کچھ انتظار، کچھ برداشت

 توقعات کا کوہ ہمالیہ سامنے کھڑا ہے، مختلف مزاج رکھنے والے کوہ پیما (کھلاڑی) چوٹیاں سر کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خدشات، امیدوبیم اور انجانے خوف کے سائے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔’’ معلق پارلیمنٹ ‘‘کی تلوار کے سر پر لٹکنے کا خطرہ تھا، سو وہ ٹل نہیں سکا۔ انتظار کے لمحات بے حد کٹھن ہوتے ہیں ۔ اسی انتظار نے اپنی قوم کی اکثریت کو پریشان کر رکھا ہے۔ حکومت پریشان ہے کہ وہ اپنی عددی برتری کس طرح ثابت کرے۔ ایسا کرنے کے لئے انہیں کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں، ابھی چندروز قبل تک جن لوگوں کے خلاف جذبات کی رو میں بہہ کر بہت سخت جملے ادا کئے جاتے تھے، ایک دفعہ نہیں بار بار، اب انہیں کے پاس جانا پڑ رہا ہے، جن کو ناسور قرار دیا گیا تھا، انہیں ساتھ ملانا پڑ رہا ہے، جو ڈاکو کہلاتے تھے، اب وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، قدم سے قدم ملائے شانہ بشانہ چل رہے ہوں گے۔ الفاظ کے ذریعے چلائے گئے یہ زہریلے نشتر یکطرفہ نہ تھے،معاملہ کسی ایک پارٹی کی طرف سے نہیں تھا، اگر پی ٹی آئی کی طرف سے ایسا ہوا تو ایم کیوایم یا مسلم لیگ ق وغیرہ کے بیانات بھی اسی قدر تلخ وترش تھے۔ شاید کبھی اپنے سیاستدان یہ سوچیں کہ ہمیں سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے، کیونکہ حالات کبھی بھی پلٹا کھا سکتے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست بن سکتے ہیں، احتیاط کرنے سے وقت آنے پر یقینا شرمندگی سے بچا جاسکتا ہے۔جن افراد کی برسوں سے مخالفت کی جارہی تھی، پہلے تو انہیں الیکٹ ایبل کے نام پر ساتھ ملایا گیا، اور جن لوگوں نے الیکشن کے موقع پر مخالفت کی اور کامیابی سمیٹی، وہ آزاد رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اپنائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں دلائل یقینا ہوتے ہیں، مگر اصولوں کی نفی ہوتی ہے، ایسا کرنے سے توقعات رکھنے والے مایوس ہوتے ہیں۔
اکثریتی پارٹی کی حکومت تو بن ہی جائے گی، مگر ٹیم کے کپتان کے لئے بڑا امتحان ہے، کہ غیر تربیت یافتہ کھلاڑیوں کے ساتھ کس طرح میدان میں اترنا ہے، بہت سے کھلاڑی اگرچہ پرانے ہیں، مگر مزاج مختلف ہیں۔ اب قومی و صوبائی وزارتوں کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہے، لابنگ ہورہی ہے، امیدیں برآ رہیں ہیں، کہیں مایوسیاں گھیرے ہوئے ہیں۔ جس طرح الیکشن کے موقع پر ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں یا تو آزاد الیکشن لڑ لیا، یا بد دل ہوکر پارٹی کی مخالفت کردی، اسی طرح اب بھی وزارتوں کے چکر میں پریشانیوں کا وہی جھکڑ چل رہا ہے۔وزارت کی خواہش کرنا تو بذاتِ خود کوئی غلط بات نہیں، مگر وزارت چلانے کے لئے کن صلاحیتوں، تکنیکوں، اصولوں اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بارے میں کم لوگ ہی سوچتے ہیں۔ وزارت کی گاڑی ، جھنڈی اور پروٹوکول کا خمار ہے، جس تک رسائی کے لئے بہت سے ممبران کوشاں ہیں۔ حکومت اپنا وقت پورا کر جاتی ہے، مگر کوئی ہی وزارت ایسی ہوتی ہے، جس کے کام نمایاں ہوتے ہیں اور جانے کے بعد بھی لوگ انہیں یاد رکھتے ہیں۔ چند بڑے کاموں کو حکمران اپنے نام سے ہی منسوب کرتے ہیں۔

عمران خان نے سادگی اور پروٹوکول وغیرہ کے بارے میں جو بیانات دیئے ہیں، اگر ان پر عملدآمد ہوگیا، جس کے کسی حد تک امکانات بھی ہیں، تو جان لیا جائے کہ یہ وزارتیں کوئی کلغی نہیں ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہیں۔ ایک بابصیرت حکومت میں حکومتی عہدیدار وزارت سے لطف اندوز نہیں ہوتے، بلکہ اپنی ذمہ داریوں کی بنا پر ہمہ وقت پریشان رہتے ہیں ۔ عمران خان کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ اب حکومت سادگی اور ذمہ داری سے چلائی جائے گی، ایسے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ، صرف اور صرف اقتدار کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے ممبران اسمبلی کس طرح اتنی قربانی دے سکتے ہیں؟ اپنے بہت سے ’’عوامی نمائندے‘‘ تو الیکشن پر اٹھنے والے کروڑوں کے اخراجات بھی اس لئے کرتے ہیں کہ بعد میں وہ پورے کرنے ہیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو چلیں وزارت کی عیاشی ہی ہو جائے، اگر اتنا بھی نہیں تو سب کچھ کا کیا فائدہ؟ ایسے لوگ نہ عوام کا درد رکھتے ہیں، نہ انہیں ملک و ملت کی کوئی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ معاملات کو سنجیدگی سے چلانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ یوں عمران خان کے لئے نئی ٹیم ایک امتحان سے کم نہ ہوگی۔

ایک طرف حکومت تو نئے جذبے سے کام کرنا چاہتی ہے، کہ سادگی اختیار کرنے، حکومتی اخراجات کم کرنے اور پروٹوکول وغیرہ میں کمی کے فیصلے کا اظہار کیا جارہا ہے، مگر دوسری طرف اپوزیشن اپنی سابقہ ڈگر پر قائم ہے، دھاندلی کے روایتی الزامات ہیں۔ خلائی مخلوق کی طرف سے مداخلت کی بات بھی ہو رہی ہے ۔ تحریک وغیرہ چلانے اور حکومت کو مشکل میں ڈالے رکھنے کے ارادے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس بہت سے جمہوری حقوق ہیں، جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے، اس کے لئے الیکشن کمیشن موجود ہے، عدالتیں ہیں، حتیٰ کہ احتجاج کا راستہ بھی آخری صورت میں موجود ہے۔ بس مشکل یہ ہے کہ انتظار کی گھڑیاں ذرا طویل ہیں، یعنی دنوں مہینوں کی نہیں، سالوں کی بات ہے، پانچ برس کی۔ جہاں اپنی اپوزیشن پارٹیاں اپنی جمہوری سرگرمیوں میں مصروف ہیں، وہاں اپنا سوشل میڈیا بھی دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ الیکشن سے قبل گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ سر کو چکرا دینے والے تبصرے تھے، ہیجانی کیفیت تھی، دیکھنے اور پڑھنے والا چند منٹ سے زیادہ کی تاب نہ لاسکتا تھا۔ اب بھی بہت حد تک کام جاری ہے، الزامات ہیں، اعتراضات ہیں، اور کسی حد تک مغلظات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کی تربیت کون کرے گا؟ سوشل میڈیا پر چونکہ زیادہ تر سیاست ہی ہوتی ہے، اس لئے اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی سیاسی قائدین کے سر ہے، مگر کس سے کیا توقع کی جائے؟

بہت سے لوگوں کو بہت جلدی بھی ہے، جن تبدیلیوں کا وعدہ آنے والے لوگ کر رہے ہیں، وہ شروع کیوں نہیں ہو جاتیں؟ فلاں کام کیسے ہوگا؟ کام شروع تو اس وقت ہوگا جب حکومت سونپی جائے گی، مگر یہ خدشات اپنی جگہ پر موجود ہیں کہ مختلف الخیال لوگوں کو کسی کام کے لئے یکسو کیسے کیا جائے گا؟ یہ قیادت کا امتحان ہے، یہی اس کی کارکردگی ہوگی۔ آنے والی حکومت کو کچھ مہلت دینا ایک اخلاقی فرض ہے، اور اپنے وعدوں کے مطابق کام کرنا حکومت کا قانونی اور اصولی فرض۔ ہر کوئی اپنے فرض کو نبھائے اور پہچانے تو معاملہ سدھر سکتا ہے۔ برداشت کرنے کی روش کبھی تو اختیار کرنا پڑے گی۔ تاہم پہلے ہی ’’ہور چُو پو‘‘ کی کہانی نہیں دہرانی چاہیے۔ اپنے وطن کی خوشحالی اور ترقی کی دعا کرنی چاہیے۔ مسائل، توقعات اور دعووں کا کوہ ہمالیہ آنے والے لوگوں کے سامنے ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428424 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.