کچھ لوگ قسمت کے معاملے میں انتہائی امیر ہوتے ہیں،قسمت
کے دھنی ہونے کے ساتھ اگر یہ افراد جہد مسلسل پر یقین رکھنے والے ہوں تو
کامیابی ان کے مقدر کا حصہ بن جاتی ہیں۔عمران خان اسی قسم کے افراد میں سے
ایک ہیں۔عمران خان نے کرکٹ کیرئر میں شہرت کی بلندیوں کو چھوا ۔کرکٹ میں
بھرپور کامیابی کے بعد انہوں نے فلاحی کاموں کا آغاز کیااور اپنی والدہ کے
نام سے پاکستان میں کینسر کے اسپتال کا قیام کیا ۔یہ اسپتال پاکستان کے ان
فلاحی اداروں میں شامل ہے جسے پاکستانی عوام بے پناہ فنڈز دیتے ہیں ۔یہ
اسپتال کینسر کے مریضوں کے علاج کے نہایت اعلیٰ سطح کی سہولتوں کا حامل
خیال کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال میں نادار مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔
1996میں عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا اورتحریک انصاف کے نام سے اپنی
سیاسی جماعت تشکیل دی، تاہم سن 1997 کے عام انتخابات میں ان کی کارکردگی
صفر رہی اور وہ کوئی بھی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔ 2002میں تحریکِ انصاف
کو قومی اسمبلی کی ایک نشست پر فتح حاصل ہوئی۔قومی اسمبلی کی نشست پر
کامیابی کے بعد عمران خان پہلی بار اسمبلی میں پہنچے۔ایک سیاسی جماعت کے
لئے صرف ایک ہی سیٹ کا حصول بھی ناکامی کے ہی برابر ہوتا ہے۔عمران خان ایک
بلند حوصلہ انسان ہیں۔ان سے 2002 میں ایک صحافی نے جب ان کی جماعت کی سیاسی
ناکامی کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ
میرے سپورٹرز ابھی چھوٹے ہیں جب ان کے شناختی کارڈ بن جائیں گے تو ہماری
جماعت واضح کامیابی حاصل کرےگی۔یہ بات اس دور میں سب کو ایک مضحکہ خیز بیان
ہی ہوا۔ لیکن شاید اس میں کسی حد تک صداقت تھی۔عمران خان نے اپنی سیاسی
جدوجہد جاری رکھی جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی تو لوگوں نے ان کو خوب تنقید
کا نشانہ بنایا۔2008 میں عمران خان نے الیکشن کا بائکاٹ کردیا۔اس دور میں
یہ تصور کیا جاتا تھا کہ یہ بائکاٹ عمران خان کی سیاسی موت ثابت ہوگا لیکن
ایسا نہ ہوا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایمرجنسی کے دوران تحریک چلانے پر
عمران خان کو جیل بھی جانا پڑا لیکن ان کے حوصلے پست نہ ہوئے ۔2011 میں
عمران خان کی پارٹی نے نئی دھج کے ساتھ سیاست میں پھر سے انڑی کی۔2012 میں
عمران خان کی بات سچ معلوم ہونے لگی ،ان کے سپورٹرز بڑے ہوچکے تھے۔نوجوانوں
میں عمران خان کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔ملک بھر میں تحریک انصاف نے بڑے بڑے
جلسے کئے جس سے ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ صاف نظر آنے لگا ۔ 2013
کے عام انتخابات میں تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کے سامنے آئی
اور تحریک انصاف نے کے پی میں حکومت بھی بنا لی۔
انتخابات 2018 کا نتیجہ بھی سامنے آچکا ہے۔تحریک انصاف نےملک بھر سے قومی
اسمبلی کی 115سے زائد نشتوں پر کامیابی حاصل کی ہے،خیبر پختونخوا میں تحریک
انصاف کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔تحریک انصاف کے سپورٹرز کو عمران خان کے
وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے کا بے صبری سے انتظار ہے۔دھاندلی کا روایتی
رونا دھونا جاری ہے۔ لیکن ملک بھر کے عوام کی نیک تمنائیں اس وقت عمران خان
کے ساتھ ہیں ۔عوام چاہتے ہیں کہ عمران خان جلد حلف اٹھا کر قوم سے کئے گئے
اپنے وعدوں کی تکمیل کریں ۔
اپنی انتخابی مہم میں عمران خان نے قوم سے کئی وعدے کئے۔عمران خان نے قوم
کو یقین دلایا کہ اقتدار میں آکر پولیس کا نظام ٹھیک کیا جائے گا اور
پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے گا،حکومت کے اخراجا ت کم کئے جائیں گے اور
ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے گی،عمران خان نوجوانوں کو
1کروڑ نوکریاں دینے اور ملک میں مائکرو بیزنس کے مواقعے پیدا کرنے کا وعدہ
بھی کرچکے ہیں۔روٹی کپڑا اور مکان پیپلز پارٹی کا منشور رہا ہے لیکن وہ اس
کی تکمیل میں ناکام رہی۔عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران50 لاکھ گھر
بنانے کا منصوبہ بھی عوام کے سامنے رکھا ۔اداروں کو مضبوط کرنے کا وعدہ
عمران خان کے وعدوں میں سے ایک اہم عہد ہے۔عمران خان اپنے ہر جلسے میں غریب
طبقے کو اوپر لانے کی بات بھی کرتے رہے۔عمران خان نے عوام کو یہ خواب بھی
دکھائے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آکر ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں کا
قیام کرے گی اور پہلے سے موجود اسپتالوں کے نظام کو بھی ٹھیک کیا جائے
گا۔کپتان نے اپنے مستقبل کے سپورٹرز کیلئے سرکاری اسکولوں کا نظام بہتر
کرنے کا بھی اعلان کیا تھا ۔اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی تحریک انصاف کے
منشور کا حصہ تھا ۔
عمران خان صاحب!عوام نے آپکو موقع دیا ہے ۔اب آپکی باری ہے۔آپکی بات
درست ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والی جماعتیں ملک کی
بہتری کیلئے خاطر خواہ کام نہیں کرسکیں ۔یہی وجہ ہے کہ قوم نے آپ کے
تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہا اور آپ کو فتحیاب کرایا۔اب باری آپ کی ہے
عوام آپکی امیدوں ہر ہورے اتر گئے اب آپ کو اپنے کئے وعدے پورے کرنا ہوں
گے۔اور اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو شاید اس بار شکست کسی سیاسی
جماعت کی نہیں بلکہ جمہوریت کی ہوگی۔
|