امید نَو

"باجی کوئی اچھا سا ملی نغمہ تو لگادیں آج بڑا دل کر رہا ہے سننے کا" فرحانہ سارے کام نمٹا کر میرے پاس آ بیٹھی میں نے اخبار پڑھتے ہوئے مسکرا کر اس پر نظر ڈالی. "ہوگئیں تمہاری ساری تیاریاں مکمل؟ چودہ اگست تو کل ہی ہے، تمہارے بچے یقیناً سکول کے فنکشن میں حصہ لے رہے ہوں گے اس سال بھی؟ "وہ مسکرانے لگی ایک روشن اور چمکدار مسکراہٹ سارے دن کام کرنے کے بعد یہ مسکراہٹ کسی الوہی جذبے کی نشانی ہی ہوسکتی تھی ورنہ ایک تھکا ماندہ انسان جسے سارے دن دوسروں کے گھر میں کام کے بعد اپنے گھر کے سارے کام کرنے ہوں بجلی کا رونا پانی کا رونا اور تو اور پچھلے ہفتے انکے گھر کی گیس بھی بند کر دی گئی تھی کہ تین ماہ سے بِل نہیں جمع کرو اسکے تھے، اس سے پہلے مہینے میں بجلی کے نام پر جو ایک پنکھا اور ایک بلب جلتا تھا وہ بھی بند کر دیا گیا تھا کہ انھوں نے بل نہیں جمع کروایا تھا. حالانکہ انکے سارے علاقے میں کنڈا لگا ہوا تھا مگر مجال ہے جو فرحانہ نے کبھی بجلی چوری کی ہو؟ ایسی اصول پسند عورت کم از کم اس طبقے میں تو میں نے نہیں دیکھی تھی. آج بھی میرا ارادہ اسے گیس کے بل کے پیسے دینے کا تھا تاکہ انکے گھر میں گیس بحال ہوجائے. "جی بالکل باجی میرے سب بچوں نے حصہ لیا ہے جی ماشاءاللہ" فرحانہ کی آواز مجھے خیالات کی دنیا سے باہر کھینچ لائی. "میرا سعود تو تین تین جگہ ہے تقریر اور ملی نغمے کے علاوہ ٹیبلو بھی کرے گا" اسکی آنکھوں کی چمک کچھ اور بڑھی تھی. "اچھا اسی لئے آج سمیر کے پاس آیا ہے کہ مجھے کچھ اچھی اچھی ویڈیوز دکھادیں قومی نغمے کی. "میں نے سر ہلایا.

فرحانہ گذشتہ بیس سال سے میرے گھر کام کرنے آ رہی تھی میں نے ساری عمر اسے ایک باہمت اور زندہ دل عورت کے روپ میں پایا تھا. جب وہ میرے گھر کام پر آنا شروع ہوئی تھی تب اسکی نئی نئی شادی ہوئی تھی. اس سے پہلے اس کی ساس( صغریٰ بی بی) میرے گھر کام کرتی تھی. پھر دھیرے دھیرے وہ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئی اور اپنی بہو کو ہمارے گھر کام پر لگا دیا. صغریٰ بی بی غریب طبقے کی ان عام سی عورتوں میں سے تھی جو بچوں کی فوج تیار کرکے اپنے لیے محض آمدنی کا ذریعہ بڑھانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں. جنھیں کوئی غرض یا فکر نہیں ہوتی تھی کہ یہ بچے بغیر تعلیم و تربیت کے اپنے ملک کو کیا فائدہ دے سکیں گے؟ لیکن فرحانہ میں میں نے بہت ساری باتیں اس طبقہ کی عمومی انداز فکر سے مختلف دیکھی تھیں، اس کا عزم تھا کہ سب بچوں کو دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے چاہے اس کے لیے کتنی ہی محنت کرنی پڑے کتنی ہی مخالفت سہنی پڑے. فرحانہ نے ساری زندگی اسی تگ و دو میں گذاری کہ اپنے نکمے شوہر کو اپنا کام کرنے کی رغبت دلائے، یا پھر کوئی لگی بندھی نوکری ہی ہو کہ انکی کمائی سے مل جل کر بچوں کی تعلیم جاری رہ سکے. مگر اسکے جب دماغ میں آتا کام کرتا ورنہ سب چھوڑ کر گھر میں بیٹھ جاتا. . فرحانہ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اس نے پانچویں بچی کے بعد اپنا آپریشن کروا لیا تھا تاکہ مذید اولاد کے بوجھ سے وہ بچے جو دنیا میں موجود ہیں تعلیم کے زیور سے محروم نہیں ہوجائیں. اس باہمت عورت نے اپنی بڑی بیٹی کو قرآن حفظ کے ساتھ گریجویشن کروایا اور اس کے بعد شادی کی. وہ بچی گاؤں میں ایک سکول چلارہی تھی جس میں لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام بھی تھا. جس طرح سارے خاندان کی مخالفت مول لے کر اس نے یہ سب کچھ کیا تھا میں اس کی چشم دید گواہ تھی. فرحانہ کے باقی سارے بچے بھی پڑھ رہے تھے اس کے دو بیٹے بھی حافظ قرآن تھے. میں نے اس سارے عرصے میں کبھی اس کو اپنے بچوں کی تعلیم کے علاوہ کسی بات کے لیے پریشان نہیں دیکھا.
میں نے اس سے پوچھا کہ فرحانہ! تم کیوں پڑھانا چاہتی ہو اپنے بچوں کو جبکہ تمہارے گھر میں تو کیا تمہارے پورے خاندان یا علاقے میں یہ رجحان نہیں ہے بس دس گیارہ سال کے ہوتے ہی بچوں کو فیکٹری میں کام سیکھنے پر اور بچیوں کو گھر گھر کام کرنے پر لگادیتے ہیں، تم کیوں تعلیم کو اتنی اہمیت دیتی ہو؟ تمہارے گھر میں اکثر فاقے رہتے ہیں اگر یہ خرچہ جو تم کورس، کتابوں اور یونیفارم پر کرتی ہو اسے بچا کر اپنے گھر راشن ڈلوا لیا کرو تو سکھ سے کئی دن گذر سکتے ہیں." میری بات پر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری." آپ کو پتہ ہے باجی ہمارے امیر طبقہ کے لوگ خدا کی بستی میں اکثر مفت کھانا تقسیم کرواتے ہیں ہمیں بھوک کی اتنی مصیبت نہیں لیکن کوئی ایسا جگر والا نہیں جو ان غریبوں میں کتابیں مفت تقسیم کروا سکے، مجھے کھانے کی ہوس نہیں تعلیم کی ہوس ہے. دو لقمے کم کھا کر بچے کسی قابل ہوسکیں تو سودا برا نہیں" وہ چند لمحے سر جھکا کر بیٹھی رہی جیسے کچھ سوچ رہی ہو. پھر سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اسکی آنکھوں میں نمی تھی." میری دادی اماں کو بڑا شوق تھا کہ میں پڑھ لکھ جاؤں لیکن میری امی کو یہ شوق نہیں تھا. انھوں نے بس قرآن ایک مرتبہ مکمل کروا کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کا اعلان کردیا. میری دادی اماں سن ٤٧ میں ہجرت کر کے آنے والوں میں شامل تھیں. انکے دل میں پاکستان کے لیے کچھ کرنے کی بہت تڑپ تھی. وہ محلے کے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیا کرتی تھیں اور ساتھ ساتھ آزادی کے بارے میں بہت کچھ بتایا کرتی تھیں. جب وہ اپنے ابو کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں تب انکے پاس صرف ایک خون آلود قمیض تھی جو انکے بھائی کی تھی.جب وہ پاکستان پہنچیں تو انکے والد گھٹنے کے بَل زمین پر گر پڑے سر سجدے میں رکھ کر خاک پر رگڑا پھر روتے ہوئے سر اٹھا کر الحمد للہ اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور زمین کی مٹی ہاتھوں پر مل کر ماتھے پر لگائی. وہ اپنا بہت کچھ بارڈر کے اس طرف چھوڑ آئے تھے لیکن پاکستان آ کر انھوں نے کوئی کلیم نہیں کیا کوئی گھر جائیداد نہیں بنائی. انکی زندگی گمنامی سے شروع ہو کر گمنامی میں ختم ہو گئی لیکن انکے دل کی ہر دھڑکن میں پاکستان کی محبت شامل تھی. جب پاکستان کی پہلی سالگرہ منائی گئی تھی تب انکے والد حیات نہیں رہے تھے. انھوں نے اس دن اپنے بھائی کی وہی خون آلود قمیض نکالی اور اپنے سبز دوپٹے کے ساتھ سی لیا اور اس دن ان کے گھر کے دروازے پر یہی پرچم لہرایا تھا." فرحانہ ایک سسکی لے کر رکی" یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی باجی کتنے ہی لوگ لٹے تھے کٹے اور مرے تھے مگر ہمارے لیے یہ داستان ہیں قصے ہیں اُنکے لئے انکے وطن کی قیمت ہے یہ خون آلود قمیض." فرحانہ خاموش ہوئیں تو ایسا لگا سب ہی لفظ کہیں گُم ہو گئے ہیں درمیان میں ایک طویل خاموشی در آئی. پھر کسی سوچ کو زبان دیتے ہوئے میں نے پوچھا." تمہاری دادی جان حیات ہیں؟"

" نہیں باجی کچھ عرصہ قبل انکا انتقال ہوگیا ہے بڑا صدمہ تھا انھیں پاکستان کی حالت پر جو یہاں کے رہنے والے اس کے ساتھ کررہے تھے وہ انکے لئے ناقابل برداشت تھا، کہتی تھیں کہ حکمرانوں نے تو جو حال کیا ہے عوام نے بھی کیا کسر چھوڑی ہے؟ فرقہ واریت لوٹ کھسوٹ، ایک پھل سبزی کا ٹھیلا لگانے والے کی نیت بھی آنکھ بچا کر دھوکہ دینے کی ہوتی ہے انھیں اپنے دکھ کی داستان سنائیں تو کہتے ہیں قصے کہانیاں ہیں ہم اپنا دل چیر کے نہیں دکھا سکتے بس. بہت مایوس بہت نامراد گئیں وہ دنیا سے. اور وہی پرچم انکی وصیت کے مطابق انکی میت پر ڈالا گیا تھا."
دکھ کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی تھی.

"اپنے تمام پوتے پوتیوں میں وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز رکھتی تھیں انکی بہت خواہش تھی کہ میں پڑھوں اور اپنے ملک کے لیے کوئی کام کروں مگر یہ غربت اور کسمپرسی کا عالم کہاں کچھ سوچنے کا موقع دیتا ہے؟ جانے کون سا جذبہ ہے جو مجھ سے بچوں کی تعلیم چھڑوانے نہیں دیتا کتنے قرضے لیے کتنے لوگوں کی منت کی کتنوں کے احسان لیے پر سب سے بڑا احسان میرے رب کا جس نے مجھے ہمیشہ سرخرو کیا. "
" اماں مجھے اس بار جھنڈیاں لگانی ہیں اپنے گھر میں" فرحانہ کا دس سالہ بیٹا سعود دوڑتا ہوا اندر آیا تھا آج اسکول کی چھٹی تھی اس لیے فرحانہ کے ساتھ آیا تھا اور کل چودہ اگست کی تیاری زور و شور سے جاری تھی. فرحانہ نے اسے ٹالنا چاہا لیکن وہ ضد کررہا تھا. میں نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے پاس بلایا ضرور لگانا ابھی سمیر بھائی کے ساتھ جاکر جھنڈی لے آؤ اور پھر گھر جاکر لگانا. میں نے اپنے بیٹے کو اسکے ساتھ بھیجا. تقریباً دس منٹ کے بعد ایک عجیب سا شور اٹھا ہم سب گھبرا کر باہر کی طرف دوڑے. باہر دل ہلادینے والا منظر تھا سعود خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا سمیر اس کا سر اپنی گود میں لیے مدد کے لیے پکار رہا تھا. ہم ساتھ چھوڑتے حواسوں کو اکٹھا کر کے بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے. اللہ کا شکر تھا کہ یہ بھاگ دوڑ کارآمد ثابت ہوئی اور سعود بچ گیا. میرے ذہن سے وہ منظر محو نہیں ہورہا تھا خون میں لت پت سعود سمیر کی گود میں کراہ رہا تھا اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے دھندلی آنکھوں سے اس کی مٹھی میں دبی کوئی چیز دیکھی دیکھی تھی وہ کاغذ کی ایک سبز و سفید جھنڈی تھی جس پر چاند تارا بنا ہوا تھا، سمیر کی سرسراتی ہوئی آواز میرے کانوں میں اب تک گونج رہی تھی "امی! یہ ایک جھنڈی کو پیروں میں آنے سے بچانے کے لیے بھاگا تھا کہ ایک کار سے ٹکر ہو گئی اپنی جان پر کھیل گیا ہے"

فرحانہ نے واقعی اپنی دادی جان کی محبت کا قرض ادا کر دیا تھا اپنے بچوں کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ انھیں وطن سے مخلص ہونا اسکے پرچم کی عصمت کی حفاظت کرنا بھی سکھایا تھا. یہ بچے جو آج ایک جھنڈی کو پیروں تلے روندے جانے سے بچا رہے ہیں کل بڑے ہوکر یقیناً وطن پر بوجھ میں اضافہ نہیں بنیں گے بلکہ وطن کا بوجھ بانٹنے والوں میں ہونگے. ان شاء اللہ


 

فاطمہ عنبرین
About the Author: فاطمہ عنبرین Read More Articles by فاطمہ عنبرین: 14 Articles with 27921 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.