حکومت میں رہنے والے اور کشتی کے اکھاڑے میں رہنے والوں
کو ایک سے عوامی رویے کا سامنا ہوتاہے۔تماشائی بار بار شور وغل کرتے رہتے
ہیں۔مگریہ اطمینان سے منہ دھیان اپنے شغل میں محو رہتے ہیں۔انہیں پتہ
ہوتاہے کہ اکھاڑے سے باہر شور مچانے والے محض ا س لیے آپے سے باہر ہورہے
ہیں کہ وہ اکھاڑے مین نہیں ہیں۔ کبھی وقت نے انہیں اکھاڑے میں اترنے کا
موقع دیا تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔تحریک انصاف کی قیادت
کل تک اوروں کی مشکلات پر ہنسا کرتی تھی۔آج خود دوسروں تفریح طبع کا باعث
بن رہی ہے۔جہانگیر ترین، علیم خاں، شاہ محمود قریشی صاحب مطلوبہ عددی قوت
پورا کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ہر شام مطلوبہ تعداد پالینے کا
دعوی کیا جاتاہے۔ اگلے دن جب وہ پھر سے بھاگ دوڑ میں نکلتے دکھائی دیتے ہیں
تو اندازہ ہوتاہے کہ شام کا دعوی درست نہ تھا۔بظاہر یہی لگ رہاہے کہ جب
تحریک انصاف امور حکومت نبٹانے کی طرف آئی گی۔تواسے رنگ کے اندر کی مذید
حقیقتوں کا ادراک ہوگا۔
تحر یک انصاف سے متحدہ کااتحاد بڑا عجب ہے۔ایک طرف متحدہ والے کراچی میں
اپنا مینڈیٹ چور ہوجانے پر احتجاج میں مصروف ہیں۔اور دوسری طرف وہ اسلام
آباد میں عمران خاں کے ساتھ اتحاد کے لیے مذاکرات کو بھی موجود ہیں۔متحدہ
کے ا س ڈبل سٹینڈرڈ پر انگلیا ں اٹھ رہی ہیں۔کراچی میں سڑکوں پر آنے اور
دھاندلی کے خلاف احتجاج کیے جانے پر اس کے ووٹر اور سپورٹر حیران ہیں۔وہ اس
احتجاج کی منظق سے مطمئن نہیں۔جب قیاد ت انہیں سڑکوں پر آنے کی کال دیتی ہے
تو وہ لبیک کہتے ہیں۔مگر جب قیادت خود اپنے کہے کی نفی کرتے ہوئے تحریک
انصاف سے دوستی کی پینگیں بڑھاتی نظر آتی ہے تو انہیں شرمسار ہونا
پڑتاہے۔ان رابطوں سے کراچی کے وہ غیر جانبدار حلقے بھی پریشان ہیں۔جو یہاں
کی سیاسی قیادت سے غیر مطمئن کسی تبدیلی کے منتظر تھے۔تحریک انصاف کو پڑنے
والے ووٹ اس کے تبدیلی کے نعرے کے سبب تھے۔اگر عمران خان نے کراچی کی اسی
جماعت کویہاں کی چوہدر دینی تھی تو پھر لمبا چوڑا ڈرامہ کرنے کی کیا ضروت
تھی۔کراچی پچھلے کئی برسوں سے سنگدل قیاد ت کی بھینٹ چڑ رہا تھا۔یہاں کے
باسیو ں کی حالت بھیڑ بکریوں سے بدتر ہے۔ان باسیو ں کو کبھی ایک پارٹی کے
کھونٹے سے باندھ دیا جاتا۔کبھی دوسرے سے۔متحدہ کے زوال کے بعد یہاں کے باسی
سہانے صبح کے خواب دیکھنے لگے تھے جانے کیوں تحریک انصاف یہ سہانی صبح چھین
لینے کے درپے ہے۔
تبدیلی کا جو نعرہ لگایا گیا تھا۔اس کی حقیقت کھلنے لگی ہے۔جن باتوں سے
بچنے کی بات کی جاتی تھی انہیں اپنایا جارہاہے۔سب سے زیادہ زور کرپشن کے
خاتمے پر تھا۔روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے کا مین تھیم ہی کرپٹ نظام کے
خاتمے کی تمنا تھا۔اب جب کہ عمران خاں حکومت بنانے جارہے ہیں تو اس کی
ابتداء ہی اس نعرے کی نفی سے ہورہی ہے۔جہانگیر ترین اور علیم خاں ان دنوں
سب سے متحرک ہیں۔دونوں کے خلاف کرپشن اور بے ضابطگیون کے معاملات عدالتوں
میں چل رہے ہیں۔علیم خان باربار طلب کیے جارہے ہیں جبکہ جہانگیر ترین کو
مجرم قراردیا جاچکا ہے۔یہی دونوں رہنما اس وقت عمران خاں کو وزیراعظم
بنوانے کے لیے سرگرم ہیں۔دونوں روزانہ کی بنیا د پر آزاد اراکین کو لارہے
ہیں۔ان اراکین کو اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں رکھا جارہاہے۔ان کے
مطالبات سنے جارہے ہیں۔ان مطالبات کے تسلیم کیے جانے کا اعلان کیا
جارہاہے۔جانے بدقسمی حائل ہے یا ان آزاداراکین کا ستارہ عروج پر ہے۔مطلوبہ
تعداد پوری نہیں ہوپارہی۔ آزاد پنچھیوں کو اپنے مطالبات پر باربار نظر ثانی
کا موقع مل رہاہے۔بارگین ہورہی ہے۔پیسوں کی بات ہورہی ہے۔وزارتو ں کی آفر
ہورہی ہے۔تبدیلی لانے والے اپنی ابتدا ء ہی سے تبدیلی کی نفی سے کررہے
ہیں۔انہیں عوامی مسلم لیگ۔مسلم لیگ ق اور متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔وہ ایک
وقت میں شیخ رشید کو اپناچپڑاسی رکھنے کے قابل بھی نہ سمجھتے تھے۔چوہدری
پرویز الہی کو سب سے بڑا ڈاکو قراردیتے تھے۔متحدہ سے متعلق ان کا موقف
تھاکہ اگر کبھی متحدہ سے اتحاد بنایا تو مجھ سے بڑا منافق کوئی نہ ہوگا۔آج
تینوں جماعتیں ان کے ساتھ ہیں۔ایک بڑا اچنبا سندھ میں بننے ولا گرینڈ
الائنس ہے۔یہ بھی متحدہ کی طرح تحریک انصاف پر اپنا مینڈیٹ ہڑپ کرلیے جانے
کا الزام لگاتاہے۔اب اس اتحاد کے بھی عمران خان کے حلیف بن جانے کی خبریں
آرہی ہیں۔پی ٹی آئی کوبار بار اپنے کہے کے خلاف کرنا پڑرہا ہے۔تبدیلی کے
نام پر جو چکر دیے گئے تھے۔وہ چکر ایک ایک کرکے کھلتے جارہے ہیں۔ |