موجودہ دور کی سیاست سرمایہ داروں کے بغیر ناممکن

پاکستان کی طرح دنیا بھر میں جہاں جہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے وہاں مختلف آئینی مدتوں میں انتخابات کا انعقاد یقینی ہوتا ہے لیکن جہاں صدارتی نظام حکومت ہے وہاں بھی ملکی سیاسی امور کی انجام دہی کے لئے صدر سمیت اہل افراد کے انتخاب کا مسئلہ ضرور پیش آتا ہے وطن عزیز کے موجودہ انتخابات میں امیدواروں کی جانب سے بھاری بھرکم اخراجات کرنے پر اعتراض تو کیا جارہا ہے لیکن کیا گزشتہ ستر سال سے منعقدہونے والے انتخابات میں ایسا نہیں ہوتا رہا ؟ 1970کے انتخابات سے 2018کومنعقد ہونے والے انتخابات تک ،اورچاہے ایوب خان کے دور کے بلدیاتی انتخابات کا جائزہ لے لیں اُس وقت بھی مختلف حلقوں میں سیاست دانوں(جاگیرداروں) کی ملکیت وہاں کے رہنے والے لوگ نظرآتے تھے پیسا اور چودھراہٹ کے بل بوتے پر الیکشن لڑا اور جیتا جاتا تھا نظریاتی اورپاکستان کے قیام کے لئے اپنی جان اور مال کی قربانیاں دینے والے ملکی سیاست میں آخری صفوں پر نظر آتے تھے ایوب خان کو صدر بنانے کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کی دست راست چھوٹی بہن مادر ملت کا خطاب پانے والی محترمہ فاطمہ جناح کی جیت کو ہار میں بدلنے میں کیا اُس وقت کے حکمران ایوب خان کے ساتھی سیاستدانوں (جاگیرداروں) کا ہاتھ نہ تھا؟پھرایسا بھی ہواکہ پاکستان کے قیام میں پیش پیش واحد سیاسی جماعت مسلم لیگ کو سیاست میں سرگرم سیاست دان جاگیرداروں نے اپنے اپنے ناموں سے تقسیم کرنا شروع کیا1962کے بعد مسلم لیگ کے ساتھ مختلف لاحقے لگا کر سیاسی جماعتیں بننے لگیں جو سلسلہ تاحال جاری ہے اگر تیس سال کی ملکی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جنرل ضیا الحق کے بعد 1988میں مسلم لیگ (ن) وجود میں آئی جوگزشتہ تیس سال سے اپنی پہچان قائم رکھے ہوئے ہے 1988 اُس دور کا آغاز تھاجب سیاست میں شامل جاگیرداروں کی مسلم لیگ سرمایہ دارسیاستدانوں کی بننے لگی گزشتہ آٹھ انتخابات میں ملکی سیاست میں حصہ لینے کے لئے سرمایہ دار ہونا ضروری قرار پا تا چلا گیا ایک نظریاتی ورکر کی حثیت جماعتوں کے رہنماؤں کی نظر میں بس اتنی ہے کہ جب وہ اقتدار سے الگ کئے جائیں تو نظریاتی ورکر احتجاج ،اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے اپنا آپ پیش کریں، کتنی جماعتیں ہیں جو اپنے ورکروں کو انتخابات میں اپنا امیدوار بناتی ہیں زیادہ تر ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیئے جاتے ہیں جو سرمایہ وافر مقدار میں لُٹا سکیں ،سانچ کے قارئین کرام !آپ میری اس بات سے تو کچھ کچھ متفق ضرور ہونگے کہ وطن عزیز میں منعقدہ 1988اور1990کے انتخابات میں سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہی واحد جماعت نظر آتی ہے جس نے اپنے سیاسی ورکروں کو نا صرف ٹکٹ دیئے بلکہ کامیاب کروا کے اسمبلیوں تک پہنچایا بعد ازاں منعقد ہونے والے انتخابات میں بھی یہ جماعت کافی حد تک اپنے کارکنوں کو نوازتی نظر آتی ہے کالم کا موضوع تو انتخابات میں سرمائے کا بے دریغ استعمال تھا بات کدھر اور جارہی ہے 2018کے انتخابات تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہونگے جس میں الیکشن کمیشن اور حکومت پاکستان کا تقریباََ بیس ارب لگے گا اگر اس میں مختلف جماعتوں کے امیدواروں اور آزاد امیدواروں کے اخراجات شامل کر لئے جائیں تو بات کھربوں تک پہنچ جائے گی جی ہاں ہمارے رہنما اور عوامی نمائندے وہ ہونگے جو کروڑوں خرچ کریں گے ۔۔۔پاکستانی عوام کی نفسیات بھی کچھ ایسی بن چکی ہے کہ محب وطن پڑھے لکھے متوسط طبقے کے کسی فرد کے مقابلے میں لینڈ کروزر ،ہیلی کاپٹر میں کمپین چلانے والا اورواجبی تعلیم رکھنے والا انہیں اپنا حقیقی نمائندہ نظر آتا ہے اب تو یہ سننے دیکھنے میں آتا ہے بھائی جی بتاؤ زرا یہ سیدھا سادھا بندہ کیسے ووٹ کا حق دار ہو سکتا ہے جوالیکشنوں کے دنوں میں کسی کو دو وقت اپنے کیمپ میں کھانا نہیں کھلا سکتا ہمارا نمائندہ تو وہ ہو گا جو ہم پر خرچ کرے ۔۔۔چاہے خود کیسے بھی کمائے ،قارئین کرام ! بتائیں بھلا پھر کیوں نا اقتدار کے لئے سیا سی جماعتیں الیکٹیبلز ڈھونڈیں،معذرت کے ساتھ الیکٹیبلز کی میرے نزدیک تعریف یہ ہے کہ جوشخص سالہا سال سے نسل در نسل دولت کے اکھٹے کئے انبار میں سے انتخابات میں کچھ حصہ خرچ کر کے جیت جائے اوراقتدار میں آکر پھر سے دولت اکھٹی کرنے میں لگ جائے تاکہ آئندہ پھراُسکا سرمایہ اُسکی سیاست کے کام آسکے، ہمیں مخلص ،بے لوث ،پڑھے لکھے ،ملکی اداروں کو مضبوط کر کے دنیا میں وطن عزیز کو اعلی مقام دینے والے نہیں بلکہ اقتدار کے رسیا ملک میں چلتی سیاسی فضا دیکھ کر جماعتیں بدلنے والے سیاست دان ہی پسند ہیں کیا ایسا نہیں ہے ؟؟؟ورنہ جماعتیں بدل بدل کے آپکا ووٹ حاصل کر جانے والے ایسا کرتے جیسا گزشتہ ستربرس سے عمومی طور پر اور تیس برس سے خصوصی طور ملکی سیاست میں ہو رہا ہے ہم ووٹ دیتے ہوئے کسی بھی جماعت کے لیڈر /امیدوارکی ظاہری طاقت دولت دیکھتے ہیں چاہے ٹکٹ ہولڈرامیدوار نے کتنی بھی پارٹیاں بدل رکھی ہوں سانچ کے قارئین کرام ! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ سرمایہ دارآجکل کی سیاست میں کس حد تک اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں بنیادی سہولتوں سے محروم بڑھتی ہوئی آبادی ہر انتخاب میں ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اہمیت اور ووٹ دیتی آئی ہے جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت کے پہلے سات ،آٹھ سال کو دیکھیں تو معاشی ترقی کی رفتار بھی پہلے سے بہتر ہوئی اور پاکستانی عوام نے انکے اقدامات کو بھی سراہا پھراُنکا آخری دور دیکھ لیں انکی حکومت کے خلاف بھر پور تحریک شروع ہوئی اُنکے دور حکومت کے ساتھی علیحدہ ہوتے چلے گئے اور آخر کار انھیں اقتدار جنرل محمد یحیی خان کے سپرد کرنا پڑا ابھی تک یہ ہی کہا جاتا ہے کہ 1970کے انتخابات تاریخ کے سب سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھے لیکن اِن انتخابات کے بعدوطن عزیز کا ایک بازو ہم سے الگ ہو گیا جسے مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا افسوس یہ کیسے منصفانہ انتخابات تھے کہ جن کے نتیجے میں میرے وطن کے ایک حصے کو ہمیشہ کے لئے ہم سے الگ ہونا پڑا اِس پر تاریخ دانوں ،تجزیہ کاروں نے بہت کچھ لکھا مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا بات ہورہی تھی سرمایہ دار کی سیاست میں موجودگی اور مسلسل کامیابیوں کی اچھی بات تو تب ہے جب میرے سیاسی سرمایہ دار رہنما ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لئے دیرپا اور قابل عمل منصوبے بنا کر اُنھیں حقیقت کا روپ دے سکیں ۔سال 2018کے جنرل الیکشن میں پہلی بار میڈیا بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی سپورٹ میں تقسیم نظر آتا ہے تجزیہ کار ،اینکرز اور الیکٹرانک میڈیا پر کوریج کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اَب نہیں کہ سکتا کہ بڑے بڑے میڈیا کے ادارے کیا سوچ اور کیا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ بعض چینلز پر تو برملا اِسکا اظہار کرنے والوں کی بھی کمی دیکھنے کو نہیں ملتی علاقائی سطح پر صحافی برادری بھی مختلف جماعتوں کو سپورٹ کرتی اور فلیکس پراپنی تصاویر کے ساتھ سیاست دانوں کی تصاویر لگاتی نظر آتی ہے اور سوشل میڈیا اِ س سے دو ہاتھ آگے اخلاقی حدود کو پار کرتے ہوئے کسی کو پٹواری ،کسی کو یوتھیا ،کسی کو ڈیزل اور نجانے کیا کیا کہتے جارہے ہیں اوراپنی پارٹی کے رہنماکو بے داغ ثابت کرنے اور دوسرے کوچورلُٹیرا ثابت کرنے کے لئے گالم گلوچ تک تبصروں میں کرتے پائے جاتے ہیں ٭٭٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.