خواجہ سرا جن کو ٹرانسجینڈر کہا جاتا ہے، اس طبقہ کے ساتھ
معاشرے میں بہت بْرا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ، ان بچارو کو جب ان کے گھر
والے حقوق نہیں دیتے تو معاشرے سے یہ بچارے کیا امید لگا سکتے ہیں ، دنیا
کے مختلف ممالک میں انہیں تیسری جنس تسلیم کرتے ہوئے ان کو عام انسانوں کی
طرح بنیادی حقوق دیے جاتے ہیں ، جہاں ان کو تعلیم صحت اور روزگار باہم دی
جاتی ہے -
جب ایران میں انقلاب آیا تو 1980 میں ایک خواجہ سرا مردانہ لباس پہن کر
سیکورٹی حسار کو کراس کرتے ہوئے سپریم لیڈر خمینی تک پہنچنے میں کامیاب ہو
گئی، جہاں اس نے سپریم لیڈر کو اپنی کمیونٹی کے مسائل سے آگاہ کیا تب ایران
میں اسلامی انقلاب کے بانی خمینی نے خواجہ سرا افراد کی توقیر سے متعلق ایک
فتویٰ دیا تھا، جس کے بعد ایران میں خواجہ سرا کے لیے سرجری کرانے کی راہ
ہموار ہو گئی ، سپریم لیڈر تک پہنچنے والی خواجہ سرا کو سرجری کے بعد سیاہ
عبایا دے کر بطور خاتون کی شناخت تسلیم کی گئی تھی۔
اب ایران میں تھوڑی صورت حال مختلف ہے وہاں اس کمیونٹی کو مسائل درپیش ہیں
، پاکستان میں بھی کافی تعداد میں ٹرانس جینڈر ہیں اور کافی عرصہ سے ٹرانس
جینڈر کمیونٹی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی آئی ہے کیونکہ ان کی شناخت
کو تسلیم نہیں کیا جارہا تھا ‘2012 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں ٹرانس
جینڈر کو تیسری جنس کہلائے جانے کا حق دیا گیا تھا۔ اس سے پہلیان کے شناختی
کارڈ اور دیگر دستاویزات نہیں تھیں ، سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری نے
ان کے شناختی کارڈ بنانے کا فیصلہ دیا تھا اور حالیہ مردم شماری میں خواجہ
سرا کا فارم میں شناخت کا خانہ الگ بنایا گیا۔
الیکشن 2018 میں خواجہ سرا 13 حلقوں میں الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں 2 قومی
اور 11 صوبائی حلقے شامل ہیں ،الیکشن میں حصہ لینے والے خواجہ سراؤں کو کسی
اور جماعت نے ٹکٹ نہیں دیے البتہ عائشہ گالئی کی جماعت نے چند حلقوں میں
خواجہ سراؤں کو ٹکٹ دیے ہیں ، اوکاڑہ کا حلقہ قومی اسمبلی این اے 142 سے
نایاب علی کو عائشہ گالئی کی جماعت نے ٹکٹ دیا ہے اسی طرح پنجاب اسمبلی کے
حلقہ پی پی 26 جہلم سے لبنیٰ لعل اور خیبر پختون کے حلقہ پی کے 40 ہزارہ سے
میڈم رانی گلالئی گروپ کی امیدوار ہیں۔ الیکشن 2018 میں دیگر قومی و صوبائی
حلقوں سے خواجہ سرا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں اسلام آباد کے حلقہ
این اے 53 سے ندیم کشش آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا ہے جن کو
ریڈیو کا نشان الاٹ کیا گیا ہے ، ندیم کشش تحریک انصاف کیسربراہ عمران خان،
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ایم ایم اے کے میاں اسلم کا مقابلہ
ہوگا۔ ندیم کشش کے پاس زیادہ سرمایہ تو نہ سہی لیکن پھر بھی الیکشن کمپین
ڈور ٹو ڈور چلا کر اپنا ووٹ مانگ رہی ہیں اسی طرح خیبر پختونخواہ سے ماریہ
خان مانسہرہ کے صوبائی حلقہ پی کے 31 سے آزادمیدوار کے طور پر الیکشن میں
حصہ لیا ہے
الیکشن لڑنے والے خواجہ سرا بہت پر عزم نظر آتے ہیں، لیکن یہ سیاسی پارٹیوں
سے نظر انداز کیے جانے افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں بھی پارٹی ٹکٹ دیے
جاتے۔ ان کا شکوہ الیکشن کمیشن سے بھی رہا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے کی
فیس تیس ہزار اور صوبائی حلقے کی فیس بیس ہزار ان کے لیے بہت زیادہ تھی اور
یہ فیس معاف ہونے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ایک تو یہ
بے روزگار ہیں جبکہ اتنی زیادہ فیس کی وجہ سے اکثر حلقوں میں الیکشن لڑنے
کے خواہشمند خواجہ سرا فیس زیادہ ہونے کی وجہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ،
ان کا ایک اور بھی شکوہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے نامزدگی کے فارم میں الگ
خانہ ان کے لیے مخصوص نہیں ہے ، ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے
کہ پولنگ اسٹشین پر ان کی لائین الگ ہوگی یا نہیں؟ اور یہ کس پولنگ پر اپنا
ووٹ کاسٹ کریں گے خواتین یا مردوں کے ؟۔ ایسا مسئلہ ان کو ہر جگہ رہتا ہے
نہ ان کو مردوں میں تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی عورتوں میں ، پشاور میں
ایک زخمی خواجہ سرا کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے جب اسے گولی ماری گئی تو اسے
زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیاتو مردوں نے اسے اپنے وارڈ میں داخل نہ ہونے
دیا ایسے ہی خواتین کے وارڈ میں بھی اسے داخل ہونے سے روک دیا آخر کار اس
کی موت ہوگئی -
پاکستان میں خواجہ سراؤں نے پہلی مرتبہ الیکشن میں 2013 کے عام انتخابات
حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات میں کراچی سے بندیا رانی ، جہلم سے ریشم اور
لبنیٰ لال، سرگودھا سے میڈم بھٹو اور سکھر سے صنم فقیر نے حصہ لیا۔ ان میں
سے بیشتر کے کاغذات نامزدگی ہی مسترد ہو گئے اور صرف ایک خواجہ سرا ریشم
انتخابات کے مرحلے تک پہنچ پائیں، تاہم انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو
سکی۔2016 میں جھنگ کے ضمنی انتخابات میں میڈم بھٹو نے حصہ لیا ، تاہم وہ پی
ٹی آئی، پی پی پی اور پی ایم ایل این کے امیدواروں کے مقابلے میں وہ آزاد
امیدوار کی حیثیت سے کھڑی ہوئیں، بھر پور انتخابی مہم چلائی لیکن کامیاب نہ
ہوسکیں۔اسی طرح بلدیاتی انتخابات میں ہری پور سے صائمہ شوکت نامی خواجہ سرا
نے یونین کونسلر کا الیکشن لڑا اور وہ کامیاب بھی ہوئیں۔ یوں وہ پاکستان کی
پہلی ایسی خواجہ سرا بن گئیں جنہوں نے کسی بھی طرح کے انتخابات میں کامیابی
حاصل کی۔
عالمی سطح پر 1990میں امریکہ اور جرمنی میں پہلی مرتبہ تیسری جنس کے حامل
افراد سیاست میں مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ فرانس میں 2001 اور انگلینڈ
میں2002 میں ٹرانس جینڈرز افراد کو سیاسی پذیرائی ملی۔ تعداد کے حوالے سے
امریکہ سرفہرست ہے جہاں بیس ایسے افراد جن کا تعلق ٹرانس جینڈر سے ہے وہ
سیاسی اور حکومتی مشینری میں اہم عہدے حاصل کر چکے ہیں۔
دوسرے نمبر پر تین ممالک آتے ہیں جن میں کینیڈا، انگلینڈ اور بھارت شامل
ہیں۔پڑوسی ملک بھارت میں 1998 میں پہلی مرتبہ ایک خواجہ سرا ریاست مدھیہ
پردیش کی قانون ساز اسمبلی کی رکن بنی۔ اس کے بعد 2000 میں دو اور 2015 میں
ایک خواجہ سرا سرکاری مشینری کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے۔اس کے علاوہ پوری
دنیا میں تعلیم یافتہ اور اہل خواجہ سراؤں کو سرکاری نوکریاں بھی دی جاتی
ہیں بھارت میں اس وقت تین خواجہ سرا جج کے منصب پر کام کر رہے ہیں -
الیکشن 2018 میں ان خواجہ سراؤں کو کتنے ووٹ ملتے ہیں یا کتنے کامیاب رہتے
ہیں اس پتہ 25 جولائی کے بعد لگے گا لیکن سیاسی جماعتوں نے ان کو ٹکٹ نہ دے
کر ایک امتیازی سلوک روا رکھا ہے ، دوسرا فیس زیادہ بھی ان کا مسئلہ تھا
ہمارے ملک میں اس بات کا شعور دینے کی ضرورت ہے کہ خواجہ سرا عام انسانوں
کی طرح انسان ہیں اور ان کو دیگر جنس کی طرح بنیادی حقوق دینے کے ساتھ
معاشرے میں ان کے ساتھ دیگر جنس کی طرح بہتر سلوک روا رکھا جائے ۔ ان کو
الیکشن میں حصہ لینے کے علاوہ براہ راست محضوص نشستوں پر اسمبلوں میں لایا
جائے جہاں یہ اسمبلمی میں پہنچ کر اپنے حقوق کی بات کر سکیں ، آزاد حیثیت
سے بھی الیکشن لڑنے کی اجازت برقرار رہے ، لیکن ان بچاروں کو مہنگی کمپین
چلانے میں آخراجات کا مسئلہ درپیش آئے گا، امید ہے آئندہ حکومت اس بارے سوچ
بچار کرے گی |