خواتین کی سیاسی جدوجہد اور پارٹیوں کی ذمے داری

تحریر: مریم اقبال، کراچی
پاکستان میں خواتین کو سیاست کے لیے بہترین مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر خواتین کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئی اور ساتھ ہی تمام پارٹیوں کو پابندی بھی کیا گیا کہ وہ ان نشستوں پر خواتین کو لازمی طور پر ٹکٹ جاری کریں۔خواتین کے لیے سیاسیت میں راہیں ہموار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین اپنے حقوق کا بھر پور انداز میں دفاع کرسکیں۔

پاکستان کے قیام سے ہی خواتین کا سیاسیت میں اہم کردار رہا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے سیاسی میدان میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اپنے ساتھ دیگر خواتین کو بھی لے کر چلیں اور پاکستان کے قیام میں بھی مسلم لیگ کا حصہ رہیں۔پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دوسری قابل ذکر خاتون بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے سیاست میں نہ صرف وزارت کا عہدہ سنبھالا بلکہ جیل بھی گئیں اور بالآخر انہیں دنیا سے جانا پڑا تو صرف سیاسی جدوجہد کی وجہ سے۔

فہمیدہ مرزا بھی ایک سیاسی خاتون تھیں جن کا اس میدان میں بہت عمدہ کردار ادا کیا۔ فہمیدہ مرزا وہ پہلی خاتون تھیں جو قومی اسمبلی کی اسپیکر منتخب ہوئیں اور بھرپور انداز میں قیادت کی۔

اب اگر موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کی جائے تو نواز شریف کی نااہلی کے بعد اور بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے بعد مریم نواز پوری پارٹی کو سنبھال کرکھڑی ہیں۔ اس پر اگرچے ان کی پارٹی قیادت ناراض بھی ہوئی اور کوئی اہم رہنما پارٹی چھوڑ کر چلے گئے مگر آج بھی مریم نواز نہ صرف پارٹی کے جلسوں میں حصہ لے رہی ہیں بلکہ تقریریں کر کے وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ حتیٰ کہ ضمنی الیکشن میں مریم نواز نے لاہور میں خوب مہم چلائی تھی۔

فنگنشل لیگ کی نصرت سحر عباسی بھی کافی ایکٹو ہیں۔ ان کے سیاسی بیانات اور اپنے حقوق کے لیے تقریریں نہ صرف سندھ اسمبلی میں مشہور ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر ان کی تقریروں کے چرچے ہوتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف میں بھی خواتین کا کافی اثر رسوخ رہا ہے۔ عائشہ گلالئی بھی ایک خاتون ہیں مگر وہ نہ صرف سیاست میں کھڑی ہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک انداز سے میدان میں اترنے کا عزم رکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خواتین میں آج بھی شہلارضاجیسی کئی خواتین ہیں جو نہ صرف سیاسی میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں بلکہ وہ قیادت بھی کررہی ہیں۔ ایسی اور بھی بہت سی خواتین ہیں جو سیاسی میدان میں خوب حصہ لے رہی ہیں بلکہ وہ باقاعدہ طور پر مہم کا حصہ ہیں۔

ایک اہم بات یہ اس بار کے الیکشن میں سامنے آئی ہے کہ اس بار مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی خواتین کو باقاعدہ حصہ دیا گیا ہے۔ سب اہم بات یہ ہے کہ نئی وجود میں آنی والی پارٹی ملی مسلم لیگ نے بھی خواتین کو ٹکٹ جاری کیے جو کہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ جماعت حافظ محمد سعید کی ہے اور حافظ محمد سعید کی جماعت کو کبھی خواتین کو گھروں سے باہر نہیں نکالا گیا۔ آج تک کسی بھی احتجاج یا جلسے میں ان کی خواتین نہیں نکلیں مگر اس بار یہ لوگ بھی خواتین کو الیکشن میں حصہ دے رہے ہیں۔

جہاں تک ووٹر خواتین کی بات ہے تو اس حوالے سے خواتین کو ووٹ دینے سے روکنا کوئی عزت یا فخر کی بات نہیں۔ پاکستانی خواتین مسلح افواج میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور پولیس میں شمولیت اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب خواتین اپنے ہم وطنوں کے تحفظ اور اپنے وطن کی خدمت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا رہی ہیں۔ یہ عظیم قربانی اور خدمت ملک و ملت کے لیے فخر و انبساط کا باعث ہونی چاہیے اور ان چند گمراہ لوگوں کی وجہ سے ان کا رتبہ کم نہیں ہونا چاہیے جو سمجھتے ہیں کہ اپنی صنف کی وجہ سے وہ ووٹ دینے کی اہل نہیں۔اس روش کی روک تھام کے لیے اسے محض زبانی طور پر مسترد کرنا کافی نہیں ہو گا۔

ترقی کے نقطہ نظر سے خواتین کے ووٹ دینے پر پابندی لگانا اور انہیں مقامی فیصلہ سازی کے عمل میں فعال انداز میں حصہ لینے سے روکنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کے درجنوں ممالک کے تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ خواتین کو سیاست میں بامعنی شمولیت سے محروم کر کے ترقی کے مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی خواتین شہریوں کو مکمل طور پر برابر حیثیت دیے بغیر اپنی بھرپور استعداد کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔

خواتین بجا طور پر مقامی کمیونٹیز میں تبدیلی کے اہم ترین سفیر کا کردار کرتی ہیں۔ایسے میں خواتین کو ہرگز ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ البتہ کرنے کے کاموں میں یہ اہم ہے کہ خواتین کی سیاست میں انٹری کو محفوظ اور مستحکم بنایا جانا ضروری ہے۔ اگر خواتین اس میدان میں آتی ہیں تو انہیں روکنا نہیں بلکہ ان کی سیکورٹی کے حوالے سے اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہیں سہولیات فراہم کی جائیں اور انہیں مواقعے فراہم کیے جانے چاہئیں۔

یہ بات صرف اس حد تک نہیں بلکہ عموما بھی اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ خواتین بطور امیدوار کھڑی ہیں یا بطور ووٹر ان کی عزت و احترام کا خیال رکھنا اس معاشرے کے ہر فرد، پارٹی اور قیادت پر لازم ہے۔ میدان سیاست میں خواتین کا کردار اہم ہے اس اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں اس میدان میں کھلی چھوٹ دینی چاہیے۔ باقی سیکورٹی کسی بھی قسم کی ہو چاہیے وہ مردوں کی نظروں سے بچانے کی ہو یا پھر مردوں کی سوچ سے بچانے کی وہ خواتین پر بھی لازم ہے کہ اس کا اہتمام کریں اور پارٹی قائدین کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس کے لیے سخت اقدامات کریں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.