انتخابات 2018 ء کی سرگرمیوں کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے،
شہر شہر گلی گلی انتخابی گہما گہمی جاری تھی ، خیال یہی تھا کہ ملک میں
دہشت گردی کی جو لہر عرصہ دراز سے آئی ہوئی تھی جس نے پوری پاکستانی قوم کو
انتہائی اذیت میں مبتلا کر کے رکھ دیا تھا پر قابو پا لیا گیا اور دہشت
گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کردیا گیا ہے۔پوری قوم نے اس تاثر
پر سکھ کا سانس لیا تھا کہ اچانک 10جولائی کو پشاور میں اے این پی کے
انتخابی جلسے میں جس میں ہارون بلور نے خطاب کے لیے موجود تھے ، خود کش
بمبار نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑالیا ۔ دھماکہ اس قدر خوف ناک
اور شدید تھا کہ اس میں ہارون بلور کے ساتھ 22لوگ بھی شہید ہوگئے ، جب کہ
زخمی ہونے والے افراد کی تعداد45 کے قریب ہے ۔ دہشت گردی کی مزمت اور واقعہ
پر تین دن کا سوگ منایا گیا ، سیاسی جماعتوں نے تین دن کے لیے اپنی انتخابی
مہم ملتوی رکھی۔ دکھ اور غم اپنی جگہ ، وہ تو ایک قدرتی عمل ہے ، ممکن ہے
کسی کلعدم تنظیم نے ذمہ داری بھی قبول کر لی ہو ۔ان باتوں سے کیا فرق پڑتا
ہے، خیبر پختونخوان کے عوام اور مخصوس سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا جس
قدر ذہنی دباؤ ہوا، جن خاندانوں کے لوگ شہید ہوئے ان کا نقصان کبھی پورا
نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی کی ہرجانب سے کی گئی۔ انتخابات 2013ء میں دہشت گردی
کے متعدد واقعات رونما ہوئے تھے اورمخصوص سیاسی جماعتوں کو نشانا بنا یا
گیا تھا، جس کے باعث وہ سیاسی جماعتیں عوام تک اپنا پیغام آزادانہ طور پر
نہیں پہنچا سکیں۔ وہ مرحلہ تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی گیا تھا۔ 2018ء کے
انتخابات سے قبل حکومت اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے
مختلف اقدامات کیے، بے شمار دہشت گردپکڑے گئے ، بہت سے مارے بھی گئے۔ خاص
طور پر کراچی میں ہونے والی دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ،
بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کہ لہر میں کمی واقعہ ہوچکی تھی
کہ اچانک 10جولائی کو پشاور کے انتخابی جلسہ میں دہشت گرد اپنی کاروائی
کرنے میں کابیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں قیمتی جانی نقصان ہوا۔ پوری قوم ہل
کر رہ گئی ۔ خاص طور پر بلور خاندان کے ساتھ پے در پے دہشت گردی کے واقعات
کو رونما ہونا اس بات کی نشان دہی کر رہ ہے کہ بلور خاندان دہشت گردوں کی
ہٹ لسٹ میں شامل ہے۔ اس لیے کہ غلام احمد بلور کے اکلوتے بیٹے ، ضمنی
انتخابات میں ہارون بلور کے والد بشیر بلور کو شہید کردیا گیا تھا۔اس واقعہ
کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، پوری قوم بلور خاندان کے غم میں برابر کی
شریک ہے۔
ابھی پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کا غم کم بھی نہ ہوا تھا،
ہارون بلور کا سوئم کا انعقاد تھا13جولائی کو دو اہم واقعات رونما ہوئے ایک
جانب میاں نواز شریف اور مریم نواز نے لندن سے پاکستان آنے کا اعلان کیا کہ
وہ 13جولائی کو پاکستان پہنچیں گے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا۔ نگراں
حکومت اورتمام سیاسی قوتوں کی سوچ کا مہور میاں صاحب کی وطن واپسی تھی،
میڈیا مکمل طور پر میاں صاحب کی آمد کی کوریج کر رہا تھا، فورسیز کی تمام
ترتوجہ لاہور اور اسلام آباد میں میاں صاحب کی آمد پر لگی ہوئی تھیں۔ اسی
دن بلوچستان کے شہر مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی(بی اے بی)کے
امیدوارنوابزادہ سراج رئیسانی کے انتخابی قافلے میں بم دھماکے سے سراج
رئیسانی سمیت 130افراد کی شہادت اور 200سے زائد افراد کا زخمی ہوگئے۔دہشت
گردی کے ہونے واقعات میں مستونگ میں ہونے والا واقعہ انتہائی بڑا اور درد
ناک تھا۔ اس قدر پاکستانیوں کی شہادت نے سب کی توجہ اس جانب مبزول کرادی ۔
دو دن بعد ہی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجانا اس بات کی نشاندھی کررہا تھا
کہ دہشت گرد اپنی منصوبہ بندی میں مسلسل مصروف ہیں اور انہوں نے پاکستان
میں دہشت گردی کرنے کی اپنی منصوبہ بندی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ابھی مستونگ
میں ہونے والی دہشت گردی کی تفصیلات آہی رہی تھیں کہ خیبر پختونخواہ کے شہر
بنوں میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما اور متحدہ مجلس عمل کے انتخابی
امیدوار اکرم خان درانی کی جلسہ گاہ کے نزدیک بم دھما کے کے نتیجے میں 2
بچوں سمیت 5افراد کی شہادت ہوئی۔ ایک ہی دن خیبر پختونخواہ اور بلوچستان
میں دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا ، دو دن قبل پشاور کا دہشت گردی کا
واقعہ انتہائی قابل مزمت ہے۔ انتخابات کے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں
اور ریلیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے جن
کا اظہار مختلف سیاست دانوں کی جانب سے کیا جارہا تھا۔انتخابات میں سیاسی
لیڈر ایک دوسرے کے بارے میں جس قسم کی باتیں کر رہے تھے ، ان سے یہ گمان تو
ضرور تھا کہ کہیں سیاسی جماعتوں کے کارکن آپس میں کسی بڑے حادثہ کا شکار نہ
ہوجائیں۔ لیکن تمام ہی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کی مخالفت زبانی کلامی
تک ہی جاری رکھی، اکا دکا چھوٹے واقعات اتنے اہم نہیں ہوتے ، گو کہ وہ بھی
نہیں ہونے چاہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے اب تک تو تدبر کا، اچھی حکمت عملی
کا مظاہرہ کیا لیکن ہمارا دشمن ہماری تاک میں مسلسل لگا ہوا ہے۔ وہ اپنی
تیاری میں رہتا ہے، کچھ عرصہ خاموش رہ کر یہ تاثر دیتا ہے کہ دہشت گرد وں
نے اپنی کاروائیاں ختم کردی ہیں لیکن جوں ہی موقع ملتا ہے دہشت گرد ی کی
کاروائی کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
پاکستان کو دہشت گردوں کے ہاتھو ں بے انتہا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے ۔
یہ نقصان ہر اعتبار سے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ دہشت گردی کی
لہر نے عرصہ دراز سے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یہ بات بھی عیاں
ہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی پاکستان کا بیرونی دشمن کر رہا ہے۔وہ دہشت
گردوں کو ہر طرح کی امداد اور سہو لیات فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان
کو کمزور اور غیر مستحکم کرنا ہے۔ پاکستان کی ا فواج نے پاکستان کے اندرونی
اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے اورانہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی
کثر نہیں اٹھا رکھی ، آپریشن ضرب عضب اس کے بعد آپریشن رد الفساد نے دہشت
گردوں کو پسپہ ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ پاک فوج کی بہادری کی مثالیں ہم سب
کے سامنے ہیں۔انتخابی سرگرمیاں شروع ہونے سے قبل کافی عرصہ تک دہشت گردوں
کی کاروئیاں نظر نہیں آئیں لیکن انتخابی عمل کے شروع ہوتے ہی دہشت گرد اپنی
کاروائی میں کامیاب ہوگئے ، واضح مطلب ہے کہ دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان
میں پر امن طریقے سے انتخابات ہوں ، یہاں کوئی مضبوط اور مستحکم حکومت قائم
ہو، پاکستان میں مضبوط اور مستحکم حکومت کا قیام پاکستان کے بیرونی اور
اندرونی دشمنوں کے حق میں نہیں ، اس لیے بھی پاکستان کے دشمن نے انتخابات
کے دوران دہشت گردی کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ پاکستان کے عوام، سیاسی قوتوں،
عسکری قیات کو باہم مل کر اپنے اندرونی اوربیرونی دشمن کا مردانہ وار
مقابلہ کرنا ہے۔ انتخابات میں ایک دوسرے کی مخالفت ، ایک دوسرے کے خلاف طعن
و تشنیع ،دشنام طرازی، بد زبانی ، بد لگامی، بد کلامی بیہودہ گوئی اور ایک
دوسرے کو بر ا بھلا کہنا اپنی جگہ ، یہ پاکستانیوں کا آپس کا معاملہ ہے،
جمہوریت اسی عمل کا نام ہے، پاکستان اپنے تمام معاملات باہمی طور پر حل کر
لے گا، حکومت کی باگ دوڑ کسی بھی سیاسی پارٹی یا پارٹیوں کے ہاتھ میں ہو ،
پاکستان کی آنے والی ہر حکومت دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار
ثابت ہوگی۔ اس عمل میں پاکستان کا بچہ بچہ اپنی بہادر فوج اور حکومت کے
ساتھ رہتے ہوئے بیرونی اور اندرانی دشمنوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ بہادری
، باہمی اتحاد، اور ملک کے قومی مفاد میں کرے گا۔اللہ پاکستان کومضبوط و
مستحکم رکھنے والے حکمراں نصیب کرے ، ایسے حکمراں جنہیں پاکستان سے محبت
ہو، پاکستانی عوام کی حالت بہتر کرنے کا خیال مقدم ہو۔
|