اگر وہ غلط بھی کہہ رہا ہے تو تم اس پر آواز اونچی نہیں کر سکتی۔ اگر وہ تم پر غصے میں ہاتھ اُٹھا بھی جائے تو تم اپنے ہاتھ کو نہیں اُٹھا سکتی ۔ نصرت نے غصے سے کہا ۔کیوں میرے ہاتھ نہیں ہیں۔ امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ مرد ہے ذیادہ طاقت ور ہے ۔ تم چاہ کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ نصرت نے چیخ کر کہا پھر گلی کے کتے اور اس مرد میں کیا فرق ہےجس سے ڈر کی وجہ سے کوئی عورت راستہ بدل لیتی ہے، درست بات کرنا میرا حق ہے۔ قوت کے ذور پر غلط کو درست ثابت کرنے والے مرد نہیں نا مرد ہوتے ہیں ۔ میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔اسے اپنی ہی آواز کی گونج اپنے پورے وجود میں پھیلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔دھیرے دھیرے سماعت سے ٹکراتی ہوئی امی کی آواز بیٹا جس کے پہلو میں چل کر عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے ،وہ مرد ہی ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی اس کی طرف انکھ اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا ،وہ مرد ہی ہوتا ہے۔ جو اسے گھر کی ٹھندی چھت دے کر خود دھوپ میں جگہ جگہ کی خاک چھانتا ہے،تاکہ کہ بیوی بچوں کو کوئی تکلیف نہ ہو ، وہ مرد ہی ہوتا ہے۔ مجھے پتہ ہے ،تم کبھی نہ کبھی یہ بات ضرور سمجھو گی کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں ۔ رشتے ناطے ہر کوئی اپنی اپنی عقل کے حساب سے چلانا چاہتا ہے ، لڑائیاں جھگڑے تو ہوتے ہیں ،مگر میاں ،بیوی الگ نہیں ہوتے بیٹا ۔ تم یہ بات نہیں سمجھ سکتی ، نصرت ۔ کچھ باتیں سمجھائی یا سکھائی نہیں جاتیں بلکہ محسوس کی جاتی ہیں ۔
وہ جانتی تھی کہ وہ کیا محسوس کر رہی تھی۔ جو وہ محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آفاق کی محبت ۔ اس کی خوشی ۔ وہ خود نہیں جانتی تھی کہ کچھ ہی ماہ کی شادی میں آفاق کیوں اس کے لیے اہم ہو گیا تھا۔ کیوں وہ اس کے منانے پر فوراً سے مان جاتی ۔ اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اس سے نفرت کرتی ہے یا محبت ۔ کبھی کبھی اسے لگتا کہ وہ ایسی عورتوں کی صف میں جا کر کھڑی ہو گئی ہے جن کو وہ کوستی تھی ۔ جن سے متعلق اس کا کہنا تھا کہ وہ ڈرپوک ہیں ۔ مفت کے ٹکڑے کھانے کی ایسی لت لگی ہے کہ کیسی بھی بےعزتی کروانے کو تیار ہیں ۔ شوہر کی نام نہاد ناز برداری میں وہ بھول چکی ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں ۔ اشرف المخلوقات ۔ اچانک دل میں پیدا ہونے والی افسردگی اس کی آفاق سے نئی لڑائی کا پیش خیمہ بنتی۔
آفاق کے بدلتے انداز اس کے لیے شدید کرب کا باعث تھے مگر وہ اپنے بھائیوں کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی ۔ جو پہلے ہی طنز کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے تھے۔ وہ انہیں کیا بتاتی کہ وہ بطور عورت ، ہار گئی۔ ایک ننھا سا وجود اس کے اندر پروان چڑھ رہا تھا۔ شروع شروع میں اسے آفاق کی سمجھ ہی نہیں آئی ۔ جب اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے قول و فعل میں تضاد کا حامل ہے تب تک ، وہ نصرت نہیں رہی تھی۔ بلکہ ایک ننھے سے وجود کی زمہ دار تھی ۔ اس نے بہت سوچا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ اپنے بچے کو صدا کی محرومیاں نہیں دے گی۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی ۔ ہمارے معاشرے کی جیت شاہد عورت کی ہار میں ہے۔ اگر وہ اپنے سسرال اور شوہر کی ذیادتیوں کا بدلہ لینے پر اُتر آئے تو اس کے بچے کو اس کی قیمت دینا ہو گی۔
وقت گزر رہا تھا۔ اس کے اندر آفاق کے لیے منفی جذبات بڑھتے جا رہے تھے۔ اس میں فقط ایک ہی خرابی تھی ، وہ اسے اپنے سے کم تر سمجھتا تھا۔ ایک دفعہ جب وہ یونہی باتیں کر رہے تھے تو نصرت نے آفاق سے کہا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کے مرد عورت کو خود سے کم تر سمجھتا کیوں ہے۔ جبکہ بلندی اور عزت کا معیار طاقت ہر گرز نہیں ۔ وہ مسکرایا اور بولا۔جہاں آزادی ہوتی ہے وہاں زمہ داری ہوتی ہے۔ جہاں زمہ داری ہوتی ہے وہاں اسے نبھانے کے لیے قوت اور عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ عورت عقل سےنہیں جذبات سے سوچتی ہے ۔عورت اور مرد ایک مختلف قسم کی زندگی گزارتے ہیں ۔ کم تر کوئی بھی نہیں ۔ضابطے دونوں کےلیے مختلف ہیں۔ بس اسی لیے ۔ تم کیا چاہتی ہو کہ عورت اور مرد شانہ بشانہ چلیں ۔ ایک دوسرے کو کندھے مارتے ہوئے۔ کون پسند کرئے گا کہ اس کی ماں ، بہن ، بیوی کے ساتھ کسی کا کندھا ملے ۔ کم سے کم میں تو وہ بے غیرت نہیں ہو ۔نصرت سے نہیں رہا گیا۔ اس نے کہا تو پھر یہ این ۔ جی ۔ او کا ڈھونگ کیوں رچا رکھا ہے ۔ جب سب مردوں کی سوچ ایک ہی سی ہے تو پھر یہ ظاہری منافقت کیوں۔ آفاق نے سرخ ہوتے ہوئے کہا۔ میں تمہیں عقلمند سمجھتا تھا مگر دنیا کی بے وقوف ترین عورت ہو تم ۔
میں عورت کی عزت کے حق میں ہو ں ۔ اسے مکمل انسان کی سی عزت دیتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ معاشرے میں عورت کا استحصال نہ ہو ۔ نصرت نے دھکتے ہوئے انداز میں کہا استحصال ۔ آپ کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی ۔ آپ کبھی بھی مجھے خود سا نہیں سمجھتے۔ آفاق نے غصے سے چیخ کر کہا۔ عورت مرد جیسی نہیں ہوتی ۔ گھر برابری کی بنیاد پر نہیں چلتے۔ اگر میں تمہیں غصے میں آ کرایک تھپڑ مار جاوں تو کیا تم بھی مجھے مارو گی۔ نصرت نے حیرت سے آفاق کو دیکھا۔ آفاق نے اپنی بات اسے لہجے میں جاری رکھی ۔ اگر میں اور تم ایک سے ہوتے تو یہ بچہ میرے پیٹ میں ہوتا تمہارے نہیں۔وہ غصے سے پھنکارتا ہوا وہا ں سے چل دیا۔
نصرت نے اپنے وجود کا جائزہ لیتے ہوئے سوچا۔تخلیق کی صلاحیت ہونا تو فخر سے منسوب ہونا چاہیے۔ کمزور کی قابلیت بھی اس کا جرم بن جاتی ہے۔ جرم ضیفی کی سزا ہے مرگ مفاجات ۔ اس کی سوچیں اسے رولا رہی تھی۔ وہ کمرے میں گئی اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ فون کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ اس نے دیکھا فون این ۔ جی ۔ او سے تھا۔ اس نے نئے چھپنے والے رسالہ کا مواد میل نہیں کیا تھا۔ وہ اُٹھی اور رسالہ کے مواد کو دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق سمندر کے کنارے اداسی سے بیٹھا لہروں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے نصرت کی باتوں پر ابھی تک غصہ تھا ، اس کا گھر جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ اچھی خاصی سمجھدار لگی تھی مجھے۔ کیسی بے تکی سوچیں ہیں اس کی۔ پتہ نہیں اس عورت کے دماغ میں چلتاکیا ہے۔ یہ تو دنیا کا کوئی مرد بھی نہیں سمجھ سکتا میں کیا خاک سمجھو گا ۔ بیٹھے بیٹھائے دورے پڑتے ہیں اس عورت کو۔ اپنا اور میرا دونوں کا دماغ خراب کرتی ہے۔ آفاق نے گہری گہری سانسیں لیں ۔کچھ دیر بعد اس نے خود کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ماں بننے کا مرحلہ بھی تو عورت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ میں بھی شاہد اسے ٹھیک سے ٹائم نہیں دے پاتا تو وہ چڑ چڑی ہو گئی ہے شاہد۔ ہم دونوں ہی شاہد ایک دوسرے کی توقعات پر پورے نہیں اُتر رہے ۔ اندھرا چھا رہا تھا ،اس نے گھر جانے کے لیے گاڑی سٹارٹ کی ہی تھی کہ ایک چھوٹا لڑکا موتیے کے ہار اور کلائیوں کے گجرے لیے نمودار ہوا۔ اس نے گاڑی کے سٹارٹ ہونے سے پہلے ہی اپنی زبان کو سٹارٹ کر دیا۔ صاحب کجرے لے جاو ۔ اللہ دل کی مراد سن لے گا۔ صبح سے کچھ کھایا نہیں ۔صاحب غریب کی دعا لے لو۔ بھلا ہو جائے گا۔ صاحب کچھ نہیں جائے گا۔ صاحب بیگم خوش ہو جائے گی۔آفاق نے بیگم کا نام سنا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔ اس نے ہنس کر کہا۔ کتنے کےہیں گجرے۔ لڑکے نے مسکراہٹ دیکھ کر قیمت بڑھا دی صاحب تیس کاایک ۔ آفاق نے ہنس کر کہا ابھی تو بیس کا بول رہے تھے ۔ لڑکے نے کہا۔ وہ تو مالا ہے صاحب ، آپ کے کام کی نہیں ۔ آفاق نے دو گجرے لے لیے۔ آفاق دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کیسے فنکار ہوتے ہیں یہ بچے ۔ کیسے دوسرے بندے کا چہرہ پڑھ کر اپنا طریقہ بدلتے ہیں ۔ اس کا موڈ خوشگوار ہو گیاتھا۔
دوسری طرف نصرت ابھی بھی کمرے کے گھٹے ہوئے ماحول میں خود کو کوس رہی تھی۔ ماتم جاری تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ سوچوں کا دھارا بھی اسی طرح چل رہا تھا۔ جیسے آفاق چھوڑ کر گیا تھا۔
اصل زندگی اور خوابوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ انسان جو کرنا چاہتا ہے اور جو وہ کرتا ہے کس قدر مختلف ہوتے ہیں ۔ اس کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ وہ عام عورتوں کی طرح کیوں نہیں ۔ وہ کیوں نہیں تسلیم کر لیتی غلامی کو ۔اپنی سوچیں عیش بھری زندگی کے عوض سونپ کیوں نہیں سکتی ۔ ہر عورت یہی تو کرتی ہے۔ ایک امید پر مکمل جیون جی کر مر جاتی ہے ۔ نہ کوئی گھر اس کا نہ کوئی در اس کا۔ ساری زندگی دوسروں کی عزت سنبھالتے سنبھالتے اپنی عزت کو گہری قبر میں دفن کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفہ نے غصے سے سغرہ سے کہا۔ تمہاری بیٹی کا حساب کر دیا ہے میں نے۔ یہ رکھنے کے قابل نہیں ۔ اسے لے جاو۔ سغرہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ باجی اس نے کیا کیا ہے۔ عارفہ نے غصے سے کہا۔ یہ تم اسی سے پوچھنا۔ مجھے تو حیرت ہو رہی ہے ۔ کوئی لڑکی وہ بھی دس سال کی ایسی حرکت کر سکتی ہے۔ میں نے ایسی واہیات حالت میں اسے دیکھا ہے کہ بیان نہیں کر سکتی ۔ سغرہ نے وہیں اسے پیٹنا شروع کر دیا۔ عارفہ نے غصے سے کہا۔ یہ ڈرامہ اپنے گھر جا کر کرو ۔ میرے بچوں کے ساتھ میں اسے اب نہیں رکھ سکتی ۔ پتہ نہیں کیا کیاسکھاتی رہی ہے۔ میرے اللہ ۔ میرا تو دماغ سوچ سوچ کر کڑتا ہے ۔ میں نے کتنی بڑی غلطی کر دی۔
وہ جا چکی تھیں، عارفہ سر پکڑ کر بیٹھی تھی ۔ وہ پریشان تھی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج کل کے بچے اس قدر زہین ہیں کہ کچھ بھولتے نہیں ۔ وہ کیسے ابو بکر کو سمجھائے گی۔میں نے اپنی آسانی کے لیے کاش اسے نہ رکھا ہوتا ۔ ابو بکر نے اگر اپنے پاپا سے اس سب کا ذکر کر دیا تو کیا ہو گا۔ مجھے خود ہی انہیں اس بارے میں بتانا ہو گا۔ ایسی بات مگر بتاتے ہوئے بھی شرم آ تی ہے ۔ مجھے اتنا غصہ آ یا ہے تو انہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سوچوں میں گم تھی کہ ابو بکر نے اسے چونکا دیا ۔ مما آپ کیا سوچ رہی ہیں ۔ عارفہ نے افسردگی سے کہا ،کچھ نہیں ۔ ابو بکر نے فورا ہی دوسرا سوال کر دیا ۔ مما رمشہ آپی کہا ں گئی۔ عارفہ نے اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے کہا۔ بیٹا مما نے انہیں کام سے نکال دیا۔ ابوبکر نے معصومیت سے کہا۔ کیوں ،وہ ہمارے ساتھ کھیلتی تھیں نا۔ عارفہ کی انکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے افسردگی سے کہا۔ بیٹا بے حیائی کھیل نہیں ہوتا۔اس نے ابو بکر کو پیار سے قریب کرتے ہوئے ،اچھائی اور بُرائی ،بے حیائی اور شرم سے متعلق ایک لمبا لیکچر دیا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ کیا سمجھ سکنے اور کیا نہ سمجھ سکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جب اس کو دلی تسکین ہو گئی تو اس نے بولنا چھوڑا ۔ ابو بکر بھی تھکا تھکا لگ رہا تھا ۔ وہ جب کوئی بات کرنے کی درمیان میں کوشش کرتا تو عارفہ اسے یہ کہہ کر خاموش کروا دیتی ۔ ابھی نہیں مما آپ کی بعد میں سنئں گی ۔ وہ وقت مگر آیا ہی نہیں ۔ دونوں تھکے تھکے بستر کی طرف چل پڑے۔

 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281041 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More