طویل عرصے کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر قلم اٹھانے پر
مجبور ہوں... اور آخر کیوں میں خاموش رہوں اورخاموش تماشائی بنوں؟
کسی بھی ذی شعور شخص کے لئے یہ بات آسان نہیں ہوتی کہ وہ اپنے آس پاس جو
کچھ غلط ہوتا دیکھے اور وہ اسے روکے نہیں یا پھر اس کے خلاف آواز بلند نہ
کر سکے اور ایک لکھاری کے لیے تو شاید یہ بات اور بھی زیادہ مشکل اور
ناممکن ہو جاتی ہے جب وہ سب کچھ دیکھ کر چپ سادھ لے اور غلط کو غلط نہ لکھ
سکے... ہو سکتا ہے بہت سے لوگ میری باتوں سے اختلاف کریں مگر ایک بات جس نے
مجھے اتنا بے چین کیا ہے اور دوبارہ قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے وہ ملک
کی موجودہ صورتحال ہے...بعض حقائق اتنے تلخ ہوتے ہیں کہ انہیں لفظوں میں
بیان کر نا بھی آسان نہیں ہوتا... پانچ سال جمہوری حکومت بلکہ لولی لنگڑی
اور مجبور بے کس و لاچار حکومت کے پورے ہونے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے
لئے الیکشن کا اعلان کیا جاچکا ہے اور بہت جلد وہ دن آنے کو ہے جب ملک بھر
میں الیکشن کا انعقاد ہو گا...مگر میں جس تذبذب اور سوچ میں مسلسل مبتلا ہو
وہ یہ ہے کہ آیا یہ انتخابات اصولوں پر مبنی اور صاف و شفاف ہونگے؟ کیا یہ
انتخابات متنازعہ یا پہلے سے طے شدہ ہونگے کہ جس میں جیتنے والے کا نام
پہلے سے لکھ دیا گیا ہے؟ یا اس ملک کی پڑھی لکھی باشعور عوام اپنے ووٹ کا
صحیح استعمال کر پائے گی؟یہ چند ایسے سوالات ہیں جو میرے آپکے اور ہر
پاکستانی کے ذہن میں ہے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں جواب بھی معلوم ہوگا……
بات صرف اتنی ہے کہ اکہتر برس بیت چکے ہیں وطن عزیز کو وجود میں آئے کئی
حکومتیں آئی اور چلی گئی مگر کبھی بھی یہ معجزہ رونما نہ ہو سکا کہ جمہوریت
اور جمہوری عمل کو مکمل اختیارات حاصل ہوئے ہوں .یا بیرونی اور اندرونی
طاقتوں نے ملک میں قائم جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے کے لیے جوڑ توڑ اور
سازشیں نہ کی ہوں اور ان تمام سازشوں اور تلخیوں کے نتیجے میں ملک میں نفرت
اور ایکدوسرے کے خلاف انتقامی عناصر روز بروز اضافہ نہ ہوا ہو. جو لوگ آج
یا کئی برسوں سے تبدیلی کی بات کرتے چلے آرہے ہیں حد تو یہ ہے کہ وہ بھی
اسی نظام کا حصہ بن چکے ہیں کجا اس کے کہ جو تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے یا
لانا چاہتے ہیں اس کے لیے خود کو اس سارے نظام سے باہر رکھ کر ایک عملی
ثبوت پیش کرتے اور پھر لگن کے ساتھ جدوجہد کرتے مگر افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ ہر شخص چور دروازے اور خفیہ ہاتھ کی تلاش میں رہتا ہے اﷲ کی ذات
پر بھروسہ کرکے میدان جنگ میں کوئی اترنے کو تیار نہیں تو پھر جب یہ سب
ہوگا تو کیسے کہا جائے کہ اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے اور اب جو آئے گا وہ سب
سے بہتر ہوگا جس قوم کی تقدیر کے فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہو جہاں ہر
فیصلہ دباؤ کی بنیاد پر کیا جائے اس قوم کے مستقبل کا پھر خدا حافظ…….جس
ملک میں عدالتیں انصاف کے بجائے عداوتیں بانٹتی ہوں ،کسی کو بنا ثبوت اور
دلائل کے مجرم اور کسی کو معصوم قرار دیتی ہو،جہاں انصاف برابری کی بنیاد
پر نہ ملے اس قوم کا خدا ہی حافظ۔ وہ اقبال نے کیا خوب ہی کہا ہے کہ...
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی،
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا……
تو یہی سچ ہے کہ جب تک یہ قوم خود سے صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ، اچھے اور
برے کا فیصلہ کرنا نہیں سیکھے گی تب تک اسی طرح بیوقوف بنتی رہے گا اپنے
ذہن کی کھڑکیوں کو کھولنا ہوگا بہت ہو گیا سب تماشا کسی کو چور بنا دیا
جاتا ہے اور کسی کو ہیرو اور پھر وہی ہیرو ایک دن چور بن جاتا ہے. انصاف ہو
تو سب کے لئے ایک جیسا ہو یہاں کوئی بھی مکمل طور پر شفاف نہیں ہے مگر کسی
ایک کو کٹہرے میں کھڑا کر دینا اور باقی سب کو معاف کر دینا یا کسی کے ساتھ
ذاتی عناد ہو تو اسے ظلم کا نشانہ بنانا کسی طور پر جائز نہیں۔اگر بات
کرپشن کی کی جائے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر
دیکھنا چاہئے کیا ہم سب کرپشن نہیں کر رہے ،بجلی چوری کرنا،ٹیکس ادا نہ
کرنا یا پھر معاف کر وا لینا ،ملاوٹ کر نا اور دوسرے بہت سے کام جو ہم کرتے
ہیں کیا وہ ٹھیک ہیں جب ہم خود ٹھیک نہیں تو حکمران کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔
ساری بات ایمانداری ،اصول و قواعد کی ہے ،سسٹم کی ہے ہر ادارے کو اپنی اپنی
حدود کا پتہ ہونا چاہیے اور ہر فرد کو اس حد میں رہ کر پوری ایمانداری سے
اپنا کام کرنا چاہیے ،جس کا کام اسی کو ساجے کے تحت دوسروں کے کام میں نکتہ
چینی کرنے اور ہر کام کو متنازعہ بنانے کے بجائے توجہ اپنی زمہ داریوں کی
طرف دینی ہوگی، ورنہ یہ ملک اسی طرح تفریق، انتشار، بے ضابطگیوں اور نفرتوں
کا شکار رہے گا اور اس کا سراسر نقصان اس ملک اور اس کی عوام کو پہنچتا رہے
گا وقت آگیا ہے کہ ہر شخص کو سوچنا ہو گا کہ اس نظام کو سدھارنے میں کیا
کردار ادا کرنا ہے اسے حقائق کو خود جانچنا ہے اور حق و سچ کا ساتھ دینا ہے
خواہ سچ اس کے ناپسندیدہ شخصیت کے حق میں ہی کیوں نہ ہو مگر سچ کو سچ کہنا
ہے جھوٹ کو جھوٹ،اچھے کام کو کھلے دل سے سراہنا ہے اور غلط کو غلط کہنا ہے
.
کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے.
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے صغیروں میں کبیروں میں. |