سغرہ نے افسردگی سے رمشہ کی طرف دیکھا۔ اسے ایک موٹی سی
گالی دیتے ہوئے کہا۔ تیری وجہ سے تین ہزار کی پھکی پڑھ گئی میرے کو
۔تجھےشرم نہیں آئی۔ اس نے سغرہ کی طرف بے نیازی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ مل
جائے گا نا ،کام کہیں اور مجھے ذیادہ باتیں نہ سنا ۔ سغرہ نے ایک اور گالی
رسید کرتے ہوئے کہا۔ کس ماں نے سکھایا یہ تیرےکو۔ رمشہ نے بھی اس انداز میں
جواب دیا۔ تو نے اور کس نے۔
اس کی ماں کھڑی ہو گئی اور بالوں سے پکڑ کر گول گھمانے لگی ،ابھی کچھ مکے
اور تھپڑ ہی لگے تھے کہ ۔اس کا باپ آ گیا۔ اس نے جب وجہ پوچھی تو غصے میں
بپھری ہوئی زبیدہ نے ساری بات بتا دی۔ یہ سب سننا تھا کہ اس نے مار مار کر
رمشہ کا منہ سوجھا دیا۔ سغرہ نے چنے کی دل چولھے پر چڑھائی تھی ۔ کٹائی
،پٹائی میں گرتی ہوئی رمشہ کا ہاتھ دیکچی کو لگا دال تو ساری دیکچی سمیت
الٹ گئی ، رمشہ کا ہاتھ چولھے پر اٹکا ۔سغرہ کو اچانک سے رحم آیا اور وہ
درمیان آ کر تھوڑی مار کھانے کے بعد باپ کا غصہ کم کرنے میں کامیاب ہو
گئی۔ اس نے چیختے ہوئے کہا۔ جب ایک کمرے میں ست بچوں کے ساتھ رہیں گئے تو
۔۔۔۔۔اس کو کیوں مارتا ہے چھوڑ ۔۔۔وہ سغرہ اوررمشہ کو گالیاں دیتا ہوا باہر
نکل گیا۔رمشہ کی چیخوں سے تنگ آ کر اس کی اماں اسے پاس کے کلینک میں لے
گئی۔ وہاں اتفاق سے ایک اخباری رپورٹر نے رمشہ کی حالت دیکھ لی۔ اس نے سغرہ
سے ہمدری سے پوچھا ۔ اس بچی کو ہوا کیا ہے۔ ہاتھ جلا ہوا ۔ منہ سوجھا ہوا۔
سغرہ نے سوچا شاہد دو پیسے مل جائیں ۔ وہ رونے لگی اور کہنے لگی ۔۔۔۔غریبوں
کا تو اللہ ہی ہے جی۔ جس کے گھر کام کرتی تھی ۔اس بیگم نے ہاتھ جلا دیا ۔
بہت مارا اور کام سے بھی نکال دیا میری بچی کو ۔ اسے سینے سے لگا کر ایسے
بین کرنے لگی کہ اس اخباری رپورٹر کا دل پسیج گیا۔ اس نے ہزار کا نوٹ نکال
کر سغرہ کو دیا۔
تمکین نے غصے سے کہا۔ انسان ہیں یا جانور ہیں ،جس کے پاس پیسہ آ جاتا ہے
،انسان سے حیوان بننے میں دیر نہیں لگتی ۔ کیا نام ہے ان کا اور کہاں رہتے
ہیں ۔ سغرہ نے عارفہ سے متعلق تمام معلومات دے دیں ۔ اس رپورٹر نے مذید اس
سے متعلق پوچھا ۔ اس نے بتایا کہ وہ ریلوئے لائن کے ساتھ جو جگیاں ہیں وہا
ں جو کچے گھر بنے ہیں وہاں رہتی ہے۔ سغرہ جب گھر آ رہی تھی تو اس نے رمشہ
کو کھٹی میٹھی گولیاں نام کی ایک ڈبی لے کر دی اور پیار سے بولی ۔ چل جو
ہویا ہزار کا نوٹ ملا ہے۔ رمشہ نے ہنس کر کہا دو ڈبیاں اور لے کر دے مجھے
،یہ میرا ہے ۔ ساتھ ہی درد کی وجہ سے ایک آہ بھری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق نے لائے ہوئے گجرے ٹیبل پر رکھے اوربیڈ پر لیٹ گیا۔نصرت شدید غصے سے
بھری تھی مگر اس کے لیے چارہ نہیں تھا کہ کہیں اور جاتی ۔ اس کا ساتواں ماہ
چل رہا تھا۔ تھوڑی دیر بیڈ کی دوسری طرف بیٹھنے کے بعد وہ دوسری طرف منہ کر
کے لیٹ گئی۔ آفاق نے گجرے نکال کر اسے پہنانے کے لیے جب اس کا ہاتھ پکڑا
تو نصرت نے غصے سے جھٹک دیا۔ اسے آفاق پر مذید غصہ آ رہا تھا۔آفاق نے
پیار سے کہا۔ دیکھو نصرت بات کو بڑھایا نہیں کرو۔ اچھی اچھی کتابیں پڑھا
کرو۔ کچھ ماہ میں ہم دو سے تین ہو جائیں گئے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارا بچہ
وہ سب دیکھے جو میں نے دیکھا ہے۔ نصرت نے نہ چاہتے ہوئے بھی کروٹ آفاق کی
طرف کرتے ہوئے حیرت اور تجسس سےکہا ، آپ نے کیا دیکھا ہے؟
آفاق نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ میرے بابا بہت سخت تھے ۔ امی کو
بات بات پر ڈانٹ اور مار پڑتی تھی ۔ جب میں بڑا ہوا تب بھی اپنی ماں کے حق
میں بول نہیں پاتا تھا۔ کبھی کبھی تو خود پر اتنا غصہ آتا کہ جی چاہتا خود
کشی کر لوں ۔ مگر امی نے مجھے کچھ بننے اور ان کے لیے کچھ کرنے کی خواہش دے
کر میرے جذبات کو مثبت سمت دی۔ بابا کی اچانک بیماری نے گھر کے حالات کو
مذید بدل کر رکھ دیا۔ زمہ داریوں نے مجھے وقت سے پہلے بڑا کر دیا۔ بابا کی
وفات کے بعد اب میں سوچتا ہو ں کہ انسان کو حالات توڑتے موڑتے رہتے ہیں ۔
بابا بہت سے مساہل کا شکار تھے ، چونکہ ان کا بس کسی اور پر چلتا نہیں تھا
تو وہ امی پر اپنا غصہ نکال کر کچھ سکون محسوس کرتے ہوں گئے۔ مالی مسائل ،
صحت کے مسائل اور زندگی سے شکوے انسان کی سوچوں اور عمل کو بے حد متاثر
کرتے ہیں ۔ نصرت خاموشی سے آفاق کی باتیں سن رہی تھی۔ اس کے منہ سے ایک
لفظ ادا نہیں ہوا ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آفاق جو کچھ بھی عورتوں کے حق کی
ظاہری طور پر حمایت کرتا ہے اصل میں وہ عورتوں کی نہیں بلکہ اپنی ماں کی
حمایت کرتا ہے ،جو وہ اس وقت نہ کر سکا جب وہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی ذات
کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ہے۔
آفاق نے نصرت کو کھویا ہوا دیکھا تو پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔
دیکھو نصرت سوچوں انسان اگر ایک دوسرے کی کمزوریوں اور کمیوں کو نظر انداز
نہیں کریں گئے تو رشتے تو فوراً ٹوٹ جائیں گئے ۔ تم جسے میری منافقت سمجھتی
ہو۔ اصل میں وہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ تم کہو تم کیا چاہتی ہو۔ یہ ایک ایسا
سوال تھا جو پہلی بار آفاق نے اس سے کیا تھا۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی۔
نصرت کبھی اس کو اپنے خیالات نہیں بتا سکی تھی۔ اس نے یہ خود سے ہی سوچ لیا
تھا کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اس نے حیرت سے آفاق کی طرف دیکھا۔
آفاق نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ میں نے کبھی بھی نہیں کہا کہ
میں بلکل درست ہوں ۔ چند خوبیوں اور بہت سی خامیوں کے ساتھ ہی شاہد تمہارے
سامنے ہوں مگر ہم کوشش تو کر ہی سکتے ہیں ، اپنے آپ کو بہتر کرنے کی ۔
زندگی اس قدر طویل نہیں ہے ،ہمیں اس چھوٹی سی زندگی کو جہاں تک ہو سکے
خوبصورت بنانا چاہیے ۔ اپنے لیے اپنے بچوں کے لیے۔ تم کیا سوچتی ہو؟
نصرت نے پھر خاموشی سے آفاق کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور لمس
نے نصرت کو کچھ بولنے نہیں دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمکین نے ہمدردی اور دُکھ بھرے لہجے میں کہا۔ میرا بس چلے تو ایسے لوگوں کے
ساتھ وہ سلوک کروں ،کہ یاد ہی رکھیں ۔ حارث نے مسکرا کر کہا۔ تمہیں اخبار
کی رپورٹر نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ میری مدر ٹریسا۔ اٹھو اور کھانا کھا لو۔
تمکین نےافسردگی سے کہا ، تمہیں پتہ ہے ہمارا معاشرہ اس قدر پسماندہ کیوں
ہے۔ حارث نے سوالیہ نگاہوں سے تمکین کی طرف دیکھا۔ تمکین نے غصے سے بھری
ہوئی آواز میں کہا ۔ اس لیے کہ یہاں حق کے لیے آواز اٹھانے والے لوگوں کی
کمی ہے۔ حارث نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کمی تو ہے مگر ہیں تو ۔ یہ بھی اللہ کا
شکر ہے۔ تمکین نے سنجیدگی سے کہا۔ میں کل خود جاوں گی اپنی ٹیم کے ساتھ سعد
اور شیزاد سے کہہ کر اس واقعہ کی لائیو کوریج کرواتی ہوں ۔ پھر دیکھوں گی ،
کتنے بڑے لوگ ہیں ،جنہوں نے ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا
ہے۔ حارث نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جو چاہے کرو مگر ابھی اُٹھو کھانا کھا لو ۔
مجھے بھی صبح آفس جانا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے اپنے شوہر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھی۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔وہ اس سے محبت کرتی ہے یا پھر صرف اپنے بھائیوں
کے طعنوں سے بچنے کے لیے ،اسے قبول کیے ہوئے ہے۔ وہ آفاق کو سمجھنے سے
قاصر تھی یا پھر خود کو ہی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ آفاق سکون کی نیند سویا
ہوا تھا۔ جبکہ کہ اس کا ذہین بے شمار خیالات سے گتھا ہوا تھا۔
وہ اپنے آپ سے سوال کر رہی تھی۔ شاہد ہر عورت کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ
اسی کیفیت میں ہی تمام عمر گزار دیتی ہے۔ آفاق کے اطمینان بھرے چہرے کو
دیکھتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں کہا۔ کبھی کوئی مرد کسی عورت کے جذبات نہیں
سمجھ سکتا ۔ یہ ایسی دلدل ہے ،جو عورت کے حصے میں آئی ہے ۔ ابھی وہ سوچ ہی
رہی تھی کہ آفاق کی انکھ کھل گئی اس نے اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ
لیا۔ اس نے شرارت بھر ے انداز سے کہا،مجھ پر کوئی غزل لکھنے کا تو نہیں سوچ
رہی۔نصرت کے چہرے پر بھی بے اختیار مسکراہٹ چھا گئی۔
آفاق نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا نصرت کل جب میں سمندر کے کنارے پر بیٹھا
تھا تو تمہارے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ نصرت نے آفاق کی طرف دیکھ کر کہا۔
شاہد عورت اور سمندر میں بہت مماثلت ہے ،اسی لیے آپ کو میری یاد آئی ہو
گی۔ آفاق نے ہنس کر کہا ٹھیک کہہ رہی ہو۔ تم سمندر ہو اور میں کنارہ
،آفاق کی نظر گھڑی پر پڑی اور وہ اچھل کر بیٹھ گیا ۔ ارے دیر ہو رہی ہے۔
وہ فوراً سے بستر سے اتر گیا۔
نصرت بھی نہ چاہتے ہوئے اپنی زمہ داریوں کو نبھانے کے لیے کچن کی طرف چل دی
مگر اس کا دماغ سوچوں میں ہی گم تھا۔ آفاق کی باتیں تم دن اس کے دماغ میں
گونجتی رہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ اپنے کمرے میں لیٹی فیس بک دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر شعر پر تھی ۔ واہ
کیا لکھا ہے ۔ واہ ذبردست۔
ہم راستوں میں گھوم رہے تھے پریشاں ۔ ۔۔جب وہ چہرہ معصوم آیا تھا۔
ہم تنہا تھے خود کو کوستے ہوئے اے دل۔۔۔۔۔۔وہ اپنے سنگ ہجوم لایا تھا۔
اس نے اپنی دوست نادیہ کو میسج کیا۔ واہ بھئی ،تم تو شاعرہ ہو گئی۔نادیہ کے
جواب کی منتظر بیٹھی تھی کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر میسج نے اس
کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ آداب حضور۔ اس نے مسکراتے ہوئے ہی ،،،جلدی
جلدی سے جواب دیا۔ تسلیم ۔۔آج تو شام سے پہلے ہی ۔۔۔۔یہ معجزہ کیسے ہو
گیا۔ کہیں مجھے ہارٹ اٹیک ہی نہ آ جائے۔ آگے سے دھڑکتے دل کا میسج فوراً
سے ہی جواب میں آگیا ۔ پھر خرم نے لکھا ۔ کبھی کبھی دل مجبور کر دیتا ہے
اتنا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر آپ کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ آمنہ نے کمرے کے قریب
آہٹ سنی تو پہلے کے سارے میسج ڈلیٹ کر دیے۔ تنزیلہ کمرے میں آ چکی تھیں ۔
امی ، آ پ کہیں جا رہی ہیں ۔ فون کو تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے آمنہ نے
تنزیلہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
تنزیلہ نے آمنہ کی طرف ایک نظر دیکھا اور بولی ۔ ہاں اور تم بھی ساتھ چل
رہی ہو۔ آمنہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ امی دیٹ اِذ ناٹ فیر ۔آپ کو جانا ہے
تو جائیں نا۔ مجھے ابھی اپنی پڑھائی کرنی ہے ۔ کل میرا ٹیسٹ بھی ہے۔ پھر
آپ کہیں گی ۔نمبر نہیں آئے ۔ فیل کیوں ہو گئی۔ پڑھنے کے لیے وقت بھی تو
ملے۔ تنزیلہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ تمہیں پتہ ہے احمر کل ہی دُبئی سے
واپس آ یا ہے ۔ میں چاہتی ہوں ،باجی کا دھیان تمہاری طرف جائے۔ آمنہ نے
بیزاری سے کہا۔ امی آپ کی باجی کا دھیان مجھ پر جائے گا تو کیا ہو گا۔
تنزیلہ نے اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ بے وقوف لڑکی ۔۔تمہاری
اور احمر کی شادی کروانا چاہتی ہوں میں ۔ ایک اکلوتا بیٹا ہے باجی کا۔ نہ
کوئی بھائی نہ کوئی بہن ۔ عیش ہو گئے تمہارے ۔
آمنہ نے پھر بیزاری سے کہا۔ احمر بھائی مجھ سے سات سال بڑے ہیں ۔ شکل
دیکھی ہے آپ نے ان کی۔ تنزیلہ نے آمنہ کو سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ارے
اتنی بُری بھی نہیں ہے ۔ آمنہ ہنسنے لگی ۔ چلیں آپ نے یہ تو مان لیا کہ
آپ کا بھانجا بُری صورت کا ہے۔ تنزیلہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ سیرت دیکھتے
ہیں سیرت۔ صورت تو وقت کے ساتھ اچھے اچھوں کی بدل جاتی ہے۔ آمنہ نے
افسردگی سے کہا۔ امی ایسا تھوڑا ہی سوچا جاتا ہے۔ ہم خوبصورت سے خوبصورت
چیز کا انتخاب کرتے ہیں ۔یہ تھوڑا ہی سوچتے ہیں کہ تھوڑے عرصے بعد وہ
خوبصورت نہیں رہے گی تو کوئی بدصورت شے ہی لے لیں ۔ تنزیلہ نے غصے سے کہا۔
تم میرے سال چل رہی ہو کہ نہیں ۔ آفاق آجائے تو تمہاری شکائت کروں گی۔
اسی نے لاڈ دے رکھا ہے۔ ورنہ کون بار بار فیل ہونے کے باوجود پیسہ برباد
کرتا ہے ۔ آمنہ نے افسردگی سے کہا۔ اب دو سال ہی تو ضائع کیے ہیں ۔ آفاق
بھائی ہی کو سائنس پڑھانے کا شوق تھا۔۔ آپ تو طعنے ہی دیتی رہتی ہیں ۔
تنزیلہ نے روکھے انداز میں کہا۔ اچھا اچھا ۔ اب تیار ہو جاو۔میرے ساتھ چلو۔
آمنہ بے دلی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔دل ہی دل میں اس نے کہا۔ آپ جس کے لیے
تیار ہونے کہا کہہ رہی ہیں ۔اس کو میں منہ دھوئے بغیر بھی اچھی ہی لگوں گی۔
کوا کہیں کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمکین نے بڑی مشکل سے سغرہ کا گھر ڈھونڈ لیا تھا ۔ سغرہ نے جب اسے پوری ٹیم
کے ساتھ دیکھا تو حیران و پریشان ہو گئی ۔ اسے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ
اتنے لوگ ہمدردی کے لیے اس کے پردہ لگے گھر میں کھڑے تھے۔ رمشہ کا ہاتھ سب
باری باری دیکھ رہے تھے۔ رمشہ کبھی سغرہ کی طرف تو کبھی ان لوگوں کی طرف
دیکھتی۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر رمشہ ڈر گئی۔ تمکین نے اسے اپنے ساتھ
عارفہ کے گھر لے جانے کو کہا۔ سغرہ رونے لگی ۔ چھوڑو باجی چھوڑو ۔ ہمارا
انصاف اللہ کرئے گا۔ تمکین نے کہا۔ اللہ آسمان سے خود نہیں اُترتا ۔ انصاف
کے لیے اپنے بندے بھیجتا ہے۔ ہم انصاف دلائیں گئے تمہیں ۔ تمہیں شاہد پتہ
نہیں کچھ ماہ پہلے ایک وکیل جوڑے نے جب یہ حرکت کی تھی تو کیا ہوا۔ جیل
ہوئی ہے اُنہیں ۔ منہ چھپاتی پھر رہی ہے وہ عورت۔ سغرہ نے دل ہی دل میں
سوچا ۔ کہیں میرا جھوٹ کھل نہ جائے ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ باجی ہم تو جی
کام والے لوگ ہیں ۔ ان سب چکروں جوگے نہیں ۔ تمکین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر
تسلی دیتے ہوئے کہا۔ کیسی ماں ہو۔ تمہاری بیٹی کا یہ حال جس نے کیا ۔ اسے
سزا نہیں دلاوں گی۔ کل وہ کسی اور کا بھی یہی حال کرئے گی۔ سغرہ نے روتے
ہوئے کہا۔ اب تو ہتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ نے جو مدد دی اللہ صلہ دیوے۔
تمکین نے پھر اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تم لے کر چلو تو عارفہ کے گھر ۔ باقی
ہم جانے اور انصاف جانے۔ ہم سے جو بن پڑے گا تمہاری اور مدد بھی کریں گئے ۔
سغرہ کے دماغ میں پیسوں کا خیال ابھرنے لگا۔اس نے دل ہی دل میں سوچا ،کسی
کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں جھوٹی ہوں ۔
اس نے بین کرنے والے انداز میں کہا ۔ لے تو جاوں گی باجی ۔ اس باجی کے گھر
۔پر میری اور میری بچی کو بچانا۔
تمکین نے اسے تسلیاں دی اور اسے ساتھ لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ چل پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ کالج میں نادیہ سے باتیں کرتے ہوئے ،بار بار ہنس رہی تھی۔ نادیہ نے
اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ تمہیں یوں فلرٹ کرتے ذرا ڈر نہیں لگتا۔ آمنہ نے
ہنتے ہوئے کہا۔ میرے ماموں پولیس والے ہیں ۔ میں کیوں ڈروں ۔وہ زمانہ گیا
جب لڑکے لڑکیوں کو اُلو بناتے تھے ۔ آج تو اُلو بنتے ہیں ۔ وہ کہہ کر زور
سے ہنسی۔ نادیہ نے افسردگی سے کہا مجھے تو خرم اور شیزاد دونوں ہی سچے لگتے
ہیں ۔ آمنہ نے سنجیدگی سے نادیہ کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دیر خاموش رہنے
کے بعد بولی ۔ مائی ڈیر کوئی کسی کے لیےسچا نہیں ہوتا ۔ سب اپنی اپنی خوشی
کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ مجھے میرا لطف عزیز ہے تو انہیں ۔ ان کا۔ کوئی کسی
کے لیے نہیں ہے یہاں ۔ یہ تھوڑا سا دور ہے پھر ہم بھی دوسروں کی طرح زمہ
داریوں کی چکی میں جھونک دیے جائیں گئے ۔ پھر خرم کہاں اور شیزاد کہاں ۔
میں کہاں اور تم کہاں ۔ آمنہ نے ایک سرد آہ بھری۔ نادیہ نے اس کی طرف
دیکھ کر بڑے یقین سے کہا ،کہہ تو تم سچ رہی ہو مگر آدھا ادھورا سچ ہے یہ۔
انسان کی ماضی کبھی اس سے الگ نہیں ہوتا ، ایک لمحہ بھی نہیں ۔ یہ بات
تمہیں پتہ نہیں کیوں سمجھ نہیں آتی۔ میں پھر کہوں گی۔ تم آگ سے کھیل کر
چنگاریوں سے خوش ہو رہی ہو۔ ایسا تو کوئی بھی دماغ رکھنے والا بندہ نہیں کر
سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمکین جب عارفہ کے گھر پہنچی تو وہ ابو بکر کو لے کر ڈاکٹر کے ہاں جانے کے
لیے تیار ہو رہی تھی۔ وقار کو بھی اس نے فون کر کے آفس سے بلایا تھا ، ابو
بکر کی طبعیت کافی خراب تھی۔ وقار نے جب گھنٹی بجنے پر دورازہ کھولا تو وہ
زبیدہ کو کچھ لوگوں کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ عارفہ اسے رمشہ سے متعلق
بتا چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ زبیدہ اور رمشہ کو عارفہ نے نکال دیا ہے ۔
اسے دیکھ کر فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ تو کسی چینل سے متعلقہ لوگ ہیں ۔
اس نے ان سے آنے کی وجہ دریافت کی ۔ تمکین نے اس پر اسے اور اس کی بیوی کو
بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ عارفہ کو وقار نے اندر رہنے کا کہا اور ان
لوگوں کوسمجھانے کی کوشش کی کہ عارفہ نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ جس چیز کا
الزام سغرہ نے اس پر لگایا ہے۔ ہاں ان لوگوں کو کام سے ضرور نکال دیا ہے ۔
مارنا پیٹنا ہم نہیں کرتے ۔ تمکین نے رمشہ کو سامنے کرتے ہوئے کہا۔ آپ یہ
کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس بچی کو چوٹیں خود بخود لگ گئی ۔کیسے بے حس انسان
ہیں آپ ۔ وقار نے پیچھے ریکارڈنگ ہوتے دیکھی تو غصے سے کہا ۔ یہ ڈرامہ بند
کرئیں ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔ تمکین نے اپنے انداز میں مذید سختی لاتے ہوئے
کہا ۔ ہم دنیا والوں کو آپ کی بیوی اورآپ کا چہرہ ضرور دیکھائیں گئے۔ ایک
معصوم بچی پر ظلم کرتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آئی۔ وقار نے چیخ کر کہا ۔
میں نے بتایا ہے نا آپ کو ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ آپ لوگ اپنے مرچ مصالحہ
کے لیے کسی اور کا گھر ڈھونڈیں ۔ تمکین نے تمسخر خیز انداز میں ہنس کر کہا
۔ مرچیں تو آپ کو لگنے والی ہیں ۔ جب آپ کی بیوی کو پولیس لے کر جائے گی
تب۔ وقار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا ۔ اس نے تمکین کے پاس سے گزرتے
ہوئے ریکارڈنگ کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کی تو تمکین نے خبر کو مذید
مکمل کرتے ہوئے کہا۔ آج ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ انسانیت سے اس شرمناک حد
تک گر چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو اچھائی کی تلقین کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے
بڑھ کر ظلم کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں ۔ ان صاحب کی بیگم نے ایک معصوم بچی کو
شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور یہ ہمیں دھمکیاں دے کر سچائی نہ دیکھانے پر
مجبور کر رہے ہیں ۔ جیسی بیوی ویسا شوہر۔ ابھی وہ مزید بھی بول رہی تھی مگر
وقار نے دوسرے ریکارڈنگ کرنے والے کو بھی روک لیا تھا۔ محلے کے لوگ جمع ہو
چکے تھے۔ کوئی تو سغرہ کو جھوٹا کہہ رہا تھا تو کوئی عارفہ سے متعلق حیران
تھا۔ ذیادہ تر لوگوں کے نزدیک وقار اور عارفہ ہی غلط تھے ۔ رمشہ کے چہرے نے
سب کے دلوں کو ہمدردی پر مجبور کر دیا تھا۔ وقار چیختے ہوئے کہہ رہا تھا۔
میں نے کہا نا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ ہم شریف لوگ ہیں ۔تمکین نے غصے سے کہا، نقاب
کر لینے سے کسی کا جسم چھپ سکتا ہے کردار نہیں ۔خود کو شرافت کی چادر میں
لپیٹ کر لوگ کیا کیا کر جاتے ہیں ، سب جانتے ہیں ہم آپ لوگوں کے اصل چہرے
ضرور دنیا کو دیکھائیں گئے۔ محلے والوں نے چینل والوں کو جانے کا کہا اور
وقار کو بھی چند ایک نے تسلی دی۔ معاملہ فی الوقت کے لیے رفع ہو گیا۔ وقار
اندر آیا تو اس اس کی انکھیں غصے سے سرخ تھی اور ماتھے پر کہیں بل تھے۔
عارفہ نے ایک نظر وقار کی طرف دیکھا۔ کافی دیر خاموشی سے بیٹھی رہی، پھر
دھیرے سے بولی ۔ آپ کے لیے پانی لاوں ۔ وقار نے چیخ کر کہا ذہر لا دو۔
عارفہ کی انکھوں میں آنسو تھے۔ وقار نے افسردگی سے کہا۔ جب لوگ یہ سب
ہمارے بارے میں دیکھیں گئے تو سب کو زبیدہ ہی معصوم اور ہم مجرم نظر آئیں
گئے۔ دو بچے نہیں سنبھالے گئے تم سے۔ پہلے کی عورتیں بھی تو تھیں دس دس بچے
سنبھالتی تھی۔ میڈیا اور موبائل نے زندگی عذاب کر دی ہے۔ تمہیں فیس بک اور
واٹس ایپ سے فرصت ملے تو کچھ اور دیکھو۔ اس رمشہ کا منہ سوجا ہوا اور ہاتھ
جلا ہوا تھا۔ زبیدہ کا کہنا ہے کہ یہ سب تم نے کیا ہے۔
عارفہ نے روتے ہوئے کہا، میں نے اسے صرف ایک طمانچہ ہی مارا تھا اور کچھ
نہیں کیا۔ وقار نے غصے سے کہا۔ تم کیسے ثابت کرو گی۔ عارفہ مذید رونے لگی۔
میرے اللہ میں نے کون سا گناہ کیا تھا۔ عارفہ کے کہنے پر وقار پھر ذور سے
چلایا ، گناہ تم نے نہیں میں نے کیا ہے جو تمہارے جیسی بے وقوف عورت مجھے
ملی ہے۔ ابو بکر کے رونے کی آ واز پر عارفہ اُٹھ کر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق واپس نہیں آیا تھا۔ کافی دیر ہو چکی تھی۔ تنزیلہ بہت پریشان تھی۔
آفاق کا فون بھی بند آ رہا تھا۔ رات کے بارہ ہونے والے تھے ۔ نصرت ،آمنہ
اور تنزیلہ پریشان بیٹھی تھیں ۔ تنزیلہ نے آفاق کے دوستوں کو فون کیا۔ کسی
کو آفاق سے متعلق کچھ خبر نہ تھی۔ تنزیلہ رونے لگی۔ ایک تو پتہ نہیں کیوں
یہ لڑکا دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے ۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر
پتہ نہیں کس کسی کے ساتھ دشمنی لی ہوئی ہو گی۔ اللہ خیر رکھے میرے بیٹے کی۔
میرا آفاق ۔ آمنہ نے مایوسی سے کہا امی اب تو صبح ہو گئی ہے۔ ماموں کو
فون کریں اور بھائی کا بتائیں ۔وہ پتہ لگا لیں گئے ۔ تنزیلہ نے اپنے بھائی
کو فون ملاتے ہی رونا شروع کر دیا۔ انہوں نے معاملہ جاننے کے بعد کہا فکر
نہ کریں میں پتہ کرتا ہوں ۔
آفاق گھر آتے ہوئے ، آدھے راستے سے غائب ہوا تھا ۔ اس کی گاڑی کا بھی
کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ نصرت کی پریشانی سے مزید طبعیت خراب رہنے لگی
تھی۔ ڈلیوی قریب تھی اور آفاق کا کہیں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اس کی این
جی او کا کام بھی فرحت دیکھ رہی تھی۔ شوہر کے واپس آ جانے کی وجہ سے اس نے
این جی او جانا چھوڑا تو باقی والنٹیر بھی غائب ہو گئے۔ فرحت نے دو کمرے کے
اس مکان کو تالا لگایا اور چابی آ کر تنزیلہ کو دے دی۔ فرحت نے بتایا کہ
اس کے شوہر نے اسے اپنے ساتھ دبئی لے جانے کا بندوبست کر لیا ہے ۔ اس لیے
وہ نوکری اور یہ این جی او دونوں ہی چھوڑ رہی ہے۔ آفاق سے متعلق افسوس
کرتے ہوئے جب وہ چلی گئی تو نصرت اپنے کمرے میں بیٹھ کر دیر تک روتی رہی ۔
آفاق کو غائب ہوئے ایک ماہ سے اوپر ہو گیا تھا۔ نصرت کو شدت سے احساس ہو
رہا تھا کہ آفاق کس قدر اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے مرد کی عورت کی زندگی
میں اہمیت کو پہلی بار محسوس کیا تھا۔ اسے آفاق کی آواز اپنے کانوں میں
گونجتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ ہاں تم سمند ر ہو اور میں تمہارا کنار ہ۔ اس نے
روتے ہوئے کہا۔ آفاق واپس آ جائیں پلیز۔ مجھے سمیٹ لیں ۔ مجھے اب احساس
ہو رہا ہے ، میں آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں ۔ اسے اپنی امی کی باتیں آج سچ
محسوس ہو رہی تھیں ۔ اس نے کیسے یقین سے کہا تھا۔ امی مردوں کی کمی ہے ،
پھوپھو کیوں روز روز مار کھا کر آتیں ہیں اور پھر خود ہی کچھ دن بعد واپس
چلی جاتی ہیں ۔ اس کی امی نے افسردگی سے جواب دیا تھا۔ تم نہیں سمجھ سکتی
نصرت ، تمہاری شادی ہو گی تو تمہیں پتہ چلے گا۔ نصرت نے الجھے ہوئے انداز
میں کہا۔ کیا پتہ چلے گا۔ دنیا میں سارے مرد مر گئے ہیں ۔ پھوپھو اتنی
پیاری ہیں ۔ کوئی اور ان سے شادی کر لے گا۔ نصرت کی ماں نے نصرت کی بے
وقوفی پر ہنستے ہوئے کہا۔ ہمارے ہاں کی عورتیں شوہر کی ذیادتیوں سے تنگ آ
کر خود کشی کا تو سوچ سکتی ہیں مگر کسی دوسرے مرد کا خیال بھی ان کے ذہین
میں نہیں آتا۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر سے کس قدر محبت کرنے
لگتی ہے۔ اس کی چاہت بس فقط اپنے شوہر کی خوشی ہی رہ جاتی ہے۔ نصرت نے غصے
سے کہاتھا ،پہاڑ میں جائے ایسی محبت۔ پھوپھو روتے ہوئے ہنس پڑی تھی۔
نصرت صرف گیارہ سال کی تھی جب اس کی پھوپھو ہمیشہ کی طرح لڑائی کے بعد
سوجھا ہوا منہ اور زخم لیے آخری دفعہ آئیں تھیں ۔اس بار وہ بات بات پر
رونے کی بجائے بلکل خاموش تھیں ۔ امی کی باتوں سے نصرت کو پتہ چل چکا تھا
کہ پھوپھا دوسری شادی کر رہے ہیں ۔ نصرت کے لیے وہ دن انتہائی غمناک تھا
،جب اس کی پھوپھو صبح اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی۔ نصرت کے
پھوپھا کو جب موت کی خبر ملی تو وہ آ گئے اور بیوی کی لاش اپنے گھر لے
جانے کا مطالبہ کر دیا۔ نصرت کے ابو نے پوسٹ ماٹم اور پولیس کے چکروں سے
بچنے کے لیے پھوپھا کی بات مان لی۔
دونوں خاندانوں نے اپنی اپنی عزت بچانے کے لیے پھوپھو کو آسیب کے اثر میں
ہونے کی خبر اُڑا دی۔ نصرت کی زندگی پر اس واقعہ نے گہرا اثر ڈالا۔ اگرچہ
اس کے باقی بہن بھائی بھی یہ بات جانتے تھے مگر نصرت حساس ہونے کی وجہ سے
اندر ہی اندر اپنے ابو امی کو بھی پھوپھا کی طرح ظالم قرار دے رہی تھی۔
پھوپھو کے آسیب زدہ ہونے سے متعلق آفوہ پھوپھا نے پہلے بھی پھیلا رکھی
تھی۔ سب لوگوں کو یہی بتایا گیا۔ کہ رات کو سوئی تو چریل نے گلا گونٹ کر
مار دیا۔
نصرت پھوپھو کی موت پر حیرت اور صدمہ سے انہیں دیکھتی رہی ۔ وہ اس دن اس
قدر رو نہیں پائی تھی جس قدر ماضی کو یاد کرتے ہوئے آ ج رو رہی تھی۔ اس کی
طبعیت خراب ہونے لگی تو تنزیلہ نے اس کے میکے فون کیا۔ اس کا بھائی اور ابو
فوراً ہی پہنچ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق نے دوسری دفعہ بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ وڈیرے اصغر علی خان کے نوکروں
نے اسے بُرے طریقے سے پیٹا تھا۔ وہ سوجھے منہ اور درد ذدہ جسم کے ساتھ
بھوسے پر اوندھا پڑھا تھا۔ اسے امی اور نصرت کی یاد آ رہی تھی۔جو اس کی
ایک آواز پر اس کے سامنے کھڑی ہو جاتیں تھیں۔ وڈیرے کی بیٹی گھر سے بھاگ
گئی تھی ، جو آخری فون اس نے کیا تھا وہ آفاق کا نمبر تھا۔ آفاق کا کہنا
تھا کہ واقعی کسی لڑکی نے اسے فون کر کے مدد کا کہا تھا ۔ اس نے اس لڑکی کی
مدد کرنے کی حامی بھی بھری تھی ۔ اسے این جی او کا پتہ بھی دیا تھا مگر اس
لڑکی نے دوبارہ کوئی نہ فون کیا نہ ہی کسی بھی قسم کا رابطہ کیا۔ وڈیرہ کسی
بھی حالت میں آفاق کی بات کا یقین نہیں کر رہا تھا۔ آفاق کو ہر طرح کی
اذیت دی جا رہی تھی۔دوسری طرف اصغر علی خان اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے کی ہر
ممکن کوشش کر رہا تھا۔آفاق کو وڈیرے کے ایک نوکر نے بتایا کہ شادی کے بہت
سال اصغر علی کی اولاد نہیں ہوئی تو سب نے اسے شادی کا مشورہ دیا۔ اس نے
شادی کر لی ۔ اللہ کی کرنی دوسری بیوی لڑکی پیدا کر کے مر گئی۔کہتے ہیں
اصغر علی خان کی پہلی بیوی نے اسے مروایا تھا۔ یہ بہت ظالم لوگ ہیں ۔ مرنا
مارنا ان کے لیے آسان ہے۔ اصغر علی خان نے پھر تیسری اور چو تھی شادیاں
بھی کیں مگر اولاد صرف یہی ایک لڑکی ہے ۔ جو تجھے فون کر کے غائب ہے۔ اصغر
علی خان کی جان بسی ہے اس لڑکی میں ۔ وہ اسے گھر سے قدم باہر نہیں رکھنے
دیتا تھا۔ کسی نے اس لڑکی کو نہیں دیکھا ہوا تھا۔ اب وہ غائب ہوئی ہے تو سب
کو اس کی تصاویر دیکھائی گئی۔ تا کہ ڈھونڈ سکیں ۔آفاق بہت پریشان تھا ۔ اس
نے قسمیں کھا کھا کر کہا میں اس لڑکی سے متعلق کچھ نہیں جانتا ۔ میں کیا
کروں ۔ میری بیوی ۔ میرا گھر۔ وہ رونے لگا اس کے چہرے پر گرنے والے آنسو
،اس کے زخموں پر نمک کا کام کر رہے تھے۔اس نے گھڑ گھڑا کر کہا ۔ اذیت در
اذیت کا یہ سلسلہ ختم کر دے میرے مولا ۔ مجھے اس آزمائش سے نجات دے ۔ منہ
پر لگنے والے طمانچوں نے اس طمانچہ کی یاد دلا دی جو اس نے کبھی نصرت کو
مارا تھا۔ اس نے اپنے ہر چھوٹے بڑے گناہ کی معافی مانگی اور اللہ سے التجا
کر رہا تھا۔ اے اللہ بے شک تو ہی حاکم ہے ۔ معاف کرنے والا ہے۔ مجھے معاف
کر دے۔ اس نے اپنے سوجھے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ اگر میں یہاں سے
رہائی پا گیا تو کبھی زندگی میں کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاوں گا۔ کبھی
نہیں۔تکلیف بڑھانے والے آنسووں کا لامتنائی سلسلہ جاری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس وقار اور عارفہ کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ وقار پر میڈیا کے لوگوں پر
ہاتھ اُٹھانے اور عارفہ پر ایک معصوم بچی پر تشدد کرنے کا الزام تھا۔ وہ
انہیں اپنے ساتھ چلنے کا کہہ رہے تھے۔ عارفہ نے نمرہ کو فون کیا ۔ تمام
صورت حال وہ پہلے ہی جانتی تھی۔ پولیس نے انہیں مہلت دے دی کہ بچوں کو کہیں
چھوڑ دیں ۔ عارفہ رو رہی تھی ۔ اس نے اپنے صفائی میں کچھ بھی نہیں کہا۔
نمرہ کے آ نے کے بعد جب وہ تھانے جانے لگی تو اس کے بچے روتے ہوئے اس سے
لپٹ گئے۔بچوں کی آوازیں گونجی ۔ آپ کہاں جا رہی ہیں ۔ لیڈی پولیس نے بچے
کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ تمہاری امی نے جو رمشہ نامی بچی کو مارا ہے اس کی
سزا ہے یہ جیل جائے گی یہ اب ۔ابو بکر حیرت سے اپنی امی کو جاتا دیکھ رہا
تھا۔
عارفہ نے ابو بکر کی انکھوں میں دیکھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اپنے
بیٹے کو کیا کہے ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر اس سے کیا غلطی ہو گئی
۔ وہ تو ہمیشہ بہت نرم دل اور پیار کرنے والی رہی تھی۔ جس رمشہ کوتشدد کا
نشانہ بنانے کا الزام اس پر تھا اس نے کس نرمی سے اسے اپنے گھر میں جگہ دی
تھی۔اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا، نیکی برباد گناہ لازم ۔ یہ وہ دور ہی نہیں
جہاں احساس اور محبت کی قدر ہو۔
دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ ابو بکر کے ننھے ذہین میں
کہیں سوال جنم لے رہے تھے اس نے سوالیہ نظروں سے اپنی خالہ کی طرف دیکھا۔
|