مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں سول سروسز میں
اصلاحات نہ کر سکیں۔کیاتحریک انصاف ایسا کر سکے گی۔ سابق وزیراعظم نواز
شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کی گرفتاری اور پنجاب میں احد چیمہ
کے کیس نے یہ معاملہ مزید گرم کیا ہوا ہے۔ فواد حسن کے والد سرینگر سے
سیالکوٹ ہجرت کرنے کے بعد راولپنڈی میں مقیم ہوئے۔ فواد حسن نے ایف جی سر
سید کالج کے بعد کنگز کالج لندن سے تعلیم حاصل کی۔پھر ایڈمنسٹریٹو سروسز
میں شامل ہوئے۔ اب 22گریڈ میں تھے۔ یہ بیوروکریسی ہی ہے جو وزیر مشیر کے
احکامات ہی بجا لانے کی روادار ہے۔ یہ صرف ہاں جناب کہتی ہے۔ ایک ناں اسے
جیل پہنچا سکتی ہے۔ یہی سیاسی انتقام کا بھی نشانہ بنتی ہے۔ کیا اب بھی
ایسا ہوتا رہے گا۔ یا اس کی قسمت بھی بدلے گی۔سنٹرل سپیرئیر سروسز یا سی
ایس ایس 2017کے امتحانی نتائج کا اعلان گزشتہ ماہ ہوا۔ جس کے تحت 9391میں
سے صرف312امیدوار کامیاب ہوئے۔کامیابی کا تناسب 3.32فی صد ہونا حیران کن
ہے۔2016میں 12176میں سے379امیدوار کامیاب ہوئے۔یہ تناسب2.06فی
صدتھا۔2015میں 3.1اور2014میں 3.3فی صد رہا۔گزشتہ برسوں میں کامیابی کی شرح
فیصد 4فی صد تک نہ پہنچ سکی۔ یہ امتحان ایف پی ایس سی لیتی ہے۔ اس کے چیئر
مین اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری وفاقی کابینہ کو بریفننگ میں اسباب
بیان کرتے ہیں ۔وہ اصلاحات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں۔
پاکستان میں سول سروسز میں شمولیت سے لے کر تقرریوں اور تعیناتیوں ، فیصلوں
کے عمل در آمد تک زیادہ کردار سیاستدان ہی اداکرتے ہیں۔ بیوروکریسی کو اپنی
مغز زیادہ کھپانے کی زحمت نہیں دی جاتی۔ جبکہ ضرورت ایسی بیوروکریسی کی
ہوتی ہے جو اپنے سیاسی رہنما کے ویژن کے مطابق کام کریں۔ وہ کوئی وزیر اعظم،
وزیر یا مشیر ہوتا ہے۔ ان حالت میں ایک سیکریٹری،کمشنر، ایم ڈی، ڈی جی،
ڈائریکٹر وغیرہ کا کام صرف کاغذ تک محدود رہتا ہے۔ وہ صرف کلرکی کرتا ہے۔
یا ریکارڈ کیپر بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر ملک کو چلانے والا دماغ کلرک یا
ریکارڈ کیپر بن جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے ملک کی ترقی ،
بہترین منصوبہ بندی کا گراف کس طرٖ ف جائے گا۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے
کہ سول سروسز میں شمولت کا ہمارا طریقہ کار کیا ہے۔ کیا اس طریقہ کار کے
مطابق ہم بیروکریسی کے لئے اہم دماغ یا ٹیلنٹ کو دریافت کرنے میں کامیاب
ہوتے ہیں یا نہیں۔ افسوس ہے کہ اس کا جواب نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ ملک میں
سب سے بڑا امتحان بھی یہی ہوتا ہے۔ سنٹرل سپیریئر سروسز(سی ایس ایس )۔ یہ
بلا شبہ ایک پیہہ ہے جس پر حکومت کا انجن چلتا ہے۔ یہ بھی انگریزوں کی دین
ہے۔ انہون نے برصغیر کو چلانے کے لئے جو نظام دیئے ان میں سے یہ بھی ایک
تھا۔ جو کہ سول سروسز کہلاتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت یہ سول سروسز آف
پاکستان کہلایا۔ یہاں اب بھی اس میں شمولیت کا جو نظام ہے وہ انتہائی
دقیانوسی ہے۔ دقیانوسی اس لئے کہ یہ ہمیں رٹہ سسٹم کی طرف لے جاتا ہے۔ اس
سے ہم کسی طور پر بھی یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ کس طرح ایک امیدوار کی
قابلیت کو سامنے لا سکتا ہے۔ ایک بیوروکریٹ جو اس رائج امتحان کے بعد سروسز
اکیڈمی میں تربیت کے بعد اسسٹنٹ کمشنر بن جاتا ہے۔ امتحان سے یہ پتہ نہیں
چل سکتا کہ وہ حالات کا بروقت جائزہ لے کر درست فیصلہ کر سکتا ہے۔ یا بروقت
فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یا وہ مختلف ٹاسک قابلیت سے انجام دے سکتا
ہے۔ یا کسی کیس کو حل کر پائے گا۔ یا اس کی عوام کے ساتھ ڈیلنگ منفرد ہو گی
یا وہ بہترین منصوبہ بندی اور اس پر عمل در آمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یا پھر صرف چاپلوسی اور جی حضوری کرنے کا اہل ہوا گا۔
پاکستان کی سول سروسز کو اعلیٰ دماغوں کی ضرورت ہے جو لاکھوں میں سے ایک
ہوں۔ جو کسی زرداری، شریف یا خان کے اردلی بننے کے بجائے پاکستانی مفادات
کے پاسدار بنیں۔ جن کی صلاحیت غیر معمولی ہو۔ جو ہر شعبہ ہائے زندگی کی خبر
رکھتے ہوں۔ جو منصف مزاج ہی نہ ہوں بلکہ انھوں نے اپنی تعلیمی زندگی میں
سماجی خدمات کا کوئی کارنامہ ایسا انجام دیا ہو جس کی وجہ سے اس کی اہلیت
میں اضافہ ہو یا اس کی وجہ سے اس کے نمبرات بڑھ سکیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کا
معیار ایسا ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کی قابلیت یا اہلیت کا پتہ چلانا کافی
مشکل ہے۔ سی ایس ایس امتحان بھی ایساہی ہے۔ اس کا سٹریکچر بھی ایک مسلہ ہے۔
امیدوار کو 6لازمی مضامین کے تحریری امتحان میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ جن میں
سے ہر ایک کے 100مارکس ہوتے ہیں۔ باقی 600نمبرات کے لئے آپشنل مضامین کی
فہرست میں سے لینے ہوتے ہیں۔ ان مضامین کے 100سے 200مارکس ہوتے ہیں۔ چھ
لازمی سبجیکٹس میں سے مضمون، انگریزی، ایوری ڈے سائینس، کرنٹ افیئرز،
پاکستان افیئرز اور اسلامیات ہیں۔ ان مضامین کا انتخاب کسی طور امیدوار کی
عملی زندگی میں صلاحیت اور اہلیت کو ظاہر نہیں کر سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ
مضمون نویسی میں فیل ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں برٹش انگریزی دان کے طور
پر خود کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ ایک امیدوار کا سارا فوکس زیادہ سے زیادہ
نمبرات پر ہوتا ہے۔ اس کے لئے وہ وہی رٹہ لگاتا ہے۔ مضامین کا گہرائی سے
مطالعہ، ان کی عملی زندگی میں اہمیت و افادیت یا ان پر عمل در آمد سے اسے
کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ سی ایس ایس امتحان میں کامیابی کے لئے
ایسے مضامین کا انتخاب کیا جاتا ہے جو ہائی سکورننگ ہوں۔ جو زیا دہ سے
زیادہ مارکس کا سبب بن سکیں۔ نیز ان امتحانات کا گریڈنگ سسٹم بھی سنٹرلائز
نہیں ہے۔ اب ایک دن میں دو پیپرز کے بجائے ایک ہی کا امتھان لینے کا فیصلہ
احسن قدم ہے۔یہ ایک ایگزامنر تک ہے کہ وہ کسی امیدوار کو نمبرات دینے میں
کیا معیار متعین کرتا ہے۔ اس کا اس وقت موڈ کیسا ہو گا۔ یہ پیپر چیک کرنے
والے ایک پروفیسر یا ماہر مضمون تک ہی ہو گا کہ وہ کس طرح گریڈنگ کرتا ہے۔
یعنی سب کچھ اسی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ جبکہ پیپر چیکنگ، کاؤنٹر چیکنگ
کا کوئی سنٹرل نظام ہونا چاہیئے۔ ہمیں ایسے افسر کی کیا ضرورت جو صرف اپنا
پیکیج زیادہ کرنے کا فن جانتا ہو اور اپنے ماتحت کی کوئی فکر نہ کرے۔
یہ فارمولہ برٹش انڈیا کے دور کا ہے۔ جب کہ برطانیہ میں آج سول سروسز میں
ریکروٹمنٹ یا شمولیت کا طریقہ کار مختلف ہے۔ وہاں شمولیت کا پراسس مختلف
مراحل سے ہو کر مکمل ہوتاہے۔ سول سروسز میں ملازمتوں کے لئے ڈائریکٹ سسٹم
سے بھی انٹری ہوتی ہے۔ یہ فکس مدت کے لئے کنٹریکٹ، یا فل ٹائم ، پارٹ ٹائم
پر مبنی ہوتی ہے۔ گریجویٹس کے لئے فاسٹ سٹریم پروگرام ہے۔ دو سال کی فاسٹ
ٹریک سکیم بھی ہے۔ سمر انٹرن شپ پروگرام بھی ہے۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ جس کے
بعد انٹرویو سکیم ہے۔ کامیاب امیدوار پری ایمپلائمنٹ چیک سے گزرتے ہیں۔ بعض
محکمے سکیورٹی کلیئرنس مانگتے ہیں۔ برطانیہ کی سول سروسز میں شمولیت سول
سروسزکمیشن کے ریکروٹمنٹ رہنما اصولوں کے تحت ہوتی ہے۔ اگر امیدوار کو
محسوس ہو کہ اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے تو وہ متعلقہ محکمے میں شکایت
درج کر سکتا ہے۔ اگر وہ اس سے مطمئن نہ ہوا تو سول سروسز کمیش کو شکایت کر
سکتا ہے۔ وہاں سول سروسز کے کچھ قائدے قانون ہیں۔ اقدار ہیں۔ جنھیں سول
سروسز کوڈ کہا جاتا ہے۔ جو متعین ہیں۔ کوئی ان سے بالا تر نہیں۔ پاکستان
میں سول سروسز میں شمولیت کے لئے لیا جانے والے امتحان دو سٹیجز پر مشتمل
ہے۔کوٹہ سسٹم پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 47کے تحت یہ 40سال
کے لئے صوبوں کو ملا تھا۔ یہ مدت 2013میں ختم ہو چکی ہے۔اس پر بھی از سر نو
غور ہونا ہے۔سی ایس ایس کے لئے اصلاحات ضروری ہیں۔ لیکن یہ کون کرے گا۔
پالیسی ساز خود غرض نہ ہوں اور قوم کے لئے فکر مند ہوں تو بہتری ممکن ہے۔ہو
سکتا ہے کہ عمران خان اس جانب بھی توجہ دیں اور اسے بھی اپنی ترجیح بنائیں۔
|