اب وہ وقت آ ہی گیا ہے جس پر
سیاسی لوگوں کا جمہوریت سے مذاق شروع ہو گیا ہے، اب وہ دن دور نہیں جب ملک
میں فوج کو مداخلت کا موقع یہی جمہوریت کے پنڈت خو د فراہم کریں گے، اب اگر
حکومت اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو بیٹھی ہو تو جمہوری تقاضا تو یہ ہے کہ آپ
عزت کے ساتھ اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لے کر مزید حکومت میں رہنے کا جواز
حاصل کریں۔ دوسری طرف کچھ میڈیا کے اینکر پرسن پوچھتے ہیں کہ اگر حکومت
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو اپوزیشن کے پاس کون سا لیڈر
ہے جسے وہ وزیر اعظم نامزد کریں گے۔ اس کا جواب تو سیدھا سا ہے کہ اپوزیشن
مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا قائد بنا سکتی ہے۔ چونکہ اب عوام اپنے ملک سے
غیر ملکی مداخلت سے چھٹکارہ بھی چاہتے ہیں اور مذہبی لوگوں کے آنے سے
طالبان کی بھی حمایت چاہتے ہیں، امریکہ کیوں ہمارے عوام کو نشانہ بنا رہا
ہے، پر امن اسلامی ذہن رکھنے والوں کے لئے انکے ملک ہی میں زمین تنگ کر دی
گئی ہے، یہ ساست دان اور حکمران اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آپ کو جمہوریت
ایک ڈکٹیٹر کے طفیل ملی ہے اگر وہ این آر او کا پلیٹ فارم اور نیب کے
مقدمات جو آپ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر قائم کیے تھے ختم نہ کرتا تو
آپ ملک میں تشریف لانے کے قابل بھی نہ ہوتے ۔ دونوں بڑے قائدین پر کرپشن کے
ریکارڈ مقدمات تھے، اس نے جمہوریت چلانے کے لیے آپ کے لیے راستے ہموار کیے۔
ورنہ آپ سیاسی پنڈتوں پر مقدمات ہی آپ کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لئے
کافی سے زیادہ تھے۔ ان کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا موقع شاید نہیں ملا۔
اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ اگر ان سیاست دانوں کے جمہوری سفر کا جائزہ لیں
تو ضیاء الحق کے بعد ان دونوں پارٹیوں نے کرپشن لوٹ مار کے ریکارڈ بنائے،
اور ملک کا سرمایہ ملک سے باہر بھجوایا، ان سب تفصیلات سے عوام آگاہ ہیں۔
لیکن شرم ان کو مگر نہیں آتی۔ اہم بات تو یہ ہے آپ جمہوریت کی ابجد سے واقف
نہیں آپ ہٹ دھرمی پر مائل ہیں ایک پارٹی پنجاب کی حکومت کو ہی سنبھال کر
اپنی جیت سمجھتی ہے، اسے اپنی زندگی قرار دیتی ہے، اس بار تو نون لیگ حکومت
اسٹے آرڈر پر قائم ہے۔ کسی وقت بھی اسکے سر پر تلوار گر سکتی ہے۔ گو کہ
مقدمات نمٹانے کا عدلیہ کا ریکارڈ کچھ بہتر نہیں۔
بظاہر یہ دونوں پارٹیاں ایک خاموش ڈپلومیسی کے تحت حکومت کر رہی ہیں کہ
مرکزی حکومت نون لیگ کی پنجاب حکومت کو نہ چھیڑیں اور نون لیگ مرکز میں
حکومت کا دفاع کرے گی، اسی لئے میڈیا سے اسے فرینڈلی اپوزیشن کا خطاب سے
نوازہ ہے۔ اس پارٹی کا لیڈر کسی حکومتی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود بھی حکومتی
وسائل کا بے دریغ استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے یہ تو ان کی سیاسی بصیرت ہے۔
جس کا مقابلہ کوئی محب وطن نہیں کر سکتا۔
ملک میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں عوام کے
مسائل سے دلچسپی بالکل نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں کرپشن کے پیچھے دو اشخاص کا
نام آتا ہے۔ جو بھی کیس سامنے آتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے
تعینات کروایا ہے۔ ان حکمرانوں کو ملک اور عوام کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہے
مہنگائی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا
لوگوں کے چولہے جلانے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اوپر سے آر جی ایس ٹی اور اب
پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ جس کا اثر تمام مصنوعات پر براہ راست ہوتا ہے۔
اس ملک کے سولہ کروڑ عوام صرف ایک مطالبہ کرتے ہیں کہ کرپٹ عناصر، چوروں
اور لٹیروں ملکی دولت لوٹنے والوں کا محاسبہ ہو ان کی بیرون ملک دولت کو
ملک میں لا کر قومی خزانے میں اضافہ کر یں تاکہ ملک میں کچھ بہتری ہو۔ اس
حکومت کو سیاسی پارٹیوں نے بہت وقت دیا کہ یہ حالات میں بہتری کریں لیکن
انہوں نے کرپشن میں ہی بہتری کر کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ روز روز نئے
نئے اسکینڈل شامنے آ رہے ہیں ان کو کوئی خوف نہیں، کیونکہ دونوں بڑی
پارٹیاں ایک دوسرے کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں۔ کیا عوام سڑکوں پر آ جانے
میں حق بجانب نہ ہونگے، اس ملک میں عدلیہ کب کسی ایک ملزم کو بھی سزا دینے
کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ لوٹ مار کے ملزمان بھی سامنے ہیں
اور معززین کے لبادے اوڑھے بیٹھے ہیں کیا امر مانع ہے کہ ان معززین کو
ملزمان سے مجرمین قرار نہیں دے سکتی۔ اب کس طرح یہ نیب زدہ سیاست دان
جمہوریت کو برقرار رکھتے ہیں یا ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
والے فارمولے پر عمل کرتے ہیں قوم بہت جلد ان کا اصل دیکھے گی۔ لیکن عوام
آخر کب تک ایسے تماشے دیکھتی رہے گی، اب وقت آچکا کے جمہوری اداروں کو مزید
برباد ہونے نہ دیا جائے اور لٹیروں کو بھاگنے بھی نہ دیا جائے۔ |