پاکستان اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آج عام
انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ۔اس حوالہ آج صبح 8بجے سے شام6بجے تک بلاتعطل
ووٹنگ ہوگی۔اس اسمبلی میں 90 سے زائد سیاسی جماعتیں جبکہ کئی آزاد امیدوار
قومی وصوبائی اسمبلی کے لیے قسمت آزامائی کریں گئے۔کون فاتح ہوگا کس کے سر
حکمرانی کا تاج سجے گا فیصلہ کریں گئے ملک کے 10کروڑ59لاکھ55ہزار409لوگ
فیصلہ کریں گئے کہ کون بنے ان کا حکمران۔اس حوالہ سے ایک جائزہ قارئین کرام
کی نظر اس دفعہ تحریک انصاف پر امید نظر آتی اور ان کا خیال ہے کہ اگر
عالمی سازش نہ ہوئی تو وہ واضح پوزیشن حاصل کر لیں گئے ابھی تک تحریک انصاف
نے سب کچھ ٹھیک قرار دیا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دفعہ الیکشن فری اینڈ
فئیر ہوں گئے ۔تحریک انصاف نے اپنی مہم کا مرکز و محور نوازشریف کی سزا اور
ن لیگ کے لوگوں کا جیلوں میں جانا ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور عمران
خان کرپٹ لوگوں کے خلاف آواز بلند کی اور کسی مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے
طاقت ورں کو جیل ڈالنے میں کردار اد اکیا ۔انہوں نے کے پی کے میں پولیس کی
کارگردگی بتائی اور ایک ارب درخت بھی کارگردگی میں دیکھائے۔الیکشن مہم کے
دوران تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے مخالفین کے لیے سخت اور غیر
شائستہ زبان کا ستعمال بھی کیا جس پر الیکشن کمیشن نے تین بار نوٹس بھی لیا
۔اسی دوران تحریک انصاف کو سابق صوبائی وزیر اکرام گنڈاپور کی موت کا صدمہ
بھی اٹھانا پڑا خان کو ریحام خان کی کتاب کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں کئی
انکشافات کیے گئے خان کی ذاتی زندگی پر۔جبکہ ن لیگ اور پپلزپارٹی انتخابات
اور نگران سیٹ اپ پر بھی انگلی اٹھاتے نظر آتے ہیں جبکہ ن لیگ کا ایک اور
الزام بھی ہے کہ ان کو آزادانہ الیکشن لڑنے کا موقع فراہم نہیں کیا جارہا
اور ان کی قیادت سمیت مضبوط امیدواروں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا
جارہا اسٹبلشمنٹ ادارے ان کے خلاف ہیں اور اس پر ان کی دلیل ایک تو ان کی
قیادت سمیت مضبوط امیدواروں کو پکڑا جارہا احتساب کے نام پر ہمارے ساتھ
انتقام ہو رہا ہے یہاں تک ہمارے کئی رہنماوں کوزبردستی ایجنسیوں کے دباو پر
وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔جبکہ تقریبا 54فیصد لگی رہنما جو
پچھلی حکومت میں بھی رہے ہیں انہوں نے اس دفعہ پارٹیاں بدلی ہیں ۔جبکہ ن
لیگ کا دعوا ہے کہ اگر عوام کے ووٹ پر فیصلہ کیا گیا اور خلائی مخلو ق نے
کاروائی نہ کی تو ن لیگ اپنی کارگردگی کی بنیاد پر پھر اقتدار میں ہوگی۔ن
لیگ نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے اور اپنی ایک رپورٹ کامن ویلتھ
الیکشن مبصر گروپ کو بھی دی گئی جس میں ن لیگ نے الزام لگایا کہ ان
انتخابات میں ن لیگ کو موقع فراہم نہیں کیا اور کرپشن کا الزام ثابت ہونے
کے بغیر ہی ان کی جماعت کے سربراہ میاں محمد نوازشریف کو سزا دی گئی جس
انتخابات متنازعہ ہورہے اسلام آباد میں ن لیگ کے سنیٹر مشاہد حسین سید نے
اسلام آباد میں اس مبصر گروپ کو بریفنگ بھی دی۔پاکستان پپلزپارٹی جس کا
دعوا ہے کہ وہ وفاق کی نمائندہ جماعت جبکہ بینظیر کے قتل اور آصف زرداری کی
سربراہی کے بعد پپلزپارٹی سندھ تک ہی محدود ہے گو کہ بے نظیرکے قتل کے بعد
پپلزپارٹی نے ہمدردی کاووٹ حاصل کیالیکن وفاق میں واضح اکثریت سے حکومت نہ
بنا سکے اس دفعہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے بلاول بھٹو ں ے پپلزپارٹی میں
قدرے جان ضرور ڈالی ہے لیکن پپلزپارٹی اقتدار کے ایوانوں سے دور نظر آتی
ہے۔بلاول بھٹو نے اس دفعہ بھرپور انداز سے الیکشن مہم چلائی اور لوگوں تک
اپنا پیغام بھی پہنچایا بلاول پر بھی مختلف مقامات پر مشکلات کا سامنا کرنا
پڑا کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں بھی پپلزپارٹی میں بہتری آئی اور اس دفعہ
مقابلہ میں شامل ہے۔مختلف دینی جماعتوں نے بھی ان انتخابات میں ایک اتحاد
قائم کیا جس کی قیادت سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان کررہے ہیں جو کہ
پچھلے الیکشن میں ایک دوسرے کے مخالف بھی تھے۔مولانا فضل الرحمان جو کے ہر
دور میں اقتدار کا حصہ ہوا کرتے ہیں پچھلی بار وہ ن لیگ کے بڑے حامی تھے
اور ن لیگ کیساتھ ملکر اقتدار میں حصہ دار تھے اور ن لیگ کی حکومت کے خاتمہ
سے کچھ دن قبل تک وہ ان کیساتھ رہے اور انہوں نے ہر فورم میں ن لیگ کا
بھرپور دفاع بھی کیا جبکہ سراج الحق کا انداز سیاست سمجھ سے بالاتر ہے خیبر
پختوان خواہ میں وہ عمران خان کے حامی تھے اور صوبہ میں تحریک انصاف کی
حکومت کے خاتمہ سے تھوڑے دن قبل حکومت سے علیحدگی اختیار کی جماعت اسلامی
نے مرکز میں سینٹ الیکشن میں ن لیگ کو وٹ کیا جبکہ مختلف مواقعوں میں انہوں
نے اندورن خانہ ن لیگ کو وٹ کیا جس ہر ایک بار عمران خان کو کہنا پڑا کہ
جماعت اسلامی ایک طرف کھیلے اب دیکھنا ہے کہ عوام اس مذہبی اتحاد کو کتنی
پذیرائی دیتے جن کے کہیں نا کہیں قول وفعل میں تضاد نظر آتا ۔اس دفعہ ایک
اور نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی جو کہ ایم کیوایم کے بطن سے جنم لیا وہ بھی
مقابلہ میں موجود ہے جبکہ پی ایس پی کا کہنا ہے کہ وہ ایک درجن کے لگ بھگ
وفاق میں سیٹیں جیتیں گئے جبکہ صوبہ سندھ اکثریت کا دعوا کرتی ہے اسی طرح
صوبائی جماعتیں بھی قسمت آزامائی میں مصروف ہیں۔اس دفعہ تجزیہ نگاروں کا
کہنا ہے کہ ن لیگ کا گھڑ پنجاب میں بھی اس دفعہ سخت مقابلہ اور ہر جماعت کا
زور پنجاب پر ہے کیوں پنجاب میں اکثریت لینے والاوفاق میں بھی اکثریت لے
سکتا ہے۔اس دفعہ ایک اور قابل ذکر بات ہے کہ ایم ایم اے کے علاوہ ایک اور
نئی دینی جماعت تحریک لبیک کے نام سے انتخابات میں حصہ لے رہی جبکہ اس
جماعت کے آنے سے پنجاب میں ایک بہت بڑا ووٹ بنک نھی متاثر ہوسکتا ہے جو کہ
ن لیگ کا تھا اور ایک اور بات بھی کی جاررہی ہے کہ ن لیگ کیخلاف بے درپے
عدالتی فیصلوں اور ن لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف کا بیٹی سمیت جیل میں
جانا ن لیگ کے ہمدردی کے ووٹ میں بھی اضافہ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
پاکستان کے ان انتخابات میں 90سے زائد چھوٹی بڑی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ۔الیکشن
کمیشن کے مطابق الیکشن 2018میں 10کروڑ59لاکھ55ہزار409 رجسٹرڈ ووٹر حق رائے
دہی میں حصہ لیں گئے جبکہ ان ووٹروں میں 43فیصد نوجوان جن کی عمریں 18سے
35سال ہیں ۔پولنگ کا وقت صبح 8بجے سے شام 6بجے تک ہوگا جبکہ ووٹروں کو قومی
اسمبلی کے لیے سبز بیلٹ پیپر اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے سفید بیلٹ پیپر
استعمال کیا جائے گا ۔قومی اسمبلی کی 272نشستوں میں سے دو پر انتخابات
ملتوی کیے گئے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 577نشستوں میں سے 6نشستوں میں
الیکشن ملتوی کیے گئے اور ایک نشست میں میں ایک امیدوار بلامقابلہ منتخب
ہوچکا ہے۔جبکہ ان ووٹروں میں 36لاکھ30ہزار غیر مسلم بھی ان انتخابات میں
اپنی رائے کا اظہار کریں گئے۔الیکشن کمیشن کی حتمی لسٹ کے مطابق ساڑھے بارہ
ہزار امیدوار ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ملک کی بڑی جماعتوں ن لیگ نے
200امیدوار تحریک انصاف نے 246،پی پی نے 228،متحدہ مجلس عمل نے ایک سو جبکہ
تحریک لبیک کے 165امیدوار جبکہ دیگر جماعتوں نے بھی اس طرح امیدوار کھڑے
کیے ہیں۔تاہم ان امیدواروں میں سے کچھ جماعتوں کے امیدواروں نے اپنے ٹکٹ
واپس کیے ہیں اور کچھ نے ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں اور کچھ
آزاد حثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان میں سے کچھ حلقوں میں
انتخابات ملتوی بھی ہوئے ہیں۔اس دفعہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے
صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے فول پروف انتظامات کیے ہیں۔اور عوام کو
ان کا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پورے ملک میں 85ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز قائم
کیے گئے ان پولنگ سٹیشنز میں سے 17ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز کو حساس اور
انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز میں تقسیم کیا گیا جس میں سکیورٹی کے فول پروف
انتظامات کیے گئے ہیں ۔ملک بھر میں انتخابات کو پرامن شفاف اور منصفانہ
بنانے کے لیے 3لاکھ71ہزار فوجی جوان تعینات کیے ہیں جبکہ 4لاکھ پولیس
اہلکاروں سمیت 16لاکھ انتخابی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔اس دفعہ پولنگ سٹیشنز
کے اندر اور باہر پاک فوج کے دو دو نوجوان تعینات ہوں گئے جبکہ حساس مقامات
پر سیکورٹی کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں یاد رہے کہ ان انتخابات میں انتخابی
مہم کے ددوران تحریک انصاف اے این پی اور بی اے پی کے ایک ایک صوبائی
امیدواروں کا سمیت ایک سو سے زائد قیمتی جانیں دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔اب
دیکھنا ہے کہ یہ انتخابات انعقاد کے بعد کتنے شفاف ہوں گئے اور عالمی
مبصرین ان انتخابات پر کیا رائے دیں گئے اور عوام کس کو اپنا نمائندہ منتخب
کررہی ہے یہ آج اور کچھ دنوں میں معلوم ہوجائے گا۔
انتخابات 2018میں تقریبا ڈیڑھ ماہ الیکشن مہم چلائی اور اپنا اپنا منشور
پیش کیا اور ہر بار کی طرح اس بار بھی ہر جماعت نے اپنا اپنا منشور بڑھ چڑھ
کر پیش کیا اور خود کو ملک کے لیے ضروری قرار دیا کون کتنا اپنے منشور پر
عمل کرے گا اور عوام کس پر اعتماد کرتے ہیں اس کا فیصلہ آج پاکستانی کریں
گئے۔تاہم پاکستانی قوم کے پاس یہ وقت ہے کہ وہ اپنی رائے دیں اور کل کے
رونے سے بہتر ہے کہ آج نکلیں اور کل لیڈروں کو سنے کے بجائے ان کا فیصلہ
کریں زیادہ سے زیادہ نکلیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں اور اپنا حکمران
چنیں ورنہ کل کا پچھتاوا آپ کے کسی کام کا نہیں رہے گاووٹ دے کر قیمتی قومی
فریضہ ادا کریں - |