تحریر: طیبہ شیریں، راولپنڈی
حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمہ اﷲ نے فرمایا تھا کہ
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست اور سیاسی معاملات میں بالخصوص ایک اسلامی
نظریاتی ریاست پاکستان میں دین کو مقدم رکھا جائے گا۔ اگر دینی تعلیمات اور
اخلاقیات کو بھلا دیا جائے تو یقینا انگیزیت باقی رہ جاتی ہے۔ قیام پاکستان
کا مقصد ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست تھی جہاں دین کو تمام معاملات میں
پیشوا بنا کر پرامن زندگی گزارنے کے لیے ایک آئیڈیل ریاست کا نمونہ دنیا کے
سامنے پیش کیا جائے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد اس مقصد کو رفتہ رفتہ بھلادیا
گیا۔ جس کے بعد ملکی سیاست میں دینی سیاسی جماعتوں کے لیے راہ کھلنے لگی۔
اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے دینی سیاسی جماعتیں موجود تھیں، مگر ان کی حالت
آج کی سیاسی اور دینی جماعتوں سے بالکل مختلف تھی۔۔۔
مگر ایک جماعت جو ملی مسلم لیگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس دینی جماعت کے صدر
جو اپنے اندر کچھ کر سکنے کا حوصلہ قوت رکھتے ہیں ہمیں ایک موقع ان کو بھی
دے کر دیکھ لینا چاہیے نا۔ ہم ہر بار ایک نئے حکمران کو یہ سوچ کر چنتے ہیں
کہ شاید یہ ملک کا نظام بدل دے گا، قرض اتارے گا، یہ ہمیں صاف پانی مہیا
کرے گا، مہنگائی ختم کرے گا،تعلیم سستی کرے گا اور کرپشن کو ختم کرے گا۔
پانچ سال گزر جانے کے بعد ہم جب بھی پیچھے دیکھتے ہیں تو پاکستان پستی کی
حالت میں گرا نظر آتا ہے اور ہم حکمران کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ مگر اگر
سوچا اور دیکھا جائے تو سب سے بڑے قصوروار ہم خود ہیں۔
اگر ملکی مسائل کو جہاں تک ممکن ہے ہم خود ٹھیک کرنے کی کوشش کریں اور ایسے
لوگوں کو حکمران چنیں جو اس کا حق رکھتے ہوں تو ہمارا ملک ترقی کی جانب
گامزان ہوسکتا۔ آپ خود اس بات کو سوچے کہ اگر ایک ہمارا ملک جس کی بنیاد ہی
اسلام پہ اور اسلامی اصولوں پہ رکھی گی ہے تو اس پہ حکومت کرنے والا بھی
ایک سچا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ حافظ محمد سعید ایک ایسے ہی عالم دین ہیں کہ
جن کی جماعت نے ہمیشہ ملک میں امن وامان اور باہمی اتحاد کی بات کی۔
پھر حالات آڑھے ٹیڑھے آئے تو انہوں نے خدمت کی وہ مثالیں قائم کیں کہ جنہیں
اپنے کیا پرائے بھی ماننے پر مجبور تھے۔ کشمیر پر ان کی جدوجہد سے تو آج تک
بھارت بھی خوف زدہ ہے۔ کشمیری پاکستانی عوام ہے ان کی حالت آج بھی سب کے
سامنے ہیں۔ اگر کشمیر کے مسئلے کو دیکھا جائے تو اتنے عرصے سے حل نہیں ہوا۔
جو بھی حکومت آئی اس نے صرف دورے کیے اور چند باتیں اور مسئلہ کشمیر وہی کا
وہی رہ جاتا ہے۔ کوئی بھی حکمران اس مسئلے کو ایمانداری سے حل کرنے کے بارے
میں سوچتا ہی نہیں۔
پاکستان کے اندر آج بھی ہزاروں کی تعداد میں مختلف جماعتیں موجود ہیں۔ جو
اسلام کے نام پہ جان دے سکتیں ہیں مگر اسلامی احکامات پہ نہیں چل سکتی۔ جو
قوم خدا تعالیٰ کی حاکمیت اور نظام مصطفی کے لیے خدا کی ایک رسی کو مضبوطی
سے نہیں تھام سکتی وہ کیسے اتحادو اتفاق سے رہ سکتی ہیں۔
آج بھی وقت ہے سوچیں جس ملک کہ آپ رہنے والے ہیں وہ ایک اسلامی ملک ہیں تو
اس کا حکمران بھی حقیقی معنوں میں صادق اور امین قیادت کو ووٹ دیں۔ ایسے
لوگوں کے ہاتھوں میں حکمرانی کی باگ ڈور دی جائے جو اہلیت بھی رکھتے ہوں۔
کرپٹ اور بدعنوان لوگوں نے تو ملک کا بیڑ ا غرق کردیا ہے۔
بابائے قوم قائداعظم نے مسلمانوں کو ایک الگ اسلامی ریاست کیوں لے دی تھی
کہ وہاں سب مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرے مگر یہ ملک مزید
غلامی کی زنجیروں میں چکڑ چکا ہے۔ ملی مسلم لیگ کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے
کہ وہ مسلمانوں کو اس غلامی سے نجات دلائے اور جیسا ملک قائد نے سوچا تھا
وہ اس ملک کو ویسا ہی بنائے۔جہاں ہم اتنے حکمران کو آزما چکے ہیں اور سب کا
مقصد ایک ہی لگا ہمیں تو کیوں نہ ایک موقع ہم اسلامی جماعتوں کو دیں۔ اگر
ہم سب مل کر یقین اور اعتماد سے ایک خدا کی رسی کو تھام لیں تو یقینا ہم
کامیاب و کامران ہوسکتے ہیں۔
آج بھی موقع ہے کہ ہم خود کو بدلیں اور اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔
ایک سچے مسلمان کو ووٹ دیں۔ یہ ووٹ آپ کا حق ہے اس کو سوچ سمجھ کر استعمال
کریں ۔نہ صرف آپ کا فائدہ بلکہ آپ کی آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ ہوگا۔عقل
سے کام لیں حق اور باطل کو اپنا معیار سمجھیں دنیا کی رنگینیاں اور مصلحتیں
کہیں روشنی سے اندھیروں تک کا سفر نہ بن جائیں۔ کہیں ہم بھی دوسری جماعتوں
کی طرح اپنے اہداف کو بھول کر اپنے مفاد کی جنگ میں الجھ نہ جائیں۔پھر
قیامت کے دن ہم خالی ہاتھ رب کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ |