تحریر: مریم صدیقی، کراچی
لگی ہے پھر صدا ایک بار کہ سردار بدلے گا
فرعونی سلطنت کا بس اک کردار بدلیگا
جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو
وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا
الیکشن امید نو، ترقی کی جانب نئے سفر کی شروعات یا پھر وہی 70 سالہ سیاست،
وہی دعوے وہی منشور، وہی کرپشن، یا یہ الیکشن پاکستانی تاریخ کو ایک نیا
موڑ دیں گے، جہاں سابقہ قیادتیں سرگرم نظر آرہی ہیں وہیں نئی قیادتیں عملی
میدان میں آنے کو پرتول رہی ہیں۔ ایک بار پھر تبدیلی کی امید اور ترقی
یافتہ پاکستان کی منظر کشی کی جارہی ہے۔ ہر ایک خود کو برتر ثابت کرنے کے
لیے دوسروں کو پیروں تلے روندنے کے لیے تیار ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے
کی غرض سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے جارہے ہیں۔ کیا یہی اطوار ہوتے ہیں
مہذب اقوام کے؟ کیا یہی تعبیر ہے اقبال کے خواب کی؟ کیا یہی ثمر ہے قائد کی
محنت کا کیا یہی صلہ ہے آزادی پاکستان کے شہداء کے خون کا؟ یہ تو احوال ہیں
سیاسی لیڈروں اور ان کے کارکنان کے لیکن بحیثیت عوام ہم بے حسی کی چادر تان
کر سوئے ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا غرض کون بے روزگاری کا شکار ہے، کون مفلسی کے
باعث خودکشی کرنے پر مجبور، ہم نہ ہی اقبال کے شاہیں بن پائے نہ ہی قائد کا
مستقبل کا معمار اور نہ ہی پاکستانی، ہم تو فقط مہاجر، سندھی، پنجابی،
بلوچی اور پٹھان بن کر رہ گئے ہیں ہم تو صحیح طور سے مسلمان بھی نہ بن پائے
ہم تو اسلام بھی اپنا کہیں دور چھوڑ آئے ہیں۔ ہم پاکستان کے حصول کا مقصد
تک فراموش کرچکے ہیں، ہمارے ذہن سے وہ لاکھوں جانوں کی قربانیاں بھی محو
ہوچکی ہیں جو پاکستان حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے دی، ہم انہیں بھی بھلاچکے
ہیں جنہوں نے اس وطن کی اپنے خون سے آبیاری کی تھی، سب کچھ لٹاچکے ہیں اور
ملال بھی نہیں ہے۔
ابھی بھی وقت ہاتھوں سے نکلا نہیں ہے، یہ فرد واحد کی نہ ہی ذمہ داری ہے
اور نہ ہی کسی ایک شخص کے ووٹ سے ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے، یہ کایا
تب ہی پلٹے گی جب ایک جھنڈے تلے جمع ہوکر ہم حکمران کا انتخاب کریں گے، جب
سندھی بلوچی پنجابی پٹھان نہیں پاکستانی بن کر پاکستان کے حق میں سوچیں گے،
جب کسی پارٹی یا کسی لیڈر کے لیے نہیں پاکستان کے لیے ایک پاکستانی بن کر
ووٹ ڈالیں گے، من حیث القوم یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے اور ملک پاکستان کا
اس پر قرض ہے کہ وہ ووٹ ڈال کر ایسے شخص کا انتخاب کرے جو پاکستان کی باگ
ڈور سنبھالے تو پاکستان سے مخلص ہو، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح
دے، اپنے اختیارات کا استعمال کرے تو ملکی مفاد کی خاطر، اگر ہمیں لگتا ہے
کہ ابھی ایسا کوئی مرد مجاہد ہے پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ مخلص ہے
تو اپنا ووٹ اسے ضرور دیجیے۔ اپنے ووٹ کو لسانیات، رنگ و نسل، جھوٹے وعدوں
کی نذر مت کیجیے، گھروں میں بیٹھ کر تبصرہ کرنے اور حکام بالا کو برا بھلا
کہہ کر چین کی نیند سونے کے بجائے گھر سے نکلیں اور اپنا حصہ ڈالیں، اپنے
پاکستانی ہونے کا فرض ادا کریں، آج پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے اگر پاکستان
میں تبدیلی کے حصول کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنی ذات سے شروعات کرنی ہوگی کہ
معاشرے کا سدھار فقط اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنا کردار ادا کرے۔ گفتار
کا غازی بننے کے بجائے کردارکا غازی بنے، عملی طور پر الیکشن کا حصہ بن کر
پاکستانی ہونے کا حق ادا کرے۔
جب بات تبدیلی کی ہوتی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس
ہوئی اور کس سطح پر؟ ملکی و قومی سطح پر یا نجی سطح پر؟ ملک و قوم میں
تبدیلی کیسے لائی جاسکتی ہے تو اس کا ایک ہی جواب سمجھ آتا ہے کہ تبدیلی کی
ضرورت ذاتی سطح پر ہے، ملک و قوم معاشرے سے مل کر وجود میں آتی ہے اور
معاشرہ کو افراد تشکیل دیتے ہیں، جب ہر فرد اپنی ذمہ داری خوش اسلوبی سے
نبھائے گا، پاکستانی ہونے کی حیثیت سے لاگو ہونے والے تمام ملکی قوانین پر
عمل پیرا ہوگا، جب زبان رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کو فوقیت دینے کے بجائے
اس کے عمل اور کردارکو ترجیح دی جائے گی تبدیلی ازخود محسوس ہوگی، دیر ہے
تو فقط عملی طور پر آغاز کرنے کی، پہلا قدم بڑھانے کی، یہ قدم بڑھانے کے
لیے کسی کا انتظار کرنے کے بجائے خود قدم بڑھائیں، اس روشنی کو اپنے گھر سے
پھیلانے کا آغاز کریں، اپنے قیمتی ووٹ کو ضائع کرنے کے بجائے اس کی اہمیت
کو سمجھیں اور اپنے لیے، اپنے پاکستان کے لیے ایسے شخص کو منتخب کریں جو
پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنادے، جو پاکستان کو صرف پاکستان نہ رہنے
دے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بنادے، جو بیروزگاری، غربت ، افلاس،
مہنگائی، کرپشن ختم کرنے کے دعوے نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کرکے دکھائے،
اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیجیے کیونکہ خدا بھی فقط اس قوم کی حالت بدلتا
ہے جو خود اپنی حالت بدلنا چاہتی ہے جو جہالت کے عمیق گڑھے سے نکل کر علم
کی طرف سفر کرنے کی خواہش رکھتی ہے جو اپنا ووٹ چند وعدوں کے عوض ہرگز نہیں
بیچتی ۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو |