کس کے ہاتھ پہ اپنا ووٹ تلاش کریں

اس دفعہ ہونے والے معاہدے میں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ دونوں فریقین کے درمیان طے پانے والا معائدہ دونوں جماعتوں کے ووٹرز کی رائے کے یکسر برعکس ہے ۔ خان صاحب کی وکٹری تقریر میں اس بات کا عندیہ کے جہاں بھی کسی کو تحفظات ہیں وہ حلقے کھولے جائیں گے یہ ایک سیاسی بیان تو ہوسکتا ہے لیکن اس پر عمل در آمد ممکن نہیں ۔ جس کی ایک مثال اس تقریر کے بعد خواجہ سعد رفیق کی این اے 131 لاہور کے حلقے کو کھولنے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بابر اعوان کی جانب سے چیلنج کرنے کا کہا گیا ہے ۔

عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان تحریک انصاف حکومت سازی میں مصروف ہے جب کہ دوسری جانب شکست خوردہ جماعتوں کے اتحاد نے بھی حکومت بنانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے کم از کم یہ تو طے ہے کہ یہ ممکنہ اپوزیشن جماعتیں ہر سطح پر پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے کے لیئے امیدوار سامنے لائیں گی اور کسی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے میدان خالی چھوڑنے کے موڈ میں قطعی نہیں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی حکومت سازی کے لیئے کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کم از کم ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے حمایت کے بعد کچھ مطمئن ہے جس کی وجہ دونوں جماعتوں کا ایک معاہدہ طے پا جانا ہے اس معاہدے کے نو نکات ہیں جو دونوں جماعتوں کے انتخابی منشور کے مکمل برعکس ہیں ، اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان نہیں بلکہ دوسرے درجے کی قیادت کے درمیان طے پایا ہے اور معاہدے پر انہی کے دستخط بھی موجود ہیں ۔

معاہدے میں شامل نو نکات میں زیادہ تر وہ نکات ہیں جن کو پورا کرنے کے لیئے حکومت سندھ کی منظوری اور رضامندی ضروری ہے جب کہ یہ بات بھی عیاں ہے پاکستان پیپلز پارٹی ہی سندھ میں حکومت بنائے گی اور اس کے پاس اتنی اکثریت بھی ہے کہ اسے کسی سے اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں اس حوالے سے پیپلز پارٹی ایم کیوایم کو واضح کرچکی ہے کہ ایسا ممکن نہیں کے آپ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کریں اور صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ۔ ایم کیوایم کی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کے کسی بھی جماعت کی حمایت کا فیصلہ بڑی جلدی کرلیا گیا ہے جب کہ ماضی میں کئی کئی گھنٹوں اس حوالے سے مشاورت کی جاتی تھی اور جنرل ورکرز کا اجلاس بلا کر کارکنان سے بھی رائےلی جاتی تھی اور اگر کوئی معائدہ طے پا جاتا تھا تو اس پر اعلیٰ قیادت کے دستخظ بھی ہوتے تھے ۔ اس دفعہ ہونے والے معاہدے میں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ دونوں فریقین کے درمیان طے پانے والا معائدہ دونوں جماعتوں کے ووٹرز کی رائے کے یکسر برعکس ہے ۔ خان صاحب کی وکٹری تقریر میں اس بات کا عندیہ کے جہاں بھی کسی کو تحفظات ہیں وہ حلقے کھولے جائیں گے یہ ایک سیاسی بیان تو ہوسکتا ہے لیکن اس پر عمل در آمد ممکن نہیں ۔ جس کی ایک مثال اس تقریر کے بعد خواجہ سعد رفیق کی این اے 131 لاہور کے حلقے کو کھولنے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بابر اعوان کی جانب سے چیلنج کرنے کا کہا گیا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کے ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی کی تیرہ قومی اسمبلی کی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے یہی حال کراچی کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی رہا یہ وہ نشستیں تھیں جہاں ایم کیو ایم اپنے وجود سے2013 کے انتخابات تک فاتح رہی تھی اب ان ہی نشستوں پر دھاندلی کا الزام تو لگایا جارہا ہے لیکن ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کو نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو ٹھہرایا جارہا ہے یہ بہت عجیب صوت حال ہے کہ ایک جانب ایم کیوایم پاکستان جہاں سے کراچی و حیدرآباد سے نشستیں جیتی ہے اس جیت کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے نامزد وزیراعظم کو ووٹ دینے کا اعلان کرتی ہے تو دوسری جانب ان حلقوں میں دھاندلی کے خلاف احتجاج بھی کرتی ہے جہاں سے انہیں شکست اور پاکستان تحریک انصاف کو فتح ہوئی ہے ۔ ابھی معاہدے کی بیل منڈیر بھی نہیں چڑھی کہ دونوں جماعتوں کی مقامی قیادت کے درمیان اختلافات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے پاکستان تحریک انصاف کراچی کی قیادت نے کہا ہے ہمارا ایم کیوایم سے اتحاد کرنا مجبوری ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا اس پر ردعمل دیتے ہوئے ایم کیو ایم کی قیادت کا کہنا ہے کہ ابھی ابتدا میں یہ حال ہے تو آگے چل کے کیا ہوگا۔

اس تمام تر دلچسپ صورت حال میں سب سے زیادہ مایوس دونوں جماعتوں کے ووٹرز ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز نے اس کو ووٹ اس لیئے دیا کہ وہ ایم کیوایم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور ماضی میں خود پاکستان تحریک انصاف کے قائدین ایم کیوایم پر سنگین الزامات لگاتے رہیں اور کئی مواقعوں پر ان کے لیئے شدید تضحیک آمیز الفاظ بھی ادا کیئے گئے ۔ دوسری جانب سے ایم کیوایم کے قائدین کے جانب سے بھی ایسا ہی رویہ دیکھنے میں آیا جس پر ایم کیوایم کے ووٹرز نے پاکستان تحریک انصاف کے اس رویّے کے خلاف اسے ووٹ نہیں دیا اور ایم کیو ایم کو سپورٹ کیا ۔ لیکن دونوں کے ووٹرز اس بات سے قطعی لاعلم تھے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کے ان تمام باتوں کے باوجود یہ دونوں جماعتیں ایک ہوجائیں گی اور ان کی رائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے طور پر فیصلہ کرلیں گی۔ اس معاہدے کے اثرات یقیناً آئندہ آنے والے سال میں مقامی حکومت کے انتخابات پر ضرور پڑیں گے اور اس بار بھی اس کا بھرپور فائدہ ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی کو ۔ ایم کیوایم پاکستان کے حلقوں میں دھاندلی کی بات مان بھی لی جائے تو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کے ایم کیوایم کا ووٹ بینک شدید متاثر ہوا ہے ایم کیوایم کو اس کے اندر سے وجود میں آنے والی پارٹیوں نے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچایا جتنا پاکستان تحریک انصاف، تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی نے پہنچایاہے ۔ مجھے نہیں لگتا ہے یہ اتحاد تادیر قائم رہ پائے گا کیوں کہ یہ غیر فطری اتحاد ہے اور غیر فطری اتحاد اس لیئے ہے کہ دونوں جماعتوں کے ووٹرز کی رائے کے برخلاف کیا گیا ہے ۔اب جہاں پاکستان تحریک انصاف کو کراچی کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے تو اسے اس شہر پر بھر پور توجہ دینی ہوگی ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اب سبق سیکھنا چاہیے اور اس موقع کو قطعی ضائع نہیں کرنا چاہیے یہ اچھا موقع ہے اپنے کام اور کردار سے اپنے دامن پر لگے داغ دھو ڈالے اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرے۔

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 149789 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More