پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں
سے اگر آمریت کے بارے میں سوال کیا جائے تو جواب میں ایک دلچسپ بات سامنے
آئے گی کہ سیاسی جماعتوں کے نزدیک آمریت یا مارشل لا دراصل فوجی حکمرانی کا
نام نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک مارشل لا دراصل اس وقت کا نام ہے جب ان کی
پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا گیا یا ان کے مخالفین کے حامی جنرلز کی حکومت
کا نام مارشل لا ہے اور ان کے حامی جنرلز کی حکومت مارشل لا نہیں ہے۔ ہے نا
عجیب بات لیکن حقیقت یہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی تین دفعہ حکومت میں آچکی ہے اور اس وقت اس کا چوتھا
دور حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ کے مقابلے میں خو د کو جمہوری اقدار کی
امین گردانتی ہے اور مسلم لیگ کو آمریت کی پیداوار۔ جبکہ ان کے رہنما بھی
سارا زور آمریت کی مذمت میں ہی لگاتے ہیں اور ہمیشہ جمہوری اقدار کی باتیں
کرتے ہیں اور ان کو یہ شکایت ہے کہ ایک آمر ﴿جنرل ضیا الحق ﴾ نے ان کے
محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا اور میاں نواز شریف کو پروموٹ کیا۔
یہ بات درست بھی ہے اور یہی حقیقت بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی
حقیقت ہے کہ پی پی پی کے بانی چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی فوجی
جرنیلوں کے سہارے ہی سیاست بھی داخل ہوئے تھے اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے
دور میں انہوں نے عملی سیاست بھی حصہ لینا شروع کیا اور بہت جلد ان کی
کابینہ میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم وقت
کے آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کو ’’ڈیڈی ‘‘ کہتے تھے۔ ایک فیلڈ مارشل کو وہ
ڈیڈی کہتے تھے اور اس کے بعد آنے والے آمر جنرل یحیٰ خان کے ساتھ ان کی
دوستی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس وقت پاکستان دولخت ہورہا
تھا،مشرقی پاکستان ’’بنگلہ دیش‘‘ بن رہا تھا اور مشرقی پاکستان میں فسادات
رونما ہوہے تھے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جنرل یحیٰ خان لاڑکانہ
میں شکار کی دعوت دی تھی اور عینی شاہدین کے مطابق جس وقت ڈھاکہ جل رہا تھا
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم عین اسی وقت یحیٰ خان اور دیگر فوجی جرنیلوں کے
ساتھ شراب نوشی میں مشغول تھے۔ جنرل ضیا الحق کو بھی انہوں نے اپنے ہی
مقاصد کے لئے سینئر جنرلز کو نظر انداز کر کے چیف آف آرمی اسٹاف بنوایا تھا
جس کے پس پردہ ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ جونئیر ہے، ہمیشہ احسان مند رہے گا
اور ہمارے کام آئے گا۔ لیکن’’ تدبیر کند بندہ تقدیر زن خندہ ‘‘کے مصداق ان
کے ساتھ اس کے برعکس ہوا اور وہی ضیا الحق ان کے زوال کا باعث بن گئے۔ یاد
رہے کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے
ہی تخلیق کیا تھا اور خود کو ہی اس عہدے پر فائز کیا تھا۔ لیکن پی پی پی ان
سب باتوں کو فراموش کر کے صرف جنرل ضیا الحق کی آمریت کا رونا روتی ہے اور
نواز شریف و دیگر کو آمریت کی پیدا وار کہتی ہے۔
اسی طرح اگر مسلم لیگ ﴿ن ﴾ کے نزدیک مارشل جنرل ﴿ر﴾ پرویز مشرف کی حکومت کا
نام ہے اس سے پہلے کے آمری ادوار ان کے نزدیک مارشل لا نہیں ہیں۔ مسلم لیگ
ن کے قائد میاں نواز شریف کو جنرل ضیا الحق نے اپنی سرپرستی میں لیا تھا
اور ان کی سیاسی تربیت کی اور اس کا مقصد پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت کو
ختم کر کے لسانی بنیادوں پر پنجاب میں میاں صاحب کو متعارف کرایا جائے تاکہ
سندھی اور پنجابی کی تقسیم کی جائے اور پی پی پی کو پنجاب سے ختم کیا جاسکے
﴿ لیکن ان کی اور میاں صاحب کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک ایسا نہ
ہوسکا ہے ﴾۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان کو چار تحفے ملے، ہیروئن،
کلاشنکوف، افغان مہاجرین، اور ایم کیو ایم ۔ ہیروئن نے ہماری نوجوان نسل کو
نشے کا عادی بنا کر انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا،اور آج تک یہ لعنت ہمارے ملک
سے ختم نہیں کی جاسکی ہے،پاکستان کو نشے کی لعنت اسی دور میں ملی،اسی دور
میں پاکستان میں کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا گیا اور یہ کلچر بھی آج تک
ہمارے ملک میں رائج ہے نہ صرف رائج ہے بلکہ اس نے ترقی کرتے کرتے سیاست میں
بھی قدم رکھ دیا ہے اور اب ہماری سیاست بھی ایک لحاظ سے کلاشنکوفی سیاست بن
چکی ہے ﴿ ایم کیو ایم کے الطاف حسین صاحب نے تو جلسہ عام میں کہا تھا کہ ’’
ٹی وی وی سی آر بیچو اور کلاشنکوف خریدو‘‘ ﴾۔افغان مہاجرین کو اس دور میں
پاکستان میں بسایا گیا،اگر ان کو کیمپوں تک ہی محدود رکھا جاتا تو شائد آج
ہمارے ملک کی یہ حالت نہ ہوتی لیکن ان کو کیمپوں تک محدود کرنے کے بجائے
پورے ملک میں پھیلا دیا گیا اور انہوں نے یہاں کاروبار کرنے اور جائیدادیں
خریدنے شروع کردیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اسمگلنک اور منشیات کے دھندوں
میں بھی ملوث رہے ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں کے ناقص انتظامات اور رشوت کے
باعث ان لوگوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹس تک بنالئے اور اسی سبز
پاسپورٹ کی بنیاد پر انہوں نے منشیات کی اسمگلنگ کی ﴿ یہ ایک حقیقت ہے کہ
سعودیہ میں سر قلم کئے جانے والے پاسپورٹ کے لحاظ سے تو پاکستانی ہی ہوتے
ہیں لیکن ان میں سے اکثریت افغانی النسل ہوتے ہیں ﴾۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں ہی لسانی بنیادوں پر عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے
کا عمل شروع کیا گیا اور پنجاب میں میاں نواز شریف کو سپورٹ کیا گیا جبکہ
کراچی میں ایک طالبعلم لیڈر الطاف حسین کو پروموٹ کیا گیا اور کراچی میں ان
کو پروموٹ کرنے کا مقصد کراچی سے مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علما
پاکستان اور جماعت اسلامی کو کمزور کرنا تھا اور کراچی عوام کی مذہبی
تنظیموں کے وابستگی اور مارشل لا کی مخالفت کی سزا دینے کے لئے ایک سیکولر
پارٹی تخلیق کی گئی جس کی سیاست کی بنیاد لسانیت پر رکھی گئی تاکہ کراچی کا
اسلامی تشخص ختم کیا جاسکے لیکن ناموس رسالت کے حوالے سے اکتیس دسمبر کو
پورے ،ملک میں ہونے والی پر امن ہڑتال جس میں ایک پتھر نہیں مارا گیا،ایک
گولی نہیں چلائی گئی، ایک گاڑی نہیں جلائی گئی اور کراچی میں﴿پیر صاحب
پگارا کے ہڑتال کی حمایت نہ کرنے کے باوجود ﴾ لاکھوں افراد پر مشتمل ریلیوں
نے ثابت کیا کہ پاکستان اور بالخصوص کراچی کے لوگ آج بھی اپنے دین پر مر
مٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی بعید اور ماضی قریب میں کراچی
میں ہڑتال کی کامیابی اسی صوررت میں ممکن ہوتی ہے کہ ایک دن قبل سے ہی جلاؤ
گھیراؤ شروع کردیا جائے اور جب تک بارہ پندرہ گاڑیاں نہ جلائی جائیں اور
آٹھ دس بے گناہ لوگوں کی جان نہ لی جائے اس وقت تک کوئی ہڑتال کامیاب نہیں
ہوسکتی۔ لیکن مسلم نیگ ﴿ن ﴾ کے نزدیک مارشل لا صرف پرویز مشرف کی حکومت کا
نام ہے جس نے ان کی حکومت کو برطرف کیا جبکہ ضیا الحق دور کا مارشل لا ان
کے نزدیک مارشل لا نہیں ہے۔ اگرچہ آج کل وہ اس سے برائت اور تمام ہی جنرلز
کے احتساب کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن وہ اس میں کس قدر مخلص ہیں یہ تو آنے
والا وقت ہی بتائے گا۔ یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ موجودہ وزیر اعظم
سید یوسف رضا گیلانی، موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب بھی
جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ میں شامل رہے ہیں لیکن چونکہ وہ اس وقت پی پی
پی میں اس لئے ان کو آمریت کی پیداوار نہیں کہا جاتا البتہ اگر وہ کسی اور
پارٹی میں ہوتے تو پی پی پی انکو بھی آمریت کی پیداوار قرار دے چکی ہوتی۔
ایم کیو ایم اگرچہ آمریت کی مخالفت کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ
وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں پروان چڑھائی گئی اور جنرل مشرف کے دور میں اس
کو نئی زندگی بخشی گئی۔ جنرل پرویز مشرف جس نے ملک کی بنیادوں تک کو
کھوکھلا کردیا اور جنرل مشرف نے بھی قصداً پاکستان کا اسلامی تشخص اور
نظریاتی اساس ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے، مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا
گیا، کشمیر کے ایشو پر الٹی قلابازی لگائی گئی،ملک میں خلاف اسلام قانون
سازی کی گئی، اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا گیا،ملک میں غیر ملکی مداخلت کا
دور شروع ہوا۔ ڈرون حملے ہونا شروع ہوئے،اپنی ہی فوج کو اپنے ہی عوام کے
ساتھ لڑا دیا گیا۔ مہنگائی کا جو طوفان مشرف دور میں برپا ہوا وہ آج تک
ویسا ہی ہے کیوں کہ پیٹرولیم قیمتوں میں ہر پندرہ دن بعد نظرِ ثانی کا کام
مشرف دور میں ہی شروع کیا گیا اور عوام پر ہر پندرہ دن بعد پیٹرول بم گرائے
جانے لگے۔ واضح رہے کہ مشرف دور سے پہلے پیٹرول بیس روپے لیٹر تھا جو کہ
مشرف دور کے آغاز میں بڑھنا شروع ہوا اور مشرف دور میں ہی اس کی قیمت ستر
روپے لیٹر تک پہنچ گی ،﴿اور یکمشت دس تا بارہ روپے تک بھی قیمت بڑھائی گئی
﴾ ایم کیو ایم کے نزدیک مشرف کی حکومت مارشل لا نہیں ہے بلکہ عین جمہوری
حکومت تھی۔ اور آئندہ کے لئے بھی ایم کیو ایم اس بات کی کوئی یقین دہانی
نہیں کراتی کہ وہ کسی آمر کا ساتھ نہیں دے گی بلکہ وہ ایسی باتوں اور
سوالات کے جواب میں گھما پھرا کر بات کو گول کرجاتی ہے۔
(اس مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ آئندہ پیش کیا جائے گا) |