وطن عزیز میں حالیہ انتخابات کے ابتدائی مراحل اختتام تک
پہنچ چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی
البتہ ہم خیال اراکین کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف کی حکومت بنانے کیلئے جوڑ
توڑ جاری ہے۔ متوقع وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کامیاب
ہونے کے بعد پہلی مرتبہ قوم سے غیر رسمی خطاب کیا ہے۔ ان کی اس تقریر کو
ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں خوب پزیرائی ملی بلکہ انڈین چینلز نے بھی
اسے لائیو دکھایا۔ سادہ لباس میں ملبوس، نرم لہجے میں ان کی گفتگو کا ہر ہر
جملہ ایسے لگ رہاتھا جیسے ایک ایک زخم پر مرہم رکھ رہے ہوں۔ جہاں تک وعدوں
کا تعلق ہے وہ تو ہماری قوم نے بہت سنے۔ جمہوریت ہو یا آمریت ہر آنے والے
نے سہانے خواب دکھائے۔ قوم نے بھرپور اعتماد کیا البتہ آج تک کوئی ایک
حکمران بھی قوم کی امیدوں پر پورا اتر کر اس ملک کے معرض وجود میں آنے کے
حقیقی مقصدکو پورا نہ کر سکا۔ عام آدمی کے مسائل حل کر کے انہیں روزگار،
بچوں کی تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں نہیں دے سکا۔ بلکہ اکثر تو ایسا
ہوا کہ اگلے حکمران کی وعدہ خلافیوں ، بد عنوانیوں اور بے ہنگم پالیسیوں کی
وجہ سے پچھلا اچھا لگنے لگ جاتا ہے کہ چلو پہلاجیسا بھی تھا اس سے تو بہتر
تھا۔ یہی کچھ کرتے کراتے آج غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور علاج معالجے کی
سہولتوں کی عدم دستیابی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ خان صاحب کے
دل خوش کن وعدے بجا لیکن یاد رکھیں کہ یہ وعدے ان کی حکومت کیلئے ایک بہت
بڑا چیلنج ہوں گے۔ قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ لوگوں نے ان سے بہت سی
توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں۔ خصوصا نوجوان طبقہ اس حوالے سے بہت جذباتی ہے۔
اگر اب بھی حسب سابق وعدے ہوا میں اڑ گئے اورتبدیلی کی ہواؤں کا رخ بدل گیا
تو یہ کسی سانحہ سے کم نہیں ہوگا ۔ خان صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ حلف
اٹھانے کے بعد ان تمام وعدوں کی لسٹ اپنے دفتر میں آویزاں کر لینا۔ کبھی
کبھی اپنی اس ’’وکٹری تقریر ‘‘کو سن بھی لیا کرنا۔ ہر روز جائزہ لینا کہ کن
وعدوں کی وفا کی طرف آپ گامزن ہیں اور کون سے ابھی آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔
ماضی میں عبرت کے بہت سے تازیانے دیکھ کر یہ بات تو ہر ایک کی سمجھ میں آہی
گئی ہے کہ حقیقی عزت و وقار مسند اقتدار کے مزے لوٹنے اور دنیا کا مال و
متاع اکٹھا کرنے میں نہیں بلکہ حسن نیت ، حسن عمل اور خدمت خلق کے نتیجے
میں یہ اﷲ کی عطا ہے۔خان صاحب! جوانی میں آپ کی کپتانی میں پاکستان کو کرکٹ
کا ورلڈ کپ ملا۔ اسی نے آپ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ آپ نے اس شہرت
کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے صحت و تعلیم
کے اعلی ترین ادارے بنا دیے۔ اب عمر کے اس حصے میں آپ کو یہ موقع ملا ہے کہ
دنیا کے نقشے پر پاکستان کو حقیقی ’’ اسلامی فلاحی ریاست‘‘ کا اعزاز
دلوادیں۔ سبز ہلالی پرچم اور پاکستانی پاسپورٹ کی عزت و وقار کو بحال کردیں۔
آپ کے یہ وعدے لوگوں کے دلوں کی آواز ہیں کہ آپ نے کہا ’’ مدینہ طیبہ کی
اسلامی فلاحی ریاست کی طرز پر ا یسا حکومتی نظام لاؤں گا جو بہتری لائے۔
سادگی اختیار کروں گا۔ میں بھی اس ملک کا ایک فرد ہوں مجھے ٹیکس کے پیسے سے
عیاشی نہیں کرنی ۔ ملک میں احتساب کا نظام مضبوط ہوگا جو مجھ سے اور میرے
وزیروں سے شروع ہوتا ہوا نیچے جائیگا۔ کرپشن نے کینسر کی طرح ہمارے ملک کو
نقصان پہنچایا ہے ۔ قوم کے ٹیکس کے پیسے کی حفاظت کروں گا ۔ عیاشیوں کا دور
ختم کرکے سادگی اپنائیں گے۔ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بناؤں گا۔
اپنے ادارے خود مضبوط کرنے ہیں۔ ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کروں گا۔ مزدور
طبقے کو آگے لانے کیلئے اقدامات کروں گا۔آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے
ہو تو اس میں شاہانہ طرز زندگی زیب نہیں دیتا ۔شان و شوکت اور عیش و عشرت
پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جائے گا۔ہماری پالیسیاں اشرافیہ کیلئے نہیں
بلکہ ملک کے نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کیلئے بنیں گی۔ وزیر اعظم ہاؤس میں
نہیں رہوں گا اپنے لئے منسٹرز کالونی میں چھوٹی سی جگہ لوں گا۔پی ایم ہاؤس
کو بطور تعلیمی ادارہ استعمال کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی طرف
توجہ دیں گے۔ اپنی خارجہ پالیسی بہتر بنا کر اپنے ہمسایہ ممالک سے خوشگوار
تعلقات وابستہ کریں گے‘‘ ۔ پوری قوم کی نظریں اب خان صاحب کے کیے گئے ان
وعدوں کی پاسدار ی پر ہیں۔ان سارے وعدوں کے ساتھ ساتھ ایک گزارش یہ بھی ہے
کہ وطن عزیز کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کر نے کیلئے نظام تعلیم کی
بہتری از حد ضروری ہے۔ کسی بھی قوم کی نسل نو کی تعلیم و تربیت کیلئے
بنیادی ترجیح ان کا نصاب تعلیم ہوتا ہے۔ پچھلے اکہتر سالوں میں اس طرف توجہ
نہیں دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ کہ آج ہمارے ہاں طبقاتی نظام تعلیم ہے۔ غریب
اور امیر کیلئے معیار تعلیم الگ الگ ہے۔ آج تک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘
میں کسی حکومت نے دینی اور عصری علوم کے حسین امتزاج کی ملکی سطح پر کامیاب
کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی و مذہبی طبقات میں آج تک قومی سطح پر
فکری ہم آہنگی نہ پیدا ہوسکی بلکہ ہم ایک قوم بننے کی بجائے ٹکڑوں میں بٹے
ہجوم کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں پہلی
ترجیح تعلیم ہے جبکہ ہمارے ہاں سرکاری سکولوں میں نظام تعلیم کا معیار بہت
ہی پست ہے۔ مجبور ہو کر لوگ بھاری فیسیں ادا کر کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں
میں بچوں کو داخل کراتے ہیں۔ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے تعلیم ایک
بڑا کارو بار بن چکا ہے۔نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دی نہیں جاتی بلکہ سر
بازار مہنگے داموں بیچی جاتی ہے۔ ملک میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ پڑھے
لکھے لوگوں کو اچھی ملازمت یا کارو بار کے مواقع نہیں ملتے تو وہ نجی
تعلیمی ادارہ بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلی کوچوں میں ہر طرف نجی سکولوں،
کالجوں اور اکیڈمیز کے دلکش بورڈ آویزاں ہیں۔ جس کے پاس جتنی مالی وسعت ہے
وہ ایسی ہی تعلیم اپنے بچوں کیلئے خرید سکتا ہے۔ یکساں نظام تعلیم اور جامع
نصاب تعلیم ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ترکی کا دینی و عصری
علوم کا وہ نظامِ تعلیم آئیڈیل ہے جس سے فارغ التحصیل ہو کر(حافظ و قاری)
طیب اووردگان صدارت کے عہدے پر متمکن ہے۔ جہاں تک ترقی اور خوشحالی کاتعلق
ہے تو یہ کوئی ان ہونی بات نہیں بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے کئی ممالک میں
بد حالی، خوشحالی میں تبدیل ہوئی ہے۔ قدرت نے ہمارے ملک کو ہر طرح کی
نعمتوں سے نوازا ہے۔ہم اپنے وسائل پر خود انحصاری کرکے ترقی کی منزلوں تک
پہنچ سکتے ہیں۔ بلوچستان سوئی گیس سمیت معدنی وسائل سے بھرپور ہے۔سونا
اگلنے والی زرخیز زمینیں ہیں۔کسانوں کو سہولیات مہا کرکے کثیر مقدار میں
ملکی پیداوار برآمد کی جا سکتی ہے۔ لوگ محنتی اور جفا کش ہیں۔ نوجوان
باصلاحیت اور ٹیلینٹڈ ہیں۔ آج تک اگر کمی رہی ہے تو فعال اور دیانتدار
قیادت کی۔ زندگی امیدوں پر قائم ہے اسی لئے ہم مایوس نہیں۔ چند دنوں کی بات
ہے دیکھیں کہ تبدیلی کی ہوائیں کون سا رخ اختیار کرتی ہیں اور عوام کے دکھ
درد کے مداوے کیلئے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کا کیا بنتا ہے۔ |