کسی بھی سیاسی جماعت کا اپنی شکست کے نتیجے میں جلد
بازی میں فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ 5 دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ
مجلس عمل‘‘ دراصل دو بڑی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ کسی ایک کے بھی نکل جانے سے
اتحاد بے وقعت ہے۔ 2018 کے انتخابات میں بڑے بڑے بْرج گر جانے کے بعد کہا
جاسکتا ہے کہ مجلس عمل کی پوزیشن بری نہیں رہی۔دراصل مجلس عمل کا دیر سے
بننا یا اس کی ازسرنو تشکیل میں تعطل نقصان کا باعث بنا۔ مجلسِ عمل بننے کے
بعد بھی الیکشن مہم خاصی تاخیر سے شروع کی گئی۔2002 کے بعد 2018یعنی 16 سال
کے وقفہ میں لوگ اسے بھول گئے اور نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد بھی اس سے
متعارف نہیں ہو پائی ۔دوسری جانب ایم ایم اے بنا کر اسٹیبلشمنٹ کے غصے کا
بھی نقصان اٹھانا بھی یقینی تھا۔موجودہ سیاسی منظر نامے میں ایم ایم اے کی
قیادت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن ہی میں رہے۔فی الحال عمران خان یا پی ٹی آئی
کے لیے نرم گوشہ رکھے ۔ کھلی دھاندلی کے خلاف مناسب انداز میں احتجاج جاری
رکھے ،مگر اس کا ہدف جمہوری حکومت نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہو۔سال 6 ماہ بعد
خود بخود حکومت کے خلاف کچھ نہ کچھ مواد آنا شروع ہو جاتا ہے جو بہتر
اپوزیشن کا کردار ادا کرے گا، وہ پانچ سال بعد جگہ پائے گا۔ بصورتِ دیگر
مجلسِ عمل خاص طور پر جماعت اسلامی کے لیے کوئی جگہ اور مناسب مستقبل نظر
نہیں آتا اور الگ ہو کر ’’اپنا جھنڈا اپنا نشان‘‘ پر عمل کیا تو یہ اس سے
اور بھی بڑا نقصان ہو گا۔ یہ نعرہ ایک محدود اور چھوٹی سوچ کی غمازی کرتا
ہے۔مولانا فضل الرحمن کا آل پارٹیز کانفرنس کا بلانا اچھی حکمتِ عملی ہے۔اس
حکمت کو پی پی پی بھانپ گئی اور الگ رہی۔ فضل الرحمن صاحب فی الحال اپنی
ٹون ہلکی رکھیں مگر احتجاج جاری رکھیں۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے 5‘ 10
سال ساتھ رہنے کے نتیجے میں کامیابی کی مثال کو ایک ایسے باغ کے مصداق
سمجھیے کہ اگر دونوں الگ ہوں تو 2‘ 2 ایکڑ کے باغ کی مانند ہیں‘ مل جاتے
ہیں تو 5‘ 10 سال میں یہی باغ 40 ایکڑ کا باغ بن جائے گا۔ پھر اگر الگ ہو
بھی جاتے ہیں تو 20‘ 20 ایکڑ کے باغ لے کر الگ ہوں گے۔ اْس وقت دونوں بڑی
اور توانا جماعت کی حیثیت اختیار کر چکے ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے
میں زیادہ بات نہیں کرتے مگر صرف یہ کہیں گے کہ ’’بد اچھا بدنام برا‘‘۔
دوسری جانب عالمی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ اس سے قبل کہ پاکستان میں شیعہ‘
سْنی‘ بریلوی‘ اہلِ حدیث کو دیگر عرب ممالک کی طرح آپس میں لڑایا جائے‘
بہتر ہے کہ مذہبی اتحاد کو مضبوط کر لیا جائے۔ ساتھ عرب ممالک کے لیے بھی
ایک مثال بن جائے۔’’تحریکِ لبیک پاکستان‘‘ (TLP) منظم کر دی گئی ہے‘ مزید
منظم اور متحرک ہو گی۔ پوری کوشش کی جائے گی کہ اس کو ایم ایم اے سے دور
رکھا جائے۔ایم ایم اے نہ رہی تو اس صورت میں تحریک لبیک ملک میں ہاوی ہو کر
مینڈیٹ پر غلبہ پا سکتی ہے۔جماعت اسلامی یا ایم ایم اے اسلامی انقلاب کی
بات کرتی ہے۔ پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا جو لوگوں میں با آسانی
مقبول ہو گیا۔ اگر دور اندیش ہو کر سوچا جائے تو عمران خان کی پیش کردہ
تبدیلی یا خواب اگر پورا ہوتا ہے تو مطلوب انقلاب کے لیے یہ ایک سیڑھی کا
کام کریگا۔ ایک وقت تھا جب ملک میں Rightist اور Leftist کی جنگ تھی۔
Leftist ہاوی تھے۔ ایک جدوجہد کے نتیجے میں اب Leftist ناپید ہو گئے اور
Rightist کا دور آگیا ۔لبرل ازم کی ملاوٹ کے ساتھ عمران خان کا بھی شمار
کیا جاسکتا ہے۔ اس کا سہرا بھی جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو جاتا ہے۔ملک
میں عرصہ دراز سے قائم بھٹو فیملی اور نواز لیگ کی میوزیکل چیئر کی طرح کی
حکومت سے چھٹکارا بھی جماعت اسلامی کا پرانا مطالبہ تھا۔ جو اِب پورا ہوتا
نظر آرہا ہے ،ایم کیوایم اوراے این پی جیسے زہر آلود‘ ملک دشمن اور تعصبات
کو ہوا دینے والے عناصر بھی اب ٹھکانے لگتے نظر آرہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ
سب کامیابیاں بھی جماعت اسلامی کی جدوجہد کا ایک حصہ رہی ہیں۔ملک میں سیاسی
استحکام اور جمہوری عمل کی مضبوطی اور تسلسل میں بھی مذہبی اور سیاسی
جماعتوں کا فائدہ ہے۔ لہٰذا مجموعی طور پر صورتحال جماعت اسلامی اور خاص کر
ایم ایم ا ے کیلئے بْری نہیں‘ بلکہ بہتر اور اچھی ہے۔ اس وقت ایم ایم اے کا
قائم رہنا‘ اسے مضبوط بنانا اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے
انتہائی مفید ہو گا۔
ایک وہ وقت تھا جب ایم ایم کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ مذہبی جماعتیں
ایک دوسرے کو برا بھلا کہا کرتی تھیں‘ کفر کے فتوے لگتے تھے۔ مساجد میں
جھگڑے ہوتے تھے۔مخالفین تر نوالہ سمجھتے تھے۔ جماعت اسلامی کو خاص طور پر
مذہبی عناصر اور علما کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مذہبی عناصر جماعت والوں کو سیاسی اور سیاسی جماعتیں جماعت والوں کو ملّا
کہتی تھیں۔ دونوں جگہ ’’رد‘‘ کیا جاتا تھا۔ مگرایم ایم اے بننے کے بعد یہ
سب معاملات تبدیل ہو گئے۔اگر ایم ایم اے نہ ٹوٹتی تو ہمیں یقین ہے کہ یہ
ملک کی دوسرے یا تیسرے درجے کی بڑی قوت ہوتی‘ خاص طور پر کراچی ایم ایم اے
کا گڑھ ہوتا ۔ہمیں قاضی حسین احمد مرحوم کے وہ آخری الفاظ یاد ہیں جب ہم نے
اْن کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے فون کر کے
سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ تو اب کراچی والے سوچیں کہ سب سے
زیادہ فائدہ تو کراچی والوں کو ہے‘‘۔اﷲ ہمارے دلوں اور ذہنوں کو کشادہ کر
دے اور ملک و اسلام کو مضبوطی عطا فرمائے۔ |