"بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی " آج کم نشستیں حاصل
کرنے والی پارٹی جس بات پر واویلا کر رہی ہے کل تک یہ ہی کچھ سابقہ
انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کرسکنے والی پارٹی کہتی تھی اور اگر آج سے تیس
سال پہلے کے سیاسی حالات پر نظر دوڑائیں تو اُس وقت عوام میں مقبول پارٹی
کی ایک لیڈر پر جو کیچڑاُچھالا جاتا تھا آج اُسی مقام پر وہ سیاسی لیڈرآگئے
ہیں جوملکی سیاست پراکیلے ہی حکمرانی کیا کرتے تھے وہ اُس جگہ پر پہنچا
دیئے گئے ہیں جہاں کسی دوسرے کو پہنچانے کے لئے اُنہوں نے اخلاقیات کی بھی
پرواہ نہ کی تھی کسی نے یہ سچ کہا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے یہاں ادلہ کا
بدلہ ضرورملتا ہے انسان اپنے ہاتھوں جو کچھ بُوتا ہے وہ ہی کاٹتا ہے جب آپ
کسی کی ذات پر کیچڑ اُچھا ل رہے ہوتے تو اِس زعم میں مت رہیں کہ سدا وقت آپ
کا رہے گا جب کسی کا دل دُکھایا جاتا ہے تو مظلوم کی آہ کو اﷲ تعالی ضرور
سُنتا ہے اُس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ،آپ آج کسی کا دل دُکھاؤ گے تو کل
کو آپکادل ضرور دُکھے گا، کسی کا حق مارو گے تو کل کو اپنا حق بھی نہیں ملے
گایہ باتیں کتابی نہیں جو تاریخ کے طالب علم ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ
ازل سے ایسا ہوتا آیا ہے ہاں کسی کی بے بسی اور کسی کے ظلم کا وقت ضرور کم
یا زیادہ ہو سکتا ہے یہ ناممکن ہے کے بُرا کریں تو اُس کی سزا نہ ملے وقت
کم یا زیادہ ملنے کا ذکر اِس لیے کیا کہ بعض کو اپنے کیئے کی سزا دس پندرہ
سال میں مل جاتی ہے اور بعض کو پچیس سے تیس سال میں جب عمر کا ایسا حصہ
آجاتا ہے کہ انسان میں ہمت اور طاقت تو وہ نہیں رہتی جو پہلے ہوتی ہے ہاں
البتہ ندامت کے آنسو بہانے اور وقت رفتہ کو یاد کر کے آخرت ضرور سنواری جا
سکتی ہے کیونکہ اﷲ تعالی اپنے بندوں پر بڑا رحیم وکریم ہے پاکستان کی سیاسی
تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب کسی کو گرانے کے لئے ہر وہ قدم اور
طریقہ اختیار کیا گیا جس سے مقبول کو غیر مقبول اور غیر مقبول کو مقبول عام
بنایا گیا اگر ساٹھ کی دہائی کی بات کریں تو ایک واقعہ جو اکثر یہ سوچنے پر
مجبور کر دیتا ہے کہ اقتدار کی خاطر چند سال پہلے آزاد ہونے والے ملک کے
ایک اہم راہنما کو ہرانے کے لئے کیا کیا نہیں کیا گیا قارئین کرام !آپ
بالکل صحیح سمجھ رہے ہیں جو بات میں آگے لکھنے جارہا ہوں وہ ہے بانی
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی چھوٹی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح
کو صدر منتخب ہونے سے روکنے کے لئے کیئے گئے اقدامات کی ہے اُس وقت کے
سیاسی داؤ پیچ ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ حصہ بن چکے ہیں خاتون کی سربراہی
کے بارے فتوے بھی حاصل کیئے گئے مقصود تھا اپنا اقتدار بچانا پھر دنیا نے
دیکھا کہ جس اقتدار کے لئے اخلاقی وقانونی اُصولوں کو پامال کیا گیا وہ ہی
شخص چند سال بعد لوگوں کی نفرت اوراحتجاج کا نشانہ بن کے اقتدار سے نکالا
گیا ایسا ہی کچھ دیکھنے کو اَسی(80) کی دہائی کے آخر میں ملا جب محترمہ بے
نظیر بھٹو کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیئے ایسے ایسے طریقے اختیار کیئے
گئے کہ سیاست میں لوٹا ،ہارس ٹریڈنگ جیسے الفاظ مقبول عام ہونے لگے یہاں
ایک بات لکھتا جاؤں کہ جو لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ فلاں مارشل لاء کی پیداوار
ہے فلاں آمریت کے دور کی نشانی ہے تو یاد رکھیں جس ملک میں اکہتر سال میں
سے نصف عرصہ فوجی حکومت رہی ہو وہاں سے کونسا سیاستدان ہو گا جو کسی نہ کسی
دور میں فوجی حکمرانوں کا ساتھی نہ رہا ہوگایا حکومت میں شامل نہ ہوا ہو گا
اگر جنرل ایوب کے دور کو دیکھیں تو بعد میں قائدجمہوریت کا لقب پانے والے
ذوالفقار علی بھٹو اُنکے دور میں وزارت کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے تھے 1958ء تا
1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی
امور، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل
اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے،پھر آپ نے 1967میں
پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور قائد عوام قائد جمہوریت کہلائے ۔اَسی اور
نوے کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے والے
اور وطن عزیزکے تین بار 1990ء تا 1993ء ، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار ء
2013 تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان رہنے والے میاں محمد نوازشریف نے بھی جنرل
ضیاء الحق کے دور میں اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا آپ1981میں فوجی دور
حکومت میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور بعد ازاں 1985 تا 1990 تک وزیر اعلیٰ
پنجاب رہے ، ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف میں چند ایک باتیں تو
مشترک نظر آتی ہیں کہ آپ دونوں نے عملی سیاست کا آغاز فوجی ادوارمیں کیا ،اور
آغاز میں ہی آپ دونوں کو فوجی حکمرانوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ اعلی
حکومتی عہدے بھی حاصل رہے بعد از فوجی حکومت عوام میں مقبولیت بھی حاصل کی
،یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے ہی پیپلز پارٹی کی پہچان ہے جس
میں آپکی بیٹی بے نظیر بھٹو جو کہ دو بار وزیر اعظم پاکستان رہیں کا بھی
بڑا حصہ رہا ہے اِسی طرح میاں محمد نواز شریف جو کہ دو بار وزیر اعلی اور
تین بار مختلف وقتوں میں وزیر اعظم منتخب ہوتے رہے اُنکے نام کے ساتھ ہی
مسلم لیگ نے 1988سے آج تک مقبولیت حاصل کر رکھی ہے جنرل الیکشن
25جولائی2018کے نتائج کو دیکھا جائے تو بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز
پارٹی کی قوت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اگرچہ اَب کی بار مسلم لیگ (ن)
اقتدار تو حاصل نہ کر پائے گی لیکن مضبوط اپوزیشن کے کردار میں ضرور نظر آ
رہی ہے اگر بات کی جائے پاکستان تحریک انصاف کی جو مسلم لیگ (ن)کے رہنماؤں
خاص طور پر میاں محمد نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز کی عدالتوں سے
نااہلی اور جیل کی سزا کے بعد ملک میں پیدا کی گئی ایک خاص فضا سے اقتدار
حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے تو تحریک انصاف کے رہنماعمران خان
اور دیگر سرکردہ رہنماؤں اور اِس جماعت کے ورکروں کی جانب سے جس طرح کی
کردار کشی باپ بیٹی کی گئی وہ پاکستانی تاریخ کے طالب علم کے لیئے کوئی نئی
بات نہیں ہے کیونکہ جس طرح کی دشنام طرازی اور کیچڑ اَسی اور نوے کی دہائی
میں مسلم لیگ (ن) اور کسی حد تک پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر اُچھالا وہ ہی
کچھ موجودہ وقت میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ورکروں نے مسلم لیگ
(ن) کے رہنماؤں پر اُچھا ل رکھا ہے،عوام کے سامنے بڑے بڑے وعدے دعوے کرنے
کے بعد جب اِن جماعتوں کے نمائندے پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں تو
اقتدار حاصل کرنے کے لیئے اُن ہی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے لگ جاتے ہیں
جنھیں کسی وقت میں چور ،ڈاکو ،سیکورٹی رسک اور نجانے کیا کیا کہہ چکے ہوتے
ہیں پاکستان تحریک انصاف کبھی بھی اقتدار کی دوڑ میں شامل نہ ہوسکتی اگر
دیگر جماعتوں کے الیکٹیبلز کو الیکشن سے پہلے اپنی جماعت میں شامل نہ
کرپاتی ،سانچ کے قارئین کرام !جب تک ہم اور ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے
کو اقتدار کے حصول تک چور ،ڈاکو ،لٹیرا جیسے خطاب دے کر حکومتیں بناتی رہیں
گی اُس وقت تک ملک حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور
پردنیا میں خاص مقام حاصل نہیں کر سکے گا اﷲ تعالی وطن عزیز پاکستان کو
رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھے آمین۔٭٭ |