سیاسی جماعتوں کے تحفظات……شفاف الیکشن ہوسکیں گے؟

الیکشن 2018میں چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن مہم زوروں پر ہے۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر نگران حکومت کا کام صاف اور شفاف الیکشن کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔ نگران حکومت کے کاندھوں پر، پرامن اور تشدد سے پاک انتخابات کے انعقاد کی بھاری ذمے داری ہے، جسے اسے احسن طریقے سے پورا کرنا ہے۔ بلاشبہ نگراں سیٹ اپ کو ملکی تاریخ کے انتہائی پرجوش اور غیر معمولی ہیجان سے معمور الیکٹوریٹ کی امنگوں کی ترجمانی کرنا ہے۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ اعظم خان نے حلف اٹھانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ پرامن شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کو پوری سپورٹ دیں گے اور پرامن انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔پاکستان میں تقریبا ہر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور اب دھاندلی کے اس تسلسل کو شفاف انتخابات کرواکے ہی ختم کیا جاسکتا ہے، جوکہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی کئی بار شفاف الیکشن کے انعقاد کا وعدہ کیا ہے۔گزشتہ روز بھی اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ صاف شفاف الیکشن اول ترجیح ہے، الیکشن کا عملہ سویلین ہے اور بھرپور تربیت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مقناطیسی سیاہی الیکشن میں استعمال نہیں کی جا رہی، اس مرتبہ الیکشن میں عام سیاہی استعمال ہو گی ،میڈیا کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت ہو گی اور موبائل ممنوع ہو گا، سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے کہا ہے کہ الیکشن ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کیا جا رہا ہے، الیکشن کا کنٹرول الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ الیکشن شفاف ہو گا کوئی انگلی نہیں اٹھے گی۔الیکشن کمیشن نے الیکشن کے حوالے سے ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا۔ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتی رہیں، جس پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے منافی سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کی تشہیر پر 22 ٹی وی چینلز کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کر دیے۔ پیمرا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ تمام ٹی وی چینلز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابات کے لیے نازیبا الفاظ پر مبنی اشتہاری مہم نشر کر رہے ہیں۔ پیمرا نے تمام چینلز کو واضح احکامات دیے ہیں کہ ان تمام اشتہارات کو فوری بند کیا جائے اور مناسب ترامیم کے بعد نشر کیا جائے۔

الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی جانب سے شفاف انتخابات کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے شفاف انتخابات کی نفی کی جارہی ہے اور الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے کردار پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے متعدد بار نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر انگلی اٹھائی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کروانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ہمارے نمائندوں کو زبردستی ہم سے علیحدہ کروایا گیا۔ ہمارے کارکنوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہمارے متعدد امیدواروں سے زبردستی شیر کا نشان لے کر انہیں جیپ کا نشان دیا گیا اور کئی امیدواروں کو جماعت سے الگ کر کے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائدین کا کہنا تھا کہ دھاندلی کی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے، دھاندلی نہ روکی گئی تو اس کے ہولناک نتائج برآمد ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کی گرفتاریوں اور نااہلیوں سے شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف نیب کی انتقامی کارروائیاں ہماری انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ ایسی کارروائیوں نے شفاف انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔گزشتہ روز بھی سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے نگران حکومت پر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ملنے اور پری پول دھاندلی کا الزام عاید کیا ہے۔ شہبازشریف نے کہا کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے، جبکہ عمران خان کو ریلیوں اور جلسوں کی آزادی ہے۔

دوسری جانب سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) مرکزی کے رہنما میاں رضا ربانی نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو متنازع قرار دیا ہے۔ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ عام انتخابات وقت سے قبل ہی متنازع ہو چکے ہیں جس کی وجہ انتخابی عمل میں مداخلت اور الیکشن کمیشن کے آئینی کردار میں ناکامی ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں پر انتخابات سے دستبردار ہونے یا پھر سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جس پر پارٹی کو تشویش ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے بھی میاں رضا ربانی کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کا بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے، ہمارے امیدواروں پر وفاداریاں بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ میں بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو بھی اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اتحاد ہمارے خلاف پاپیوں کا گٹھ جو ڑ ہے۔ پی پی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ناکام کرنے کے لیے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنوایا گیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے معاملے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ کے دوران خودکش حملے میں این اے 31 اور پی کے 78 سے اے این پی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 21 افراد شہید اور 62 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ہارون بلور 2012ء میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں شہید ہونیوالے اے این پی کے مرکزی رہنماء بشیر بلور کے صاحبزادے‘ حاجی غلام احمد بلور کے بھیتجے اور سندھ کے سابق صوبائی وزیر عرفان اﷲ مروت کے داماد تھے۔ اس سانحے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے کھل کر انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھادیے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوں گے۔اسفند یار ولی خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کرنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے، جبکہ الیکشن سے پہلے سیاسی امیدواروں کی سیکورٹی واپس لے لی گئی تھی، جس کی وجہ سے ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں اور وہ عوام میں جاکر الیکشن مہم ٹھیک سے نہیں چلا سکتے، ہارون بلور کی شہادت کا وااقعہ بھی سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی اصل ذمہ داری پرامن فضا میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی ہے جس کے لیے ملک کے سیکورٹی اداروں نے ان کی معاونت کرنا ہوتی ہے۔

الیکشن کے انعقاد میں چند روز ہی باقی ہیں، لیکن ملک کی اکثر بڑی جماعتیں انتخابات کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے، حالانکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو انتخابی مہم کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور ان کی قیادتیں کسی دباؤ کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ عوام کے پاس جاسکیں۔ اگر کسی جماعت کے امیدواروں اور کارکنوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہو اور ان کو گرفتار کیا جارہا ہو تو اس جماعت کے لیے یقینا انتخابی مہم چلانا اور اپنا پارٹی منشور عوام کے پاس لے جانا انتہائی مشکل ہوگا۔ اس بنیاد پر اگر متعلقہ جماعت کے قائدین اور امیدواران انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور متعلقہ اداروں پر جانبداری کے الزامات عائد کرتے ہیں تو اس میں یقیناً وہ حق بجانب ہوں گے۔ اگر اسی تاثر میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو انہیں سیاسی اور عوامی حلقوں میں شفاف قرار دلانا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ یہ یقیناً نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ اگر موجودہ حالات میں ان اداروں کی ساکھ پر حرف آتا ہے تو 25 جولائی کے انتخابات کو منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے طور پر تسلیم کرانا عملاً ناممکن ہو جائے گا، اس لیے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو مل کر ایسے تمام اسباب کا تدارک کرنا چاہیے جن کی وجہ سے سیاسی جماعتیں الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھارہی ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.