پاکستانی سیاست کا ایک المیہ یہ ہے۔ کہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان کو کبھی اہل اور دیانتدار حکمران نہیں ملا۔کسی نے ملکی خزانے اور
معیشت کو استحکام دینے کی سعی بھی نہیں کی۔عوام کو بھی یہ شعور نصیب نہیں
ہواکہ اس ملک کے لیے صحیح رہنما کا انتخاب کر سکے۔
1988ء کے بعد پاکستان کی سیاست پردو جماعتوں کا غلبہ رہا۔دونوں جماعتوں کو
تین تین بار اقتدار میں آنے کے مواقع ملیں ۔1988ء سے 1999ء تک ان دو
جماعتوں کو چیلنج کرنے کی کسی تیسری جماعت کو ہمت بھی نہ ہوئی۔1999ء کے
بعد پرویز مشرف کی تخلیق کردہ مسلم لیگ ق اور 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے
پلیٹ فارم سے مذہبی جماعتوں نے اِن کو چیلنج کیا۔2008ء کے عام انتخابات
میں پاکستان پیپلز پارٹی کوبینظیر بھٹوکی شہادت کے نتیجے میں ملنے والی
ہمدردی سے آخری بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔2013ء میں آصف زرداری کی
پارٹی سرپرستی ، پاکستان تحریک انصاف کی نووارد و ناتجربہ کار جماعت اور
مذہبی جماعتوں کی باہم نااتفاقی نے مسلم لیگ نواز کو ایک بار پھر بھاری
مینڈیٹ سے کامیابی کا موقع دیا۔جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کو وفاق اور ملک
کے بڑے صوبے(پنجاب) میں حکومت بنانے کاموقع ملا۔
2018ء تک یہ دونوں جماعتیں وفاق اور مرکزیت کی بڑی علامت سمجھی جاتی
تھی۔ان کے مقابلے میں کوئی تیسری جماعت کا تصور ہی نہیں تھا۔کیونکہ دونوں
جماعتیں ووٹ کو عزت دینے کی بجائے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔نتیجے میں دونوں
پارٹیوں کی مرکزیت پر کنٹرول کمزور ہو گئیں۔چنانچہ سیاسی جماعتوں کا دائرہ
کارمخصوص صوبوں تک محدود ہو گیا۔یعنی پاکستان پیپلز پارٹی سندھ ، پاکستان
مسلم لیگ ن پنجاب و بلوچستان ، متحدہ مجلس عمل کاکمزور ہوتا ہوا ووٹ بینک
خیبر پختونخواہ و بلوچستان اور عوامی نیشنل پارٹی کا اثر خیبر پختونخواہ کے
چند اضلاع تک محدود رہا۔2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف بیک
وقت خیبرپختونخواہ سمیت پورے پاکستان میں ان ساری جماعتوں کو چیلنج کر رہا
ہے۔پاکستان میں پارٹی مقبولیت کی ایک نئی سروے جو کہ پلس کنسلٹنٹ نے کی
ہے۔اس سروے کیمطابق پی ٹی آئی وہ واحدسیاسی پارٹی ہے۔جس کی مقبولیت
خیبرپختونخواہ میں 2013ء کی نسبت 2018ء میں 47 فیصد سے 57 فیصد تک بڑھ
گئی ہے۔پورے پاکستان میں 2017ء کی نسبت 2018ء میں پاکستان کی سرکردہ
سیاسی جماعت بن گئی ہے ۔ایک اور رپورٹ کیمطابق دنیا بھر میں اس کے چاہنے
والے سپورٹرز کی تعداد سب سے زیادہ ہیں۔ان ساری اعداد و شمار کیمطابق
2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ میں واضح اکثریت کے
ساتھ صوبائی حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آئے گی۔اسی طرح قومی اسمبلی
میں پاکستان مسلم لیگ (ن ) سے مقابلہ ہوگا جو کہ غالب امکان ہے کہ شایدپی
ٹی آئی کو دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ سیٹیں مل جائے۔ہاں البتہ پنجاب میں
مسلم لیگ ن کو روایتی سیاست کی بدولت صوبائی سیٹوں میں پھر بھی اکثریت ملنے
کا امکان ہے ۔سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کمزور کارکردگی اور پی ایس
پی اور پی ٹی آئی کی متحرک ہونے کی وجہ سے ان کی ووٹ بینک پر کافی اثر پڑے
گا ۔بلوچستان کی سیاست میں بھی پی ٹی آئی کافی سرایت کر چکی ہے۔لیکن یہاں
ووٹ ڈالنے کی شرح میں ہمیشہ سے کمی دیکھی گئی۔شرح میں کمی کے چند نمایاں
وجوہات ہیں۔تعلیم کی کمی ،ووٹ کی اہمیت سے ناواقفیت ، بنیادی سہولیات کی
عدم دستیابی، نمائندوں کی ابتر کارکردگی، قبائلی روایات کی بدولت خواتین کے
ووٹ ڈالنے کا کم رجحان ہے۔ ان ساری وجوہات کے علاوہ سندھ ، بلوچستان اور
پنجاب کے عوام کی ایک روایتی کمزوری ہے کہ وہاں وڈیروں ، سرداروں اور
چوہدریوں کے خوف سے کوئی اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتا۔اختلاف کی صورت
میں معاشرتی پابندیاں ، استحصال اور ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت کو مرکزیت کا درجہ تب حاصل ہوتا ہے۔جب کوئی جماعت عوام
کی درست سمت میں نمائندگی کرے۔خواہ وہ ایک یا زیادہ سیٹوں کے ساتھ صوبائی
اور قومی سطح پر نمائندہ جماعت کیوں نہ ہو۔ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے
حقوق کی سیاست کی۔ تب ہی پیپلز پارٹی کو مرکزی جماعت کا درجہ ملا۔ عمران
خان نے عوام کے حقوق کا مطالبہ کیا۔تب ہی پورے ملک میں عوام کی جانب سے
پذیرائی ملی۔اور مرکزیت کا درجہ ملا۔ہاں جماعت کی اندرونی چپقلش نے اس کو
نقصان پہنچایا۔لیکن ہر نئی جماعت میں اس قسم کے مسائل ہوتے ہیں۔جسکو بہتر
رہنمائی سے قابو کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال پاکستانی سیاست میں ایک جماعت پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا
دعویٰ کر رہا ہے۔دوسری جماعت پچھلے کئی عشروں سے روٹی، کپڑا ، مکان کا نعرہ
لگا رہا ہے۔ تیسری جماعت قانون کی حکمرانی ، انصاف کی فراہمی اور کرپشن کے
ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے وعدے کر رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں عہدِ
خُلفائے راشدین کی واپسی اور ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانے
کادعویٰ کر رہے ہیں۔لیکن 2018ء کے انتخابات میں مرکزیت کا تاج اس جماعت کے
سر سجے گا۔جن کو ملک کے پانچ اکائیوں سے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوجائے۔
|