ہمارا ان دنوں کا موضوع گفتگو صرف سیاست ہی رہ گئی ہے اور
جو حالات میں دیکھ رہی ہوں انکے مطابق سیاست اب شرفاء کا کام نہیں رہا ۔سیاست
پر گفتگو کرتے وقت ہم اکثر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔دیکھا جائے تو
صرف ہماری حکومتیں یا ہمارے سیاستدان ہی پوری دنیا میں ذلیل نہیں ہو رہے
ہمارئے ہاں ایسے اور بھی بہت سے ادارے ہیں جن میں دل کھول کر من مانیاں کی
جا رہی ہیں...
گورنمنٹ ادارے ہمارےملک کے لیے ایسے ہیں جیسے بچے کےلیے ماں ،جس طرح بچے کی
اچھی پرورش کے لیے ماں دن رات محنت کرتی ہے اسے اچھی اچھی باتیں سیکھاتی ہے
ویسے ہی گورنمنٹ کی محنت ہمارے ملک کو سنوارتی ہے ۔پر غور کیا جائے تو
گورنمنٹ اداروں کا معیار بہت حد تک گِر چُکا ہے اور یہی وجہ ہے امن کا
گہوارہ پاکستان ایک ناکام ریاست کہلاتا ہے ۔میں کچھ باتوں پہ روشنی ڈالتے
ہوئے آج یہ پہلو سامنے رکھوں گی کہ گورمننٹ ہمارے لئے کیا کر رہی ہے۔حکومت
ہمارے لیے سکولز کھولتی ہے جہاں بچوں کو مفت کتابیں ،وردیاں ملتی ہیں۔
اسطرح اولڈ ایج ہومز ہیں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن یہاں پہ جو قابل غور نقطہ
ہے وہ یہ ہے کہ ہم پھر بھی اپنے بچوں کو گورنمنٹ نہیں پرائویٹ سکولز میں
بھیجتے ہیں اور ہمارے لفظ کچھ یوں ہوتے ہیں یہ پرائویٹ ادارہ ہے یہاں ہر
بندہ زمہ دار ہے ،جوابدہ ہے گورنمنٹ میں تو پڑھائی ہی نہیں ہوتی اور
گورنمنٹ کو کون پوچھتا ہے...
کتنی تکلیف دہ بات ہے یہ ہمارے ملک کے لیے ...
اس کہ علاوہ آپ سرکاری ہسپتالوں پہ نظر دوڑا لیں آپ اور بھی زیادہ شرمندگی
کا شکار ہو جائیں گے یہ ہے ملک پاکستان کی سرکار...
وکٹوریا ہسپتال بہاولپور کا بڑا ہسپتال ہے ۔میری ہی آنکھوں کا دیکھا ایک
واقعہ ہے ایک بزرگ خاتون ویٹینگ ایریا میں بیٹھی تھیں اور ہماری ہسپتال کی
نرسیں ادھر ادھر بھاگ بھاگ کہ اپنا کام سر انجام دے رہی تھی۔ ایک نرس اُن
کے پاس سے گزری تو وہ بزرگ خاتون مخاطب ہوئیں بیٹا مجھے پرچی تو مل گئ ہے
کافی دیر سے ادھر ہوں میری بچی سخت بیمار ہے آپ اسکو کب دیکھو گے نرس نے
کہا پلیز جسٹ ویٹ وی آر ایکسٹرملی بزی...
کہہ کر چلی گئی اور وہ تھکن سے چور خاتون پھر بیٹھ گئ وہ نرس پھر گزری اماں
جی نے پھر وہی بات کی نرس نے پرچی بھی واپس لے لی اور اچھا خاصا ڈانٹ کے
کہا جائیں اتنی جلدی ہے تو کسی پرائویٹ ہسپتال میں دیکھا آئیں ۔وہ ضعیف
خاتون حیرانی اور درد بھری نظروں سے اُسے دیکھتی رہی، وہ خاتون تو چلی گئیں
مگر میں اُس منظر کی اذیت سے باہر نہیں نکل سکی.
ہے نا افسوس کی بات اس کے علاوہ آپ پاسپورٹ بنانے والے جو ادارے ہیں انکو
دیکھ لیں ٹھیک ہے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے آپ تھکے ہوتے ہو، پر تھکے تو
وہ بھی ہوتے ہیں جو صبح چھ بجے سے لائن میں لگے کھڑئے ہوتے ہیں ۔کتنا اذیت
ناک منظر ہوتا ہے نا جب دیر سے آئے لوگ 2 ہزار کی رشوت دئے کر اپنا کام
نکلوا کر چلے بھی جاتے ہیں اور لائن میں لگے لوگوں کی باری ہی نہیں آتی۔میں
نے اس ادارے میں بھی بہت بار دیکھا ہے کہباگر کسی بزرگ کو انگوٹھا ٹھیک سے
لگانا نہ آ رہا ہو یا پھر کسی مزدور کے مٹی والے ہاتھ ہوں تو اُسے اچھا
خاصا زلیل کیا جاتا ہے...
کہ ھاتھ صاف کر کے نہیں آ سکتے وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی طرح کا ہمارہ ایک
ادارہ ہے نادرا کا وہاں کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں...
اسی طرح چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا ادارہ ہماری نظروں میں غیر معیاری
ہے..
لیکن حیرانی تو تب ہوتی ہے جب اتنا سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی جب ملازمت کی
بات آتی ہے تو نوکری ہمیں سرکاری چاہیے یہ کیا سلسلہ ہے یہ کیسا دوغلہ پن
ہے یہ آخر ہے کیا عوام غلط ہے یا حکمران یا فوج آخر کون ہے زمہ دار ان سارے
حالات کا...
کون... میں تو نہیں سمجھ پا رہی...
افراتفری اور جہالت کا ایک سیلاب ہماری ثقافت تہذیب کو ڈبو رہا ہے اور ہم
خاموشی سے تماش بین بنے ہوئے ہیں
ہمارے معاشرے کی تصویر کا ایک اور رُخ میں آپ کے سامنے لانا چاہوں گی
جب کتابیں سڑک کنارے اور جوتے کانچ کے شوروم میں پاۓ جائیں......
تو سمجھ لیں که لوگوں کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ھے.........
ارے لوگو میرے ہم وطنو سوچو تو سہی ایک وقت تھا
50سال قبل پاکستان نے جرمنی جیسے ملک کو 12کروڑ روپے قرضہ دیا تھا تاکہ وہ
ترقی کرسکیں....
60کی دہائی میں چینی وفد پاکستان کے دورے پر آیا تو حبیب بینک پلازہ دیکھ
کر حیران رہ گیا۔
دنیا کا قرضہ دینے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر شہری سوا لاکھ
پاکستانی روپے سے زائد کا مقروض ہوگیا ہے اب اس ملک کا پیدا ہونے والا ہر
بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے.....
آخر کیوں.....
کون زمہ دار عوام یا حکمران..... |