جس طرح کے الیکشن ہوئے ‘ وہ سب کے سامنے ہیں ۔ سوائے
تحریک انصاف کے کوئی پارٹی قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ ن لیگ کی بطور خاص
پنجاب میں اکثریت کو تبدیل کرنے کے لیے جس طرح دھاندلی کی گئی اس کی جتنی
بھی مذمت کی جائے ‘ کم ہے ۔ میں کسی اور کی بات نہیں کر رہا بلکہ میں جب
این اے 131 کے ایک پولنگ اسٹیشن پرشیر کے پولنگ کیمپ سے پرچی بنوا کر ووٹ
ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچا تو ایک عورت نے مجھے پہچان کے کہا آپ کے ہاتھ میں
کہیں شیر والی پرچی تو نہیں ۔ میں نے کہا اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو اس نے
بتایا کہ میں یہ غلطی کرچکی ہوں ۔صبح دس بجے کی قطار میں کھڑی ہوں اور اب
اڑھائی بجے مجھے اس وقت ووٹ ڈالنے دیا گیا جب میں نے شیر کے نشان والی پرچی
پھاڑدیا۔اس خاتون نے مجھے نصیحت آمیز لہجے میں کہا اگر آپ ووٹ کاسٹ کرنا
چاہتے ہیں تو شیر والی پرچی کو پھاڑ کر تحریک انصاف والی پرچی بنوالوں۔
وگرنہ آپ کو یہی جواب ملے گا کہ آپ کا ووٹ اس پولنگ اسٹیشن میں نہیں ۔
پولنگ اسٹیشن میں جب داخل ہوا تو وہاں ایک نوجوان جو شاید تحریک انصاف کا
کوئی اہم کارندہ تھا وہ سب کی پرچیاں چیک کررہا تھاجس کی پرچی شیر کی ہوتی
اسے وہاں سے بھگا دیتا ۔مجھے بھی آدھا گھنٹہ خوار کیاگیا ۔جب میں نے واپس
جانے سے انکار کیا تو مجھے دوبارہ اس جگہ قطار میں کھڑا ہونے پر مجبور
کردیا جہاں موسلا دار بارش ہورہی تھی۔بارش میں بھیگنے پر میں کئی دن بخار
میں مبتلارہا۔ ووٹ تو میں نے ڈال ہی دیا لیکن جو کچھ مجھ پر گزری وہ اس بات
کی شاہد ہے کہ تحریک انصاف کو کامیاب کروانے کے لیے ہر پولنگ اسٹیشن پر
انتظام مکمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں 25 ہزار ووٹوں سے جیتنے
والے خواجہ سعد رفیق اس بار دس ہزار ووٹوں سے ہار گئے اور عمران خان کو
کامیاب قرار دے دیا گیا ۔ کراچی میں دو مختلف جگہوں پر بڑی تعداد میں بیلٹ
پیپر(جن پر مہریں بھی ثبت تھیں ) سکول کے بینچوں کے نیچے ملنا بھی دھاندلی
کا کھلا ثبوت ہے ۔نوائے وقت میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایک افغان
شہر ی احمد علی بھی بلوچستان اسمبلی کے حلقہ 26 سے منتخب ہوگیا ۔جو الیکشن
کمیشن اور نادرا جیسے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوال ہے ۔عدالت کی جانب سے
ن لیگ کے قائد کو جیل میں بند کرنے کے اہم ترین امیدواروں کو نااہل قرار دے
کردیوار کے ساتھ لگانے کے جس منصوبے پر کامیابی سے عمل کیا گیا اس نے
الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔شاید انہی وجوہات کی بنا پر ن
لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت ہارنے والی تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی
ہوچکی ہیں ۔ مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کو اکثریت نہ رکھنے کے باوجود
حکومت بنانے کی جس طرح کھلی چھٹی دے دی گئی اور جس طرح علیم خان اور
جہانگیر ترین کے جانب سے آزاد امیدواروں کو خریدکر بنی گالہ کی دہلیز پر
سجدہ ریز ہونے کے لیے پیش کیا جارہا ہے ۔ان وارداتوں کو دیکھ کر ہر انسان
سوچ رہا ہے کیا اسی طرح دھونس اور دھاندلی سے نیاپاکستان بنایاجائے گا ۔کیا
اسی طرح دوسری جماعتوں کے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روک کر تحریک انصاف کے
لیے کامیابی کی راہ ہموار کی جاتی رہے گی ۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ
جہانگیر ترین نے اپنے جہاز پر سوار ہوکر جتنے امید وار شکار کیے ہیں انہوں
نے 1965ء میں ایم ایم عالم کا وہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے جو انہوں نے ایک
منٹ میں پانچ بھارتی جہاز گرا کے قائم کیا تھا۔ نواز شریف نے اسے چھانگا
مانگا ائیر لائن قرار دیا ۔ آزاد امید وار کس قیمت پر فروخت ہوئے اور ان سے
حکومت بنانے کے بعد کیا وعدے کیے گئے یہ بات ابھی مخفی ہے لیکن جس طرح
ووٹوں اور مینڈیٹ کی تذلیل ہورہی ہے ‘ اسے پاکستان کے لیے نیک شگون قرار
نہیں دیاجاسکتا ۔ عمران خان کے چاہنے والے اسے فرشتہ سمجھتے ہیں جو
پاکستانی قوم کومسائل اور کرپشن کی دلدل سے نکالنے کے لیے آسمان سے وارد
ہوا ہے لیکن یہ فرشتہ مانگے تانگے کے ووٹوں کے ساتھ اپنے منشور پر سو فیصد
عمل نہیں کرسکتا ۔ شاید مقتدار اداروں نے عمران کو اپنی اوقات میں رکھنے کے
لیے ہی اتنے کم ووٹ دلوائے ہیں۔ ایک شخص نے سوشل میڈیا پر جہانگیر ترین کی
مار دھاڑ پر چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ۔ اگر یہی کام
کسی اور نے کیا ہوتا تو شاید اب تک اس پارٹی پر پابندی لگا دی جاتی لیکن جس
طرح مقتدر حلقوں نے نیا پاکستان بنانے کے لیے تحریک انصاف کو کھلی چھٹی دے
رکھی ہے جو جس کو چاہے خریدے اور جس کو چاہے حکومت سے باہر کرے ۔ کسی کو اس
پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ساری صورت
حال میں الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے ۔کیا الیکشن کمیشن کی
ناکامی اور بے بسی کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ تین دن تک نتائج کا اعلان ہی
ممکن نہیں ہوسکا ۔ عمران خان نے اپنا ووٹ سب کے سامنے ڈال کر قانون کی خلاف
ورزی کی لیکن الیکشن کمیشن بابر اعوان کے خوف سے اب تک خاموش ہے ۔ مزے کی
بات تو یہ ہے کہ جتنی جگہ بھی ووٹوں کے بکس کھلے وہاں دوسری جماعتوں کے
امیدوار کامیاب ہوئے ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ
کیا پولنگ عملے اور پریذیڈنگ آفیسرز کو گنتی بھی پوری نہیں آتی تھی ۔ یا
دانستہ گنتی بھی غلط گنی گئی ۔ دھاندلی اگر دس پندرہ حلقوں میں ہو تو
برداشت ہوجاتی ہے لیکن جب پشاور سے کراچی تک ہر جگہ دھاندلی کے نشان ملتے
ہوں تو بقول مولانا فضل الرحمن پھر ان الیکشن پر یقین کون کرے گا ۔ مولانا
اسی وجہ سے تو اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرنے پر تلے ہوئے تھے یہ تو ن لیگ اور
پیپلز پارٹی کے قائدین نے سمجھایا کہ اس طرح مارشل لاء کا راستہ ہموار
ہوجائے گا ۔ تحریک انصاف کو جائز اکثریت ملی ہے یا ناجائز ۔ اسے کچھ عرصے
کے لیے برداشت کرلیناہی درست ہے کیونکہ جب تمام مقتدر حلقے اس کے پشت پر
ہوں تو کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران
خان میٹرک پاس پرویز خٹک اور نااہل ترین شیخ رشید جیسے لوگوں کو وزیر مشیر
بناکر نیا پاکستان بنا پائیں گے ۔ نئے پاکستان میں جہانگیر ترین اور علیم
خان کا کیا مقام ہوگا
|