مسلمان دہشت گردی اور امریکہ کی پالیسی

دہشت گردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا آج اس کا شکار ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو دہشت گردی سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہو۔ 9/11 کے بعد دنیا بدل گئی ہے۔ نئے بلاک بنے اور ہر ایک ملک اپنے آپ کو محفوظ کرنے میں لگ گیا۔ 9/11 کا واقعہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس سانحہ میں 3 ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہوئے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری اسامہ بن لادن نے قبول کی۔ جو ایک دہشت گرد تنظیم کا(القاعدہ) راہنما تھا۔ تب سے لیکر آج تک دنیا میں جتنی بھی دہشت گردی ہوئی ہے اس میں کسی مسلمان کا ہاتھ ہوتا ہے۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد فائرنگ کا سب سے بڑا واقعہ 2 اکتوبر کو پیش آیا۔ اس واقعہ میں 60 لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ امریکہ میں اسلحہ کی خرید وفروخت پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے ہر آدمی اسلحہ خرید ا ور رکھ سکتا ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں مگر اب ان میں تیزی آرہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حالیہ واقعہ جو 2 اکتوبر کو پیش آیا۔ امریکہ کے مشہور شہر لاس ویگاس میں کنسرٹ جاری تھا کہ اچانک فائرنگ شروع ہوگئی۔ اس فائرنگ کے نتیجہ میں 60 لوگ ہلاک ہوگئے جبکہ 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حملہ آور کا نام "اسٹیون پنڈیا" ہے اور اس کی عمر 64 سال ہے اور وہ ایک امریکی شہری ہے۔ اس واقعہ کے فوری بعد امریکی تحقیقی ادارے ایف بی آر نے اعلان کیا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں کسی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔ یہ ایک انفرادی فعل معلوم ہوتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے اب تک بہت سے مسلمان انفرادی حملے اور لوگوں پر گاڑیاں چڑھاتے اور دھماکے کرتے رہے ہیں۔ ان کو فوری دہشت گرد قرار دیا جائے۔ جبکہ 2 اکتوبر کے واقعہ میں ایک امریکی شہری کے ملوث ہونے کی وجہ سے اس کو ایک انفرادی فعل قرار دیا گیا ۔ امریکہ اور مغربی ممالک دہشت گردی کے ہر واقعہ کو اسلام فوبیا کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ یاد رہے کہ جون میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ میں 49 افراد ہلاک ہوئے تھے ان واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت گرد صرف مسلمان ہی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور قوم سے ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی پوری دنیا کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 2 اکتوبر کے واقعے کے بعد یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا ہوا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کا نام دیا ہوا ہے۔ امریکہ اپنے ہی ملک میں اسلحے کی خرید وفروخت پر پابندی لگا دے تو اس طرح کے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں دہشت گردی کی جڑ امریکہ خود ہے اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اس سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے مطابق امریکہ افغانستان میں داعش سے رابطے میں ہے اور اس کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ امریکہ کو اندرون ملک اسلحے کی فروخت پر سخت پابندی عائد کرنی ہوگی۔ جب کہ اسے طے شدہ ضابطے اور اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر اپنا اسلحہ بیچنا چاہیے۔ تاکہ یہ غلط ہاتھوں میں جا کر دنیا کے امن کے لیے خطرے کا باعث نہ بن سکے اور اس کے علاوہ مسلمانوں سے متعلق دہشت گردی والی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر امریکہ نے اپنی سوچ اور پالیسی تبدیل نہ کی تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے جو عالمی امن کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭

 

Ijaz Ali
About the Author: Ijaz Ali Read More Articles by Ijaz Ali: 2 Articles with 1153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.