میرے پاس فقط آنسو ہیں جو بہا سکتا ہوں اور بہا رہا ہوں۔
رو رہا ہوں۔میرا دل رو رہا ہے۔ میرا انگ انگ رو رہا ہے۔اپنی بے بسی پر،
اپنی بے چارگی پر۔میں ایک فرد واحدہوں جو اس ملک میں بے حد مجبور اور لاچار
ہے۔اور اس ملک کا ہر فرد واحد جس کے سینے میں دل ہے ماتم کناں ہے۔ یہ صرف
ظلم اور زیادتی نہیں بربریت ہے۔چند دن میں سینکڑوں لوگ دہشتگردی کی بھینٹ
چڑھ گئے ہیں اور کوئی ان سانحات کا ذمہ دار نہیں۔مستونگ کا واقعہ کس قدر
دلخراش ہے۔صوبائی اسمبلی کے امیدوارسراج رئیسانی ایک کارنر میٹنگ سے خطاب
کرنے آئے اور ایک خود کش حملے کے نتیجے میں خود بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
اور ان کے ساتھ جلسہ گاہ میں موجود سینکڑوں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔کس
قدر سفاکی ہے۔ رونے کے سوا کسی بات کو دل نہیں کرتا۔ میڈیا کہتا ہے ایک سو
تیس (130)بندے سانحے کا شکار ہوئے۔ ایک نوجوان جو وہاں کا رہائشی ہے اور اس
علاقے میں موجود ہے یہ شہدا کی تعداد دو سو (200) کے لگ بھگ بتاتا ہے ۔شہید
اور زخمی ہونے والے سچے پاکستانی تھے جن کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست تھی۔
کیا ریاست اس قدر مفلوج ہو چکی کہ اپنے شہریوں کی ، اپنے و فاداروں کی
حفاظت بھی نہیں کر سکتی۔ یہ دشمن کی چال ہے تو افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری
سرحدیں اس قدر غیر محفوظ کیوں ہو چکی ہیں۔
مستونگ کوئٹہ سے فقط ایک گھنٹے کی مسافت پرہے جس کا فاصلہ کوئٹہ سے فقط 42
کلو میٹر ہے۔ 18 فروری 1992 میں اسے ضلع قرار دینے تک یہ قلات کا حصہ
تھا۔5896 مربع کلومیٹر پر محیط اس ضلع کی کل آبادی دو لاکھ چھیاسٹھ ہزار
چار سو اکسٹھ (266461) نفوس پر مشتمل ہے جو 45 نفوس فی مربع کلو میٹر ہے۔
99 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔یہاں کی مقامی آبادی بروہی زبان بولتی ہے۔ 80 فیصد
لوگ خود کو بلوچی اور 6 فیصد خود کو پشتون کہتے ہیں اور بلوچی اور پشتو بھی
بولتے ہیں۔ قبائلی نظام یہاں کافی فعال ہے۔ بڑے بڑے قبائل لہڑی، بینگل زئی،
رئیسانی، شنواری، محمد شاہی، کرد، لینگو، سید، علی زئی، سنبھلانی،باروزئی،
ترین، رند، خورسانی اور درانی ہیں۔ شہروں یا قصبوں میں رہنے والوں کی تعداد
پنتیس ہزار (35000) ہے جب کہ باقی تمام آبادی دیہات میں آباد ہے۔ضلع مستونگ
کی چار تحصیلیں دشت (Dasht) ، کردی گاپ(kardigap) ، کدکوچہ (Khad Koocha)
اور مستونگ ہیں۔مستونگ کا قصبہ ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی ہے اور تحصیل ہیڈ
کوارٹر بھی۔ تحصیل مستونگ ،جہاں یہ المناک واقعہ پیش آیا، اس ضلع کی نسبتاً
گنجان آبادتحصیل ہے ۔ اس تحصیل کی آبادی ایک لاکھ تیتیس ہزار نو سو تراسی
(133983) افراد پر مشتمل ہے۔ اس تحصیل کارقبہ 1159 مربع کلومیٹر ہے جو 116
نفوس فی مربع کلو میٹر ہے۔بہت کم گھروں میں بجلی میسر ہے اورعلاقے میں پانی
کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں۔
یہ مستونگ کے علاقے میں ایک چھوٹے سے قصبے میں کارنر میٹنگ تھی۔ کتنے گھر
ہونگے اس قصبے میں۔ دو سو آدمیوں کا شہید ہونا اس قصبے کو اجاڑ گیا ہو
گا۔وہاں کا ہر محلہ اور ہر گلی لہو لہو ہو گی۔ وہاں ہر گھر میں کرب وبلا کا
سماں ہوگا۔ہر گھر میں ماتم ہوگا۔ کون ان کا پرسان حال ہے۔ کون انہیں پوچھنے
والا ہے۔ حال پوچھنے والے تو آئے اور آ کر چلے گئے ہوں گے۔ اس بستی میں کئی
باپ اپنے بیٹے کھو چکے۔ کئی ماؤں کی کھوکھ اجڑ گئی ۔ کئی عورتیں بیوہ ہو
گئیں۔ بے تہاشا بچے یتیم ہو گئے۔ گھر کا کمانے والا نہیں ہو گا تو ان
عورتوں اور بچوں کا کیا بنے گا جو بے سہارا ہو گئے، جو یتیم ہو گئے۔ دو چار
دن حوصلہ دینے کئی لوگ آئیں گے پھر سسکیاں ہونگی، آہیں ہونگی، حسرتیں ہونگی۔
ایک نہ ختم ہونے والی مایوسی ہو گی اور تنہائی ہو گی۔ اپنے بچھڑ جائیں تو
یہی حال ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے کسی کو حکومت سے کچھ امید ہو مگر مجھے نہیں۔
سرکاری اہلکاروں کا یہ عالم ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کو ان کا جائز حق دیتے
ہوئے بھی کمیشن وصول کرتے ہیں۔ جہاں ایسی بے حسی ہو وہاں کیا امید اور کیسی
امید۔ ویسے بھی گھر کے افراد کے علاوہ کون عمر بھر کسی کا ساتھ دیتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وہاں کے پرکانی قبیلہ کے افرادجو بنیادی طور پر خانہ بدوش
قسم کے لوگ ہیں اور انتہائی غریب ہیں، آج سب سے زیادہ قابل رحم حالت میں
ہیں۔ ان غریب لوگوں کو حکم ہوا تھا کہ اس جلسے میں کم سے کم گھر کے چار
افراد شرکت کریں۔قبائلی سرداری نظام میں غریب میں انکار کی جرات نہیں ہوتی۔
اس سانحے میں اس قبیلے کے ہر گھر سے کم از کم چار لاشیں اٹھیں ہیں۔اس ماں
کے بارے کسی نے نہیں سوچا، اس سے کوئی ذمہ دار تعزیت کرنے نہیں گیا ، جس نے
اس سانحے میں اپنے سات جوان بیٹے کھو دئیے ہیں۔اس بوڑھے آدمی کوکسی نے نہیں
پوچھا جس کے چار بچے مارے گئے۔ اس کے گھر میں غربت کا یہ عالم تھا کہ چاروں
بیٹے دن رات کام کرتے تھے مگر پھر بھی گزارہ کرنا مشکل تھا، چاروں مرنے
والوں میں ایک سائیکل پر سکریپ کا کام کرتا تھا۔ دوسرا عام مزدور تھا۔
تیسرا ٹرک مزدور تھا اور چوتھا گھر کی دو تین بکریوں کو چراتا تھا۔ اب اس
بوڑھے کا کوئی سہارا نہیں۔ بہت سے خاندان ہیں جن کے چار چار افراد اس سانحے
میں جان ہار گئے ہیں۔ سات بیٹوں کو کھونے والی ماں اس قوم کی ماں ہے۔ ہم سب
کی ماں ہے۔ چار چار بیٹے گنوانے والے اور اور اپنے دیگر پیاروں کو کھونے
والے سبھی بزرگ ہمارے بزرگ ہیں۔ انہیں کوئی پوری طرح پوچھتا کیوں نہیں۔ اگر
یہ ملک ہم سب کا ہے تو انتظامیہ کی بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ جن کا
کوئی سہارا نہیں ان کا سہارا ریاست ہے۔ حکومت کو ان لوگوں کو عزت سے رہنے
اور جینے کے لئے ہر سہولت فراہم کرنی ہو گی اور یہ سہولت کسی سردار یا
وڈیرے کی معرفت نہیں بلکہ براہ راست ان تک پہنچانی ہوں گی۔ اس کڑے وقت میں
حکومت کے مثبت اور حوصلہ افزا اقدامات ،بلوچستان کے عام لوگوں میں ، جہاں
پہلے ہی لوگوں کو محرومیوں کے بہت سے گلے شکوے ہیں،اچھے اور مثبت تاثر کا
باعث ہوں گے۔ |