2018کے خون آشام انتخابات

افغان اور امریکی سیکورٹی فورسزنے2018کی پہلی شش ماہی میں 2911بم افغانستان کی سرز مین پر گرائے ۔ یہ کسی بھی سال یہاں تک کہ 2011میں سنگین لڑائی میں گرائے جانے والے بموں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ٹرمپ پالیسی کے بعد اگست 2017میں امریکی سیکورٹی فورسز کی جانب سے فضائی حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ ایک مرحلے پر عارضی جنگ بندی دونوں گروپوں کی جانب سے کی گئی لیکن اس کے باوجود امریکی اتحادیوں نے جون میں 572بم گرائے۔پینٹاگان کے اعداد کے مطابق، لڑائی کے دوران جون کے مہینے میں گرائے جانے والے بموں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ داعش ( خراسان) اور دیگر عالمی شدت پسند تنظیمیں بھی افغانستان میں مسلسل مضبوط ہو رہی ہے اور اس کے اثرات سے پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔حالاں کہ اس وقت افغانستان میں امریکی فورسز کی آفیشل تعداد14ہزار کے قریب ہے ۔ امریکی انتظامیہ اور فوجی اہلکار اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ تقریباََ 17برس بعد بھی انہیں فتح نہیں مل سکی اور افغان طالبان کی پیش رفت روکنے میں ناکام رہی ہے۔افغانستان میں قیام امن پاکستان کی اولین ضرورت بن چکی ہے۔ تاہم افغان و امریکی انتظامیہ کے فروعی مفادات کی وجہ سے افغان تنازعہ کا حل نکالنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کا فقدان ہے۔ عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکا نے دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کی بحالی اور افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لئے اپنی پالیسی میں لچک پیدا کرلی ہے۔اس سلسلے میں امریکا کی اعلیٰ کمان و اہم انتظامی اراکین کے افغان طالبان رہنماؤں سے رابطے کی خبریں گردش میں ہیں۔تاہم خطے میں داعش کی موجودگی اور اس کی سرگرمیاں اس وقت عالمی توجہ کا مرکز ہیں ۔امریکا کی جانب سے داعش کے نام پر فضائی بمباری سے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ تشویش ناک تک بڑھ چکا ہے اور اس پر عالمی اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔

افغانستان میں امریکی اتحادی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نیکولسن نے23جولائی 2018ء کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''افغانستان میں داعش کے خلاف افغان طالبان کی کاروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ''۔جس پر ردعمل دیتے ہوئے امارات اسلامیہ نے واضح بیان دیا کہ ’’ امریکی جنرل کے اس مغرضانہ بیان کو داعشی فتنہ کیساتھ تعاون کے طور پر امارت اسلامیہ سمجھتی ہے اور اس بارے میں وضاحت کرتی ہے کہ داعشی فتنہ کی بیخ کنی امارت اسلامیہ کی شرعی مؤقف اور ملکی عظیم مفادات کا مسئلہ ہے،جس کے لیے کسی بیرونی پہلو کی حوصلہ افزائی کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔داعش کے خلاف کسی کی لڑائی کی امریکی جنرل حوصلہ افزائی نہ کریں، بلکہ ننگرہار اور جوزجان میں داعش گروہ سے فضائی، لاجسٹک، اینٹلی جنس اور ابلاغی حمایت اور اسے پروان چڑھانے سے دستبردار ہوجائے۔‘‘

واضح رہے کہ داعش کو پروان چڑھانے کے الزامات امریکا پر عائد کئے جاتے ہیں اور داعش کو پھیلانے میں امریکا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر نظر آتا ہے او ر امریکی وضاحتیں ناقابل قبول تسلیم کیں جاچکی ہیں۔ امریکا نسل کشی کے ایک ایسے ایجنڈے پر کام کررہا ہے جہاں افغانستان ہی نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی امریکی افواج کی جانب فضائی بمباریوں کی وجہ سے عام شہریوں کو ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچا ۔امریکی قیادت کی اتحادی فورسز نے جمعرات کے روز یہ تسلیم کر لیا کہ عراق اور شام میں داعش کے خلاف فضائی بمباری سے 1059 عام شہری ہلاک ہو ئے تھے۔عراق اور شام میں داعش کی خود ساختہ خلافت کے خلاف فوجی مہم چلانے والے اتحاد نے کہا ہے کہ اگست 2014 سے اس سال جون تک ان کے لڑاکا جیٹ طیاروں نے 29826 فضائی حملے کیے تھے۔ انسانی حقوق کے گروپس اتحادی أفواج پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ انہوں نے داعش کے خلاف برسوں کی جنگ کے دوران بہت سے شہریوں کو ہلاک کیا۔پچھلے ہفتے ایک بین الاقوامی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام کے علاقے رقہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے متعلق ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ موقع پر موجود شواہد اتحادی أفواج کے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں محدود تھیں۔پچھلے مہینے گروپ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شام کے علاقے رقہ میں غلطیوں اور ناکام فضائی حملوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔برطانیہ میں قائم فضائی حملوں پر نظر رکھنے والے ایک گروپ ایئر وارز کا اندازہ ہے کہ عراق اور شام میں اتحادی فورسز کے حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 6488 اور 9947 کے درمیان ہے۔

افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل دہشت گردی کا سامنا ہے ۔ عام انتخابات کے دوران داعش کی جانب سے خود کش حملوں نے پاکستان کی علاقائی سرحدوں کی حفاظت کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ا فغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نیکولسن نے دعوی کیا ہے کہ داعش کے 70 فیصد جنگجو پاکستانی ہیں، ان کے مطابق یہ جنگجو پہلے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تھے لیکن قبائلی علاقوں میں ضرب عضب آپریشن کے بعد یہ جنگجو افغانستان چلے گئے ہیں اور وہاں اُنھوں نے خود کو داعش سے منسلک کیا ہے، مبصرین کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الحرار، شہریار محسود، قاری ادریس گروپ، طمانچی ملّا، مولوی فقیر اور طارق گروپ کے سینکڑوں دہشت گرد داعش سے منسلک ہوچکے ہیں، جنوری 2015ء میں افغانستان میں داعش نے پہلی ویڈیو جاری کی تھی جس میں پاکستانی دہشت گردوں کو بھی دیکھاجا سکتا تھا، واضح رہے کہ خود کو داعش کہلوانے والی دہشت گرد تنظیم افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع اچین میں ایک عرصے سے فعال ہیں اور وہاں سے افغانستان اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی پر مبنی واقعات کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

2013 کے عام انتخابات میں دہشت گردی کے واقعات کا اگر اجمالی جائزہ لیں تو گزشتہ عام انتخابات میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلم لیگ (ن)اقتدار کی کمان سونپی تو الیکشن کے دن ملک بھر میں 45 افراد انتخابی عمل کے دوران جان کی بازی ہارگئے تھے۔11 مئی 2013 کو پولنگ ڈے پر کراچی اور بلوچستان میں ہوئے جن میں 26 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔کراچی میں قائد آباد کے علاقے داودچالی میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی الیکشن سیل آفس کے قریب رکشے میں نصب بم کے دھماکے سے 2 سالہ بچے اور اے این پی کے( سابق) امیدوار امان اﷲ محسود کے محافظ سمیت 11 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی جبکہ نیا ناظم آباد میں موٹرسائیکل سوار خود کش حملہ آور رینجرز اہلکاروں سے ٹکرا نے سے 2 رینجرز اہلکار جاں بحق اور 7 راہ گیر شدید زخمی جبکہ حملہ آور سمیت 3 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن اور گارڈن کے علاقوں میں دستی بم کے حملوں میں 10 افراد زخمی ہوئے۔

11 مئی 2013 کو دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں ہوا۔نصیر آباد کے علاقے چھتر میں پی بی 28 سے آزاد امیدوار سید خادم حسین کے قافلے میں بم دھماکے سے15 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوگئے تھے، تاہم انتخابی امیدوار خادم حسین محفوظ رہے تھے۔بلوچستان کے ہی ضلع مستونگ میں انتخابی عملے پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا جس میں 2 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق اور 5 افراد زخمی ہوگئے تھے۔بلوچستان کے ضلع قلع عبداﷲ کے علاقے چمن میں دو گروہوں کے درمیان فائرنگ کے واقعے میں 3 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے تھے، اس دوران این اے 262 میں ہونے والی پولنگ بند رکوادی گئی تھی۔بلوچستان کے علاقے سوراب میں ایک فائرنگ کے واقعے کے دوران 2 افراد ہلاک اور 2 زخمی ہوگئے تھے۔پختونخوا میں چارسدہ کے علاقہ کتوزئی میں اے این پی کے انتخابی دفتر میں بم دھماکا ہو اتاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔پشاور کے نواحی علاقے خزانہ میں پولنگ اسٹیشن قریب موٹرسائیکل میں نصب بارودی مواد دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار، تین بچوں سمیت 9 افراد زخمی ہوگئے تھے۔مردان تخت بھائی کے علاقے میں پولنگ اسٹیشن کے قریب بم دھماکے میں 6 افراد زخمی ہوگئے۔مردان کے علاقے چراغ دین میں پولنگ اسٹیشن کے قریب 3 نصب بم ناکارہ بنادیے گئے تھے۔

2018کے عام انتخابات کو پر امن قرار دیا جارہا ہے جبکہ2018کے عام انتخابات میں 2013کے مقابلے میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ انتخابی مہم کے متعددپرتشددحملے ہوچکے ہیں متحدہ مجلس عمل کے انتخابی امیدوار کی انتخابی ریلی پر بارودی مواد سے حملہ کیا گیا ۔ ملک شیرین محفوظ رہے ، دھماکے میں آٹھ افراد زخمی ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی امیدوار ہارون بلور پر خود کش حملہ ہوا ، جس میں 22افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے پر حملے میں تین افراد ہلاک اور 39 زخمی ہوئے ہیں، البتہ سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ بلوچستان میں مستونگ میں انتہائی درد ناک سانحہ رونما ہوا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نواب زادہ سراج رئیسانی دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے ، رینگڑھ کے علاقے کے خود کش حملے میں اب تک 150افراد شہید اور 150سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔ خضدار کے علاقہ کوشک میں گورنمنٹ پرائمری اسکول پر نامعلوم مسلح افراد نے ہینڈ گرنیڈ پھینکا۔جس کے نتیجے میں 3 لیوز اور ایک بی سی اہلکار زخمی بی سی اہلکارعبدالرشید زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔جبکہ دوسرا واقعہ خضدار تحصیل زہری کیعلاقہ نورگامہ پیش آیا جہاں پر پولنگ اسٹیشن پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تاہم دھماکہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔کو ئٹہ میں مشرقی بائی پاس کے قریب تعمیر نو کمپلیکس میں پولنگ کا عمل جاری تھا کہ اس دوران پولنگ اسٹیشن کے اطراف میں کھڑی پولیس موبائل کے قریب زور دار دھماکا ہوا ا جس کے نتیجے میں31فراد جاں بحق اور70سے زائد زخمی ہوگئے،زخمیوں میں ایس ایچ او عبدالحمید اور 2پولیس اہلکار امام بخش اورعمران بھی شامل ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے دفتر کو بھی نقصان پہنچا۔ اس سے پہلے مسلم لیگ نواز کے قومی اسمبلی کے اُمیدوار سابق وفاقی وزیر جنر ل ریٹائرڈ عبد القادر کے انتخابی دفتر پر بھی دستی بم پھینکا گیا۔اس سے قبل تر بت کے علاقے میں بی این پی مینگل کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی 47 حمل بلوچ، پی بی 44سے نیشنل پارٹی کے امیدوار خیر جان بلوچ اور منگوچر میں بلوچستان عوامی پارٹی کے راہنماؤں کی گاڑیوں پر مشتمل قافلوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی تاہم خوش قسمتی سے ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کی صبح تحصیل کولاچی میں ہونے والے حملے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار اور سابق وزیر اکرام اﷲ گنڈاپور ہلاک ہوئے۔ 99 سے الیکشن لڑنے والے اکرام گنڈا پورا کی گاڑی کو خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا اور اس حملے میں ان کا ڈرائیور اور دیگر تین افراد بھی شدید زخمی ہوئے۔ گنڈا پور پانچ سال قبل ہلاک ہونے والے اپنے بھائی اور سابق صوبائی وزیر اسرار اﷲ گنڈاپور کی ہلاکت میں ملوث ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف منعقدہ ایک احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ اس دوران ان کا گاڑی پر حملے کیا گیا۔یاد رہے کہ سابق صوبائی وزیر اسرار اﷲ گنڈا پور کو بھی پانچ سال قبل ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ مقتول کے بھائیوں نے ان کے قتل کا الزام پی ٹی آئی ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اہم رہنما پر لگایا تھا تاہم ایف آئی آر میں ان کا نام ہونے کے باوجود ابھی تک اس ضمن میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

پاکستان میں 2018کے عام انتخابات میں سینکڑوں کی تعداد میں جانی نقصان ہوا اور 2013کے مقابلے میں2018کے عام انتخابات جانی نقصان کے حوالے سے بدترین اور خون آشام ثابت ہوئے ہیں۔ 2018کے عام انتخابات پر امن ماحول میں ہوئے یہ کہنا درست نہیں ہے ، زمینی حقائق اور میڈیا میں آنے والے رپورٹس 2013اور2018کے موازنے کے جائزے میں یہ عمل بہت تشویش ناک ہے کہ افغانستان اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے عام انتخابات کو سبوتاژ کرانے کی عملی شدت پسندی کی کوششیں کیں گئیں ۔بالا رپورٹس عالمی اداروں میں آچکی ہیں اور عام انتخابات 2013کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان کا سبب بنے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں موجود ، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’ را‘‘ افغان انٹیلی جنس ایجنسی ’’ خاد‘‘ امریکن سی آئی اے سمیت داعش ، کالعدم جماعت تحریک الاحرار سمیت ایسے عناصر بھی پیش پیش رہے جن کا مقصد پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا اور عام انتخابی عمل کو نقصان پہنچانا تھا۔

ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ترکوششوں میں مصروف ہے لیکن عالمی ایجنڈے کے تحت ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جس سے پاکستان کے اندر داعش کے خلاف کاروائیوں کا جواز مل سکے اور اُن علاقوں کو نشانہ بنایا جاسکے جس پر امریکا اور دیگر اتحادی ممالک پاکستان پر انواع و اقسام کے الزامات لگا تے رہتے ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس حوالے سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں اور پاکستان میں موجود اُن کے سہولت کاروں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ہم عام انتخابات 2018میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ نام نہاد قوم پرست دہشت گردوں نے جس طرح داعش کے ساتھ ملکر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں خود کش دہماکے کئے اور ان حملوں کی ذمے داری افغانستان میں موجود کالعدم جماعتوں اور عالمی دہشت گرد تنظیموں نے قبول کی ہے یہ پاکستان کے لئے مستقبل میں بہت بڑے خطرے کی نشان دہی کررہا ہے۔

امریکا اور افغانستان کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک خاص طور پر بھارت جس طرح پاکستان میں پاکستانی اداروں کے زہر افشانی کررہا ہے اس کا واضح مقصد ہے کہ پاکستانی عوام میں قومی سلامتی اداروں کے خلاف عدم اعتماد کی فضا قائم کردی جائے۔ خاص طور پر عام انتخابات میں مخصوص جماعت کو حیرت انگیز طریقے سے غیرمتوقع کامیابی کو ایشو بنا کر جس طرح قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرروت ہے۔پاکستان کی نئی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر افغانستان کے ساتھ افغان مہاجرین کی فوری واپسی کے لئے دوٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں صدارتی انتخابات سے قبل لاکھوں افغان مہاجرین عام انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں۔امریکا کے ساتھ امارات اسلامیہ کی براہ راست مذاکرات کی ضرورت کو پاکستان ،چین اور روس کی مدد سے بڑھانے کے لئے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگا ۔بھارت کے مکروہ کردار اور بلوچستان میں بڑھتی سازشوں کو روکنے کے لئے پاکستان سے محبت رکھنے والے بلوچ ، بروہی ،پشتون سمیت تمام قومیتوں کو اعتماد لے کر مستقل اور مربوط خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی۔

پاکستان کے پاس اب اتنا وقت اور وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے مالی خسارے کو کسی دوسرے طریقے سے دور کرسکے ۔ ہر قسم کے تجربے کو بند کردینے چاہیں اور ملک میں اداروں کو اپنی حدود میں کام کرتے ہوئے ریاست کے تمام ستونوں کو پاکستان کو بچانے کے لئے اپنے اختلافات ایک طرف رکھ دینے چاہیں۔پر امن انتقال اقتدار اس وقت ووقت کی اہم ضرورت اور قومی حکومت کا قیام واحد طریقہ ہے جس میں پاکستان سے درپیش مسائل سے باہر نکل سکتا ہے۔ عالمی اداروں کی غلامی کا طوق پھینکنے کے لئے ہمیں پاکستان کے مفاد کو فروعی مفادات پر ترجیح دینا ہوگی۔ پاکستان اس وقت ایک عالمی سازش تحت بہت خطرناک موڑ پر کھڑا ہوا ہے ۔ ہمیں پاکستانی قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔ ہمیں قبول کرنا ہوگا کہ2013کے مقابلے میں2018کے عام انتخابات دشوار تھے اور دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرناک اور خونی تھے۔ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ افغانستان میں موجود بھارت اور امریکا کے ایجنٹس اور پاکستان میں موجود سہولت کاروں کا خاتمہ اس وقت ہی ممکن ہے جب پاکستان عالمی اداروں کے چنگل سے باہر نکل سکے۔داعش کے نام پر افغانستان ، شام اور عراق میں امریکا اور ان کے اتحادیوں کی کاروائیوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانا اور مملکت کا انفرا اسٹرکچر تباہ کرنا عالمی اسٹیبلشمنٹ کا عیاں ایجنڈا ہے ۔ جس کی زد میں خدا نخواستہ پاکستان بھی آسکتا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات کی عمومی صورتحال تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی ۔ سیاسی بحران میں اضافے اور سیاسی انتشار کا براہ راست فائدہ دشمن عناصر کو پہنچنے کا احتمال ہے۔ پاکستان کو مزید تجربہ گاہ بنانے کے بجائے سرزمین کی حفاظت کے لئے تمام قوتوں کو سنجیدہ اور قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کڑوے فیصلے کرنا ہونگے ۔ کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔2018کے عام انتخابات کو داعش ، را اور خاد نے خون آشام بنادیا ہے ، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے2013کے مقابلے میں2018کے عام انتخابات جہاں سیاسی اعتبار سے انتہائی متنازع رہے تو دوسری جانب شدت پسندی کے حوالے سے سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان کا سبب بھی بنا ۔ ہمیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے داعشی فتنے کو پاکستان میں روکنا ہوگا۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 652963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.