سرینگر کے مزار شہدا ء پر ہر سال اس دن نیشنل
کانفرنس، پی ڈی پی سمیت وادی کے تمام سیاستدان حاضری دیتے ہیں۔ یہ سب عوام
کو دھوکہ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ شہداء یا ان کے مشن کا احترام ہوتا تو
بھارت کے قبضے کو مضبوط کرنے کے بجائے آزادی کے لئے کردار ادا کیا جاتا ۔
لیکن یہ اقتدار کے بھوک ہے۔ مگر مچھ کے آنسو بہانا ان کا روز مرہ کا معمول
ہے۔ گزشتہ 8 دہائیوں سے کشمیری 13جولائی کویوم شہداء کشمیر کے طور پر مناتے
ہیں اور آزادی کے لئے اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ آزادی کے حصول
تک اپنی جد وجہد کو جاری رکھیں گے ۔اس دن یہ عہد بھی کیا جاتا ہے کہ
13جولائی 1931ء کے شہداء کی قربانیوں کے ساتھ کوئی سودا بازی نہیں ہوگی اور
نہ ہی کسی کو شہداء کے قبرستانوں پراقتدار کے محلات تعمیرکرنے کی اجازت دی
جائے گی ۔اس آزادی کے لئے اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں ۔ہزراوں کو
معذور بنادیاگیا۔1931 ء سے لاکھوں کشمیری مہاجرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔لاتعداد
کشمیری پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں بیابانوں میں بے گوروکفن دفن ہوگئے ۔لاتعداد
اپنے گھروں سے دور کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں ۔ 13جولائی کو ہر
برس جموں وکشمیرکی خونی لکیر کے دونوں اطراف تقاریب کا انعقاد کیاجاتاہے ،ریلیاں
اور جلوس نکالے جاتے ہیں ۔آزادی کے حق میں مظاہرے کئے جاتے ہیں۔اور شہداء
کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیاجاتا ہے ۔
سانحہ جلیانوالہ باغ کے 12سال بعد13 جولائی 1931 ء کو سرینگر میں ڈوگرہ
فورسزنے 22 کشمیریوں کو اندھا دھندفائرنگ کرکے بے دردی سے شہید کردیا
تھا۔کشمیریوں کے قتل عام کا یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب جموں وکشمیر میں
ڈوگروں کے مظالم میں اضافہ ہوگیا۔مسلمانوں کے خلاف مظالم کے پے در پے
واقعات رونما ہونے لگے۔23 اپریل 1931ء کو مسلمان عید الاضحی منارہے تھے
۔جموں کے میونسپل باغ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نمازعید ادا کرنے کے لئے
جمع تھی مفتی محمد اسحاق خطبہ دے رہے ہے ۔وہ اسلامی تاریخ کے حوالے دے رہے
ہیں جب ہندوپولیس انسپکٹر کھیم چند نے خطبہ عید فوری طور پر بند کرنے کا
حکم سنایا۔یہ ایک بار پھر مدا خلت فی الدین تھی۔جس پر مسلمانوں میں شدید غم
وغصہ پھیل گیا اور وہ مذکورہ پولیس افسر کے خلاف کا رروائی کا مطالبہ کرنے
لگے۔ڈوگرہ حکمرانوں نے مسلمانوں کے احتجاج اور مطالبے پر کوئی توجہ نہ دی
بلکہ پر امن مظاہرین کو گرفتار کرلیا،اس دوران جموں کے سانبہ علاقے میں
مسلمانوں کو پانی کے چشمے پر جانے سے روک دیاگیا۔اور 4 جون کو ایک مسلمان
قیدی فضل داد کو پولیس اہلکار لامبارام نے قرآن کی تلاوت سے روک دیااور
قرآن پاک کی بے حرمتی کی ۔جس کے خلاف جموں وکشمیر میں ہڑتال کی گئی ۔جموں
کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے 25 جون کو وادی کشمیر میں شدید
مظاہرے ہوئے ۔مسلمانوں کی بڑی تعداد سرینگر کی خانقاہ معلےٰ کے باہر جمع
ہوئی۔جس میں مورخین کے مطابق 60ہزار مسلمان شریک ہوئے ۔جلسے کی آزاد کشمیر
کے سابق صدر مولانا میرواعظ یوسف شاہ نے صدارت کی ۔جبکہ چوہدری غلام عباس
،سردار گوہررحمان ،شیخ عبدالحمید ،خواجہ غلام نبی گلقار ،خواجہ غلام نبی
عشائی ،آغا حسین شاہ جلالی ،مولانا عبدالرحیم ،مفتی جلال الدین وغیرہ نے
خطاب کیا ۔اسی دوران ایک نوجوان سٹیج پر آیا اور خطاب شروع کردیا۔اس نوجوان
کا تعلق کسی نے پنجاب اورکسی نے اترپردیش اور کسی نے پشاور سے جوڑا ہے
۔تاہم سب کو اس کے نام پر اتفاق ہے ۔عبدالقدیر نامی اس نوجوان نے اپنے خطاب
میں جذباتی انداز میں کہا ’’ مسلمانو!جلسے جلوس سے کچھ بھی نہ
ہوگا۔مسلمانوں پر مظالم بند نہیں ہونگے ۔اب عمل کا وقت آگیا ہے ۔ہم قرآن
پاک کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتے ‘‘۔ نوجوان نے ڈوگرہ شاہی محل کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ اٹھو اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔:: اس تقریر نے
لوگوں میں جوش وجذبہ پیدا کردیااور لوگ اٹھ کھڑ ے ہوئے اور شاہی محل کی طرف
دوڑنے لگے ۔تاہم کسی مورخ نے اس کے بعد کا واقعہ بیان نہیں کیا ۔اس دوران
ڈوگر ہ فورسز نے عبدالقدیر کوجھیل ڈل کی ایک ہاؤس بوٹ سے گرفتار کرلیا ۔اس
کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتاہے کہ وہ کسی انگریز سیاح کے ساتھ کشمیر آیا
تھا اور اس کے باورچی کی خدمات انجام دے رہا تھا ۔اس نوجوان کی گرفتار ی کے
چرچے دور دور تک ہونے لگے ۔اور جب عدالت نے اس کے خلاف کارروائی شروع کی تو
لوگوں کا ہجوم امڈآیا۔عبدالقدیر کامقدمہ ڈسڑکٹ جج کرشن لعل کچلو کی عدالت
میں سنا جارہا تھا ۔لوگ عبدالقدیر کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے ۔جج
نے گھبرا کر مقدمہ کی شنوائی عدالت کے بجائے سنٹرل جیل میں شروع کردی ۔12
جولائی کو عمائدین شہر کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ عبدالقدیر کے مقدمے
کوکھلی عدالت میں سناجائے ۔13 جولائی کو مقدمہ کی شنوائی سنٹرل جیل میں
شروع کردی گئی۔لوگوں کی بڑی تعداد جیل کے باہر جمع ہوگئی ۔لوگ نعرہ تکبیر
اﷲ اکبر اسلام زندہ باد ،عبدالقدیر زندہ باہ کے نعرہ لگانے لگے۔اس دوران
نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔مسلمانوں نے جیل کے باہر نماز ادا کرنے کیلئے اذان
دینے کا فیصلہ کیا،اذان دینے کے لئے ایک نوجوان اٹھا تو ڈوگرہ فورسز نے
اُسے گولی مار کرشہید کردیا۔اس طرح اذان مکمل کرنے تک 22نوجوانوں کو شہید
کردیاگیا۔
13 جولائی کشمیر کی تاریخ میں جدوجہد آزادی کے حوالے سے ایک سنگ میل کی
حیثیت رکھتا ہے ۔ اس واقعہ سے کشمیر یوں پر مظالم کا چرچادور دور تک ہونے
لگا ۔شیخ محمد عبداﷲ اپنی خودنوشت آتش چنار میں لکھتے ہیں کہ اس دن ایک
زخمی نے مجھے اپنے قریب بلایا اور کہا، ’’شیخ صاحب ہم نے اپنا فرض ادا
کردیااب آپ کی باری ہے‘‘، اور یہ الفاظ کہنے کے بعد ہی شہید ہو گیا،شیخ
محمد عبداﷲ نے کشمیر کی آزادی کے لئے تحریک چلائی ۔برسوں جیل بھی کاٹی لیکن
بالآخرنہروکی دوستی اور اقتدار کی لالچ میں کشمیریوں کی قربانیوں پر پانی
پھیردیا۔نیشنل کانفرنس کے ہمدرد اگر چہ شیخ صاحب کے احترام میں حقائق کو
تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں تاہم وہ آج اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ صاحب بھارت
کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرتے تو آج صور تحال مختلف ہوتی ۔ لمحوں نے خطا کی
،صدیوں نے سزا پائی ۔ کشمیری آج اپنی قیادت کی اناپرستی،مفادپسندی ،اقتدار
اور مراعات کے حرص کی سزا بھگت رہے ہیں ۔موجود ہ مسلح جدوجہد کے دوران بھی
بعض کشمیریوں نے یک طرفہ اور ذاتی مفادیااپنی پارٹی ،تنظیم یا ادارے کے
مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے ۔مشاورت سے کنارہ کشی کی ۔پارٹی بالادستی
کا سہارالیا۔تعداد، نفری اور وسائل کے نشے میں چور ہوئے ۔ڈیڑ ھ ڈیڑھ اینٹ
کی مساجد تعمیر کیں ۔جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اب بھی کفارہ ادا کرنے کا
وقت ہے ۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھاجاسکتاہے ۔اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگی
جانی چاہیے ۔شیخ عبداﷲ کے حشر کوسامنے رکھ کراپنی پالیسی پر ازسر نوغور
کرنا غلط نہ ہوگا ۔یوم شہداء کشمیر صرف تقاریر، جلسے جلوسوں،نعروں کانہیں
بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ،1931 ء سے اب تک لاکھوں کشمیریوں نے
قربانیاں پیش کی ہیں ،ان قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا تو کشمیری سوائے
رسوائی کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا
بہترین طریقہ یہی ہے کہ شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کیلئے اتحاد واتفاق کے
ساتھ خلوص ونیک نیتی سے مؤثر وبا مقصد عملی اقدامات کئے جائیں ۔ تحریک
آزادی کو منجمد کرنے یا آئندہ نسلوں پر چھوڑنے کے بجائے سیاسی، عسکری،
سفارتی اور میڈیا کے محاذوں پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے۔اور یکسوئی سے
تحریک سے وابستہ لوگ متحرک کردار ادا کریں۔جو لوگ مفادات اور مراعات حاصل
کرنیکے لئے یا اس کے بعدمختلف بہانوں سے منظرسے ہٹ گئے اور خود سائیڈ لائین
ہو گئے ، وہ زیادہ دیر تک دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں۔ انہیں حساب دینا ہو گا۔
’’ بیس کیمپ‘ کا کردار بھی متعین کرنا ہو گا۔ ’’ تم بھی اٹھو اہل وادی‘‘
پکارنے اور ترانے بجانے والوں کو بھی شائد جواب دینا ہو گا کہ وہ کیوں
خاموش ہو گئے اور اقتدار اور کرسی کے لئے شہداء کی قربانیوں کو کیوں بھلا
دیا گیا۔کشمیر کاز، شہدا، قربانیوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بلا شبہ
عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ہمارا ایمان ہے کہ 5لاکھ شہدا کی
قربانیاں کبھی رائیگان نہیں جائیں گی۔کشمیری ضرور آزادی حاصل کریں گے۔ |