ایک بار میں نے ایک معروف اینکر کو ’’الو کا پٹھا‘‘ کہہ
دیا اور میرے جاننے والے جتنے بھی اینکر پرسن و میڈیا جرنلسٹ گروپ لسٹ میں
تھے، اُن سب کو بھی اپنا اظہاریہ بذریعہ ای میل ارسال کردیا۔ 2012 کے اس
واقعے کو میں اب بھی اُسی طرح یاد کرتا ہوں جیسے یہ کل کی ہی بات ہو۔ میں
نے صبح سات بج کر 33منٹ پر پہلی ای میل کی اور پھر اگلے پانچ منٹ بعد ہی
اُس اینکر سے معافی مانگی کہ میرا عمل درست نہیں تھا، مجھے آپ کو الو کا
پٹھا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ نجی نیوز چینل سے وابستہ معروف پختون اینکر نے
حسن ظن سے کام نہیں لیا اورمیرے معافی نامے کو قبول نہیں کیا، تاہم کراچی
میں ایک تقریب کے دوران فیصل سبزواری و دیگر نے گلے ملادیا۔ انہیں لندن کے
معروف عالمی نشریاتی ادارے کے کئی صحافیوں نے بھی میری ای میل (شکوہ)
فارورڈ کی تھی، میں 13 ہزار سے زائد میڈیا پرسن و میڈیا ہاؤسز کو رابطے میں
رکھتا تھا۔ لیکن کیا کرتا، منہ سے نکلی بات واپس نہیں آتی۔ قصہ مختصر کہ یہ
ایک ایسا غیر پارلیمانی لفظ تھا کہ مجھے اب بھی افسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم
مجھے احتیاط برتنی چاہیے تھی۔ اب اس کی کیا وجوہ تھیں، اس پس منظر میں جائے
بغیر میں نے صرف یہ دیکھا کہ سیاستدان ہو یا صحافی ہو، اس میں اگر رعونت
آجائے تو بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔
دور حاضر کے الیکٹرونک چینلز میں تجزیہ کاروں کے تبصرے سنتا ہوں تو سمجھ
نہیں آتا کہ آیا صحافت سے وابستہ شخصیت بیٹھی ہے یا پھر کسی سیاسی جماعت کا
جذباتی نمائندہ۔ ویسے تو میرے احباب میں ایسی نابغہ روزگار شخصیات فیس بک
پر موجود ہیں کہ ان کی تحریریں پڑھ کر پسینہ آجاتا ہے، لیکن یقین کریں کہ
ان کی ’’شیریں بیانی‘‘ اور لفظوں کے انتخاب میں اعلیٰ ادبی ذوق موجود ہوتا
ہے۔ سعادت حسن منٹو، میرا جی اور اختر شیرانی کو تو چھوڑیں، بابائے نفسیات
’سگمنڈ فرائیڈ‘ اور رجنیش اوشو بھی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آئیں۔ یہ الگ
بات اُس زمانے میں منٹو، میرا جی اور شیرانی کو کوئی نہیں سمجھا، انہیں فحش
گو قرار دیا لیکن اب انہیں اردو کا عظیم اثاثہ قرار دیا جاتا ہے۔ ممکن ہے
کہ صہیب بھائی ، منصور بھائی، ثاقب بھائی لائبہ ، قدسیہ سمیت کئی دوسرے
احباب کی نگارشات بھی تاریخی اثاثہ بن جائیں۔ میں تو جب بھی فرسٹریشن کا
شکار ہوتا ہوں، ان احباب کی تحریریں (فیس بک والی) پڑھ کر دوبارہ تروتازہ
ہوجاتا ہوں۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں ’سچائی‘ کے ایسے پل صراط سے
کبھی نہیں گزر سکتا، لیکن ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے جب دوسری جماعت کے
سیاسی کارکنان کو ’’گدھا‘‘ کہا تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ میں اس کے
لیے کون سا لفظ استعمال کروں۔ لاکھوں افراد ان جیسوں کو جبراً سنتے ہیں۔
اربوں روپے کے اشتہارات دینے کا خمار ان کی زبان کو بے قابو کیے ہوئے ہے۔
اس بے روزگار شخص کے ذرائع آمدن بینک سے ملنے والے ’’سود‘‘ (منافع) پر تکیہ
کیے ہوئے ہیں۔ اس پر طرّہ کہ وہ خلافت راشدہ کو رول ماڈل قرار دیتا ہے، اس
کا عمل مکمل تضاد سے بھرا پڑا ہے۔ مجھے اس کے ماضی سے کوئی کام نہیں۔ حال
سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔ مستقبل کا بھی نہیں سوچنا، کیونکہ ہر شخص اپنے قول
و فعل کا خود ذمے دار ہے۔ مجھے اس کی کسی بات کا کوئی اثر اس لیے نہیں ہوتا
کیونکہ خود میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے والا کڑوا آنے پر تھو تھو کرنے لگتا ہے،
وہ جب ’’خود‘‘ میں تبدیلی نہیں لاسکتا، ملک و قوم میں تبدیلی کیسے پیدا
کرسکے گا۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے آکسفورڈ میں
تعلیم حاصل کی ہے، جس کا آئیڈیل (بظاہر) خلافت راشدہ کا نظام ریاست ہے۔ وہ
اشرف المخلوقات کو ’’گدھا‘‘، بے ضمیر، زندہ ’مُردے‘ اور نہ جانے کیا کیا
کہتا پھرتا ہے اور پھر بھی اس کی زبان روکنے والا کوئی نہیں۔ اب ایسا بھی
نہیں کہ دوسرے سیاسی جماعت کے لیڈروں نے یاوہ گوئی نہ کی ہو، لیکن سیاست
میں اخلاقیات کا پیراہن اتارنے کا سہرا یقیناً اسی کے سر جاتا ہے۔
میں نے تو تاریخ میں پڑھا ہے کہ نامور ترین ہستیاں اپنے مخالفین کی
بدزبانیاں، ان کی جسارتوں کو خندہ پیشانی سے جھیل لیتی تھیں۔ شاہ ایران جب
کسی ’’شہنشاہ‘‘ کو تلاش کرتا تو اُسے جواب دیا جاتا کہ ہمارے یہاں شہنشاہ
نہیں ہوا کرتے، ’’امیر‘‘ ضرور ہیں اور چشم فلک نے دیکھا کہ 27لاکھ مربع میل
کے ’’حکمراں‘‘ کا سرہانہ ایک اینٹ تھی، جس پر وہ آرام فرمارہے تھے۔ کوئی
سیاسی یا موجودہ مذہبی شخصیت تو اس عظیم ہستی کے پاؤں کی خاک بھی نہیں
ہوسکتی۔ رب کائنات کی جانب سے حیات میں ہی جنت کی بشارت حاصل کرنے والوں کا
موازنہ کسی پڑھے لکھے جاہل سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یقین جانئے بڑا دکھ
ہوتا ہے کہ سیاسی شخصیات جب اپنی دکان چمکانے کے لیے کبھی خواتین کو رسوا
کرتے ہیں تو کبھی انسانوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ ہمارا الیکٹرونک میڈیا بھی من
و عن انہیں دکھاتا۔ برسبیل تذکرہ کہتا چلوں، مجھے آج بھی یاد ہے کہ لندن سے
ایک سیاست دان نے معروف نجی چینل کو سخت الفاظ میں پریس ریلیز دی اور خوف
زدہ چینل دھڑا دھڑا ٹکرز چلانے لگا۔ میں اس وقت کیپری سنیما میں فلم دیکھ
رہا تھا کہ مجھے اس رہنما کے بیان پرردعمل دینے کو کہا گیا۔ میں فلم ادھوری
چھوڑکر میڈیا سیل پہنچ گیا۔ نسوار رکھی سائیڈ میں اور ترکی بہ ترکی جواب
داغ دیا۔ میڈیا گرو ’ڈائریکٹر نیوز اظہر عباس‘ کو فون کیا اور پانچ سیکنڈ
میں جوابی ٹکرز چلنے لگے۔
نازیبا پریس ریلیز پر میرا ردعمل بھی سخت تھا۔ کچھ دیر بعد مجھے فون آیا کہ
قادر بھائی، تھوڑا الفاظ نرم کرلیں، میں نے کہا کہ کیوں یہ جو ٹکرز چل رہے
ہیں کیا اس میں شہد ٹپک رہا ہے۔ میرا لہجہ انتہائی تلخ تھا۔ تھوڑی دیر بعد
دوبارہ فون آیا کہ قادر بھائی میری لندن والوں سے بات ہوگئی ہے، وہ ٹکرز
تبدیل کرنے پر تیار ہیں۔ میں نے کہا، چلائیں دیکھ کر فیصلہ کرتا ہوں۔ ٹکرز
چلے، لیکن میری تشفی نہیں ہوئی۔ میں نے اپنے ٹکرز چلانے پر اصرار کیا۔
بالآخر لندن والے اس پر راضی ہوگئے کہ پریس ریلیز واپس لے لیتے ہیں، قادر
بھائی بھی واپس لے لیں۔ تھا تو پٹھان دماغ، میں نے کہا کہ پہلے ان کے بند
کریں، پھرٹکرز غائب ہوگئے اور میں نے بھی ہامی بھر کر نسوار رکھ لی۔ اس
واقعے کا ذکر اس لیے کرنا مناسب سمجھاکہ یہ کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں،
چند برس قبل میڈیا ہاؤسز اقدار کا خیال اور اخلاقیات کا پاس رکھتے تھے۔
لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں نے قلم کی طاقت سے دہشت گردوں کو سرنگوں
ہوتے دیکھا۔ اس پر آج بھی فخر محسوس کرتا ہوں، لیکن اب قلم کی طاقت کو
مفادات کے ترازو میں تولنے کا رواج پروان چڑھنے لگا ہے۔ میڈیا، سیاست دانوں
کی مجبوری اوراس طوطے میں ان کی جان ہے۔ التماس ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر جب
اخلاقیات کی حدود پامال کرے تو اس کو حد سے نہ بڑھنے دیں۔ عوام گالیاں نہیں
موقف سننا چاہتے ہیں۔ الزامات نہیں حقائق پڑھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرا
ذاتی تجربہ ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا، بس ایک بار
ان سب کو لگام دے دیں۔ |