-پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں کیا انتخابات
تھے کہ بڑی بڑی شخصیات پارلیمانی سیاست سے باہر ہوگئیں یہ نام اتنے زیادہ
ہیں کہ انگلیوں پر نہیں گنے جا سکتے ان میں خواجہ سعدرفیق، عابدشیر علی،
امیر مقام، محموداچکزئی،فاروق ستار، آفتاب شیر پاؤ،اسفندیارولی ،سراج الحق
،مولانا فضل الرحمان،فیصل صالح حیات،غلام احمدبلور، چوہدری نثارعلی خان
،اکرم درانی، یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہیں حالیہ انتخابات میں جہاں پی ٹی
آئی نے خیبر پختونخوا میں غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق دیگر
پارٹیوں کے امیدواروں پر واضح برتری حاصل کی ہے وہاں اسی صوبے سے ملک کی
چھوٹی بڑی، بہت سی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو بھی زیادہ تر پی ٹی آئی ہی
کے امیدوارں کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔پارٹی سربراہان جو آبائی حلقوں سے بھی
ہار گئے انتخابات میں جیپ چلی نہ شیر دھاڑامولانا فضل الرحمان، جمعیت
علمااسلام گذشتہ کئی دہائیوں سے انتخابات میں جیتنے والے جمیعت علما اسلام
کے سربراہ مولانا فصل الرحمان بھی اپنے آبائی علاقہ ڈی آئی خان کے دو حلقوں
این اے 38 اور این اے 39 سے ہار گئے ۔اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے علی امین خان
نے 80236 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان 45457
ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔اسی طرح پی ٹی آئی ہی کے امیدوار محمد
یعقوب شیخ نے 5511 ووٹ لے کر حلقہ این اے 39 میں فضل الرحمان کو شکست دی ہے
جبکہ مولانا 4076 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ملک میں ہونے والے حالیہ
انتخابات میں حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرنے پر
پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اقتدار نہ
ملنے پر مسلم لیگ ن میں تقسیم در تقسیم کا عمل بھی تیز ہوجائے گا 25 جولائی
کو عام انتخابات میں خیبرپختونخوا میں شکست نے پارٹی کو مزید تقسیم کردیا
اور پارٹی کے کچھ رہنما، خاص طور پر ہزارہ ڈویڑن سے تعلق رکھنے والے رہنما
صوبائی صدر امیر مقام کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں۔اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)
کے کچھ سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ انتخابات میں شکست نے پارٹی کی سینئر
قیادت کو کافی مایوس کیا اور انہیں یہ موقع مل گیا کہ وہ پارٹی کی صوبائی
قیادت کو میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹ فراہم کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ
بنا سکیں۔ذرائع کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئے کہ پارٹی کے سابق صوبائی
صدور پیر شبیر شاہ اور سردار مہتاب احمد خان نے بھی اس معاملے پر تحفظات کا
اظہار کیا لیکن وہ پارٹی کے تاحیات قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم
نواز کے جیل میں ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو بڑھانا نہیں چاہتے۔ یہ بھی
خبریں گرم ہیں کہ آزاد ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارتیں ،
بھاری رقوم اور دیگر مراعات لینے سے انکار کر دیا اور عمران خان کی حکومت
میں شامل ہونے کیلئے رانا ثناء اﷲ ، ایاز صادق ، مصد ق ملک اور مشاہد حسین
سید کو صاف جواب دیدیا مسلم لیگ ن نے 2018کے الیکشن میں کامیاب ہونے والے
آزاد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے رابطہ کرنے کیلئے رانا ثناء اﷲ ، ایاز
صادق ، مصد ق ملک اور مشاہد حسین سیدپر مبنی ایک ٹیم تشکیل دی تھی جنہوں نے
ہر طریقہ سے ان ارکان اسمبلی کو رام کر نے کیلئے ہر حربا استعمال کر نے کے
اختیار دیے تھے۔ ان ارکان میں سے چنیوٹ کے آزاد رکن اور دیگر علاقوں کے
ارکان سے ٹیلی فونک اور بالمشافحہ ملاقاتیں ہوئی لیکن کسی نے بھی بھاری
رقوم ، وزارت کا لالچ اور دیگر مراعات دینے کے باوجود عمران خان کے ساتھ
جانے کا فیصلہ کیا چوہدری پرویز الہی نے ان تمام ارکان سے سیاسی جوڑ توڑ
شروع کر رکھا ہے۔ چوہدری پرویز الہی نے ان تمام آزاد اکین سے رابطے کیئے
اور ان کو مرکز اور صوبے میں اچھی پوسٹیں دینے کا عندیہ دیا جس پر انھوں نے
اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہی کے ساتھ ملکر چلنے کیلئے یک
زبان ہوکر فیصلہ کیا ہے کہ ہم عمران خان کو سپورٹ کرینگے۔الیکشن سے پہلے
بڑی بڑی باتیں کرنے والی عائشہ گلا لئی کے تمام دعوے ٹھس ہوگئے عام
انتخابات 2018میں تحریک انصاف کی منحرف کارکن عائشہ گلالئی نے قومی اسمبلی
کے چار حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا جس کے لئے انہوں
نے ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف (گلالئی )بھی تشکیل دی تھی اورالیکشن کے
غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق عائشہ گلالئی کا بطور پارٹی سربراہ
پہلا شو ہی فلاپ ہو گیا ہے اور وہ قومی اسمبلی کی چاروں سیٹوں سے شکست کھا
چکی ہیں۔واضح رہے کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین، پرویز مشرف کی آل پاکستان
مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کا حصہ رہنے والی عائشہ گلالئی نے فروری
2018ء میں اپنی علیحدہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف گلالئی بنانے کا
اعلان کیا تھا۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہناہے کہ تحریک انصاف مرکز اور
پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے پوری طرح تیار ہے، آزاد اراکین سے رابطے مکمل
ہو گئے، چند روز میں انصاف حکومت کا قیام عمل میں آ جائیگا، عمران حکومت کے
پہلے 100دن مسلم لیگ ن، پی پی کے دور حکومت سے بہتر ہونگے، عمران خان کسی
بھی عہدے کیلئے نامزد کریں، قبول ہوگا، آئندہ انتخابات میں مرکز اور صوبوں
میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوگی، شہباز دور میں جس سپیڈ کے ساتھ کرپشن ہوئی
اسکی مثال نہیں ملتی، نواز شریف کے بعد ملکی سیاست میں شہباز شریف کا کردار
بھی ختم ہونے کے قریب ہے۔ پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے سے متعلق ابہام
نہیں ہونا چاہئے، تحریک انصاف پنجاب سمیت ملک بھر سے متعدد ان سیٹوں سے بھی
ہاری جہاں جیت یقینی تھی لیکن ہم سسٹم میں رہتے ہوئے اپنے تمام آئینی و
قانونی آپشن استعمال کر رہے ہیں مخالفین کو کہتا ہوں شکست تسلیم کریں اور
اپنی غلطیوں کا احاطہ کریں۔ نواز شریف کو اڈیالہ جاتے دو سال لگے لیکن
شہباز شریف کے دو ماہ بھی نہیں لگیں گے کیونکہ سپیڈ شریف کے جرائم کی فہرست
طویل اور شواہد موجود ہیں، دوسرا ملکی سیاست میں نواز شریف کے بعد شہباز
شریف کا بھی کردار ختم ہونے کے قریب ہے۔ حالیہ عام انتخابات ابق اپوزیشن
لیڈرقومی اسمبلی اورپیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ الیکشن کا
نتیجہ دیکھ کرلگتا ہے عمران خان کی ارینج میرج ہوئی ہے، عمران خان کا
کامیاب کرانے کے لیے ایک نہیں، فل پنکچر لگائے گئے. خورشید شاہ نے میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پنکچرعمران خان کے تمام حلقوں میں بھی لگائے
گئے، الیکشن کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے تو صرف چند حلقے کھول لیں. خورشید شاہ
کا مزید کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی، رسول بخش چانڈیو، فیصل صالح
حیات،اعجاز جاکھرانی اور سعد رفیق کے حلقوں میں بھی پنکچر لگائے گئے، یہ
حلقے مثال کے طور پر دے رہے ہیں. خورشید شاہ نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو
کامیاب بنانے کے لیے پینتیس سے زائد حلقوں میں جھرلو پھیرا گیا۔نتائج سب کے
سامنے ہیں لگتاہے وفاق اور پنجاب کے علاوہ خیبر پی کے میں بھی تحریک ِ
انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے
کی تیاریاں کی جارہی ہیں بہرحال چالیہ عام انتخابات ہارنے اور جیتنے والوں
کیلئے ایک امتحان سے کم ثابت نہیں ہوں گے۔ |