بٹوارے کے زخم

انگریز راج کیخلاف تقریباً تیس سالوں تک جاری رہنے والی آزادی کی جدو جہد کے بعد بر صغیر کی تقسیم 1947ء میں معرض وجود میں آئی گو کہ کچھ لوگوں کو اس آزادی نے بہت کچھ دیا مگر آزادی کی یہ خوشی تاہم اس تقسیم کی غارتگری کے سامنے ماند ہو چکی ہے۔ اگر ہم بر صغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تقسیم ہند کے وقت سرحدوں کے تعین میں انتہائی جلد بازی سے کام لیا گیا جسکے نتیجے میں پاکستان کے حصے میں بہت سے وہ علاقے نہیں آئے جہاں مسلمانوں کی تعداد ذیادہ تھی اسکی سب سے بڑی وجہ انگریز کی مخاصمت، ہندو کی چالاکی اور ہمارے اپنوں کی ہٹ دھرمی تھی۔

دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ایک کروڑ چالیس لاکھ انسانوں پر مشتمل تھی جس میں دونوں اطراف کے انسان اپنے پیاروں سے علیحہدہ ہو گئے اور وہ آجتک ایک دوسرے کو ملنے کیلئے ترستے رہے ان میں سے بہت سے لوگ یا تو مر گئے یارابطہ نہ ہونے کی وجہ سے گمشدگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح ساڑھے پندرہ لاکھ انسانوں کو دونوں اطراف سے ہندو اور مسلمانوں کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا اور بٹوارے کا یہ زخم آج بھی تازہ ہے جو 14اگست کی صورت میں اکہتر سالوں سے متواتر آج بھی رس رہا ہے جسکی تمام تر ذمہ داری ریڈکلف کمیشن اور اس پر عمل کروانے والوں کی تھی جس نے صدیوں سے ایکساتھ اکٹھا رہنے والوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ وہ پاکستان جسے دو قومی نظرئے کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا آ ج بھی اس ابہام کا شکا ر ہے کہ کیا واقعی ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے ہندوؤں سے علیحدہ کیا گیا اور اگر ہمیں ہندوؤں سے دو قومی نظرئے کی بنیاد پر جدا کیا گیا تو مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا؟ کیا وہ مسلما ن نہیں تھے جو اس ملک سے جڑے ہوئے تھے ؟ کیا انہوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جانیں قربان نہیں کی تھیںَ؟؟ تو ظاہر ہو ا کہ ہم دو قومی نظرئے کی بنیاد پر علیحدہ نہیں ہوئے تھے اسمیں بہت سے دوسرے لا متناہی مقاصد اور عوامل بھی کار فرما تھے جن میں سے ایک معاشی بھی تھا قیام پاکستان کے وقت دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی ایک سرمایا پرستوں کا کیمپ اور دوسرا کیمپ اشتراک پسندوں کا تھا مگر پاکستان کیلئے یہ فیصلہ کرنا نہایت مشکل تھا کہ وہ کس کیمپ میں شامل ہو ۔ پاکستان کو ایک تیسرے راستے پر گامزن ہونا تھا جو اسلامی سوشل ازم کا راستہ تھا جسکا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا مگر وہ اسے پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے اور عالمی سازش کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے ۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے فوراً بعدہم پر برطانوی تربیت یافتہ بیورو کریسی کو جان بوجھ کر مسلط کر دیا گیا جس نے اندرون خانہ ملاؤں سے مل کر نہ صرف ہماری معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ ملاؤں سے ساز باز کرکے ہماری بیوروکریسی نے سرمایہ پرستی کے اس سفینے کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا لیا جس میں ملا اور سرمایا دار سوار تھے اور انہوں نے مل کر اسلامی سوشل ازم کا نعرہ بلند کرنے والوں پر کفر کے فتوے صادر کیئے اور آج ہم دیکھتے ہیں وہی ملا جنہوں نے امریکہ اور برطانیہ کی شہ پر سرمایا داری کی پشت پناہی کی اور کروڑوں روپوں سے نوازا آج وہی ملائیت پاکستان کا مقدر ٹھہری ۔

گو کہ ہم ہندو کے تسلط سے تو آزاد ہوچکے ہیں مگرہم آج بھی غلام ہیں پہلے ہم ہندو کے زیر تسلط تھے آج ہم مسلمان جاگیر دار، پتھاریدار ، صنعتکار، تاجر، سیاستدان اور سرمایہ دار کے زیر نگین ہیں۔ محنت کشوں اور غریبوں نے جو جنگ انتہائی غیر معمولی جذبے سے ہندوستان کی گلیوں، بازاروں، دیہاتوں اور شہروں میں لڑی تھی وہ جنگ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہندو سرمایا دار اور جاگیردار کے تسلط سے آزادی کیلئے لڑی تھی مگر بد قسمتی اور ہماری نا عاقبت اندیشیوں سے اسکے نتائج آج بھی اشرافیہ کی چیرہ دستوں کا شکار ہو کر غریبوں اور محنت کشوں کیلئے مشکلات کا باعث ہیں۔ وہ آج بھی اپنی مذہبی رسومات کو اپنے عقائد کے مطابق پاکستان میں نہیں منا سکتا ، وہ آج بھی اپنی مساجد ، امام بارگاہوں اور عبادتگاہوں میں اپنی مرضی سے اپنی عبادت نہیں کر سکتا۔ اسکے ذہن پر موت کا خوف ہر وقت طاری رہتا ہے، وہ آج بھی بندوقوں کے سائے میں اپنی مذہبی رسومات منانے پر مجبور ہے ۔بندوقوں کے سائے میں عبادت کرتے ہویے بھی وہ غیر محفوظ ہے، وہ بے یقینی کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔ تو ظاہر ہوا کہ پاکستان ہندو کی سرمایا دارانہ پالیسیوں کا شاخسانہ تھا جسے ہم نے ذبر دستی اسلام کے نام سے نتھی کر دیا ورنہ بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ نہ ہوتا ۔ آج ہم اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔

ہمارے معاشرے میں آزادی کے نام پرجنم لینے والی تمام تر معاشرتی برائیاں صرف جاگیردارانہ اور سرمایا دارانہ نظام کی مرہون منت ہیں کیونکہ ہمارے یہاں کی بدبو دار جمہوریت جس پر ایک مخصوص طبقے کا غاصبانہ قبضہ ہے وہ انہیں سرمایا داروں اور جاگیر داروں پر مشتمل ہے جو ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپ کر قومی خزانے کو مختلف صورتوں میں لوٹ کر اس دولت کو بیرونی ممالک کے بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں یا پھر انہوں نے اپنا تمام تر کاروبار ہمارے ملک سے لوٹی ہوئی دولت جسے ہم کالے دھن کا نام دیتے ہیں بیرونی ممالک میں لگا رکھی ہے جسے ہم پاکستان سے غداری کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ اپنے مفادات پر کسی طور بھی ضرب نہیں آنے دیتے انکے مفادات بیرونی دنیا کے مختلف ممالک سے وابسطہ ہیں اور وہ ایکدوسرے کے مفادات کوتحفظ فراہم کرتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ انکے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے انکے مفادات مشترکہ ہیں اور یہ طاقت کے زور پر قوانین پر حاوی ہو کر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ہماری اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس کی آزادی ہمارے معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک ہے جسے روکنا انتہائی ضروری ہے ورنہ ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ نہ صرف پستی کی طرف جا رہا ہے اور وہ وقت آنے والا ہے جو ہم ایک مرتبہ 1971ء میں بنگلہ دیش کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ ایسے حالات کا اثر صرف غریبوں، محنت کشوں اور نچلی پرت کے طبقات پر ہوتا ہے جبکہ اشرافیہ اور وہ ایلیٹ کلاس جس کی دولت اور کاروبار ملک سے باہر ہوتا ہے وہ ان حالات سے متاثر نہیں ہوا کرتی ۔ نتیجتاً سرمایہ دارانہ جمہوریت عام غریب طبقات اور پسے ہوئے لوگوں کیلئے انتہائی خطرناک ہوا کرتی ہے جس میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے ہیں ۔ لہٰذا سرمایا دارانہ جمہوریت میں آزادی صرف ایک طبقے تک محدود ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ 95 فیصد محنت کش اور غریب جو آ ج بھی اپنے ہی ملک میں ر ہنے والے 5 فیصد معزز لٹیروں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور جبر و استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں اپنے مادر وطن جسکو انہوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر حاصل کیا تھا ان پر لازم ہے کہ وہ یوم آزادی کے اس موقع پر عہد کریں کہ وہ اپنے وطن عزیز کو ہر قیمت پر اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے استبدادی اور استعماری قوتوں کے چنگل سے آزاد کروا کر اس ملک میں دیانت،امانت، صداقت اور شرافت کا بول بالا کریں گے کہ یہی ہماری منزل ہونی چاہئے ۔تو آئیے 14 اگست کے روز ایکبار پھر ہم عہد کریں کہ ہم آزادی کی خوشی اور اپنے جوش و خروش کا اظہار کھوکھلے نعروں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے کر کے دکھائینگے جسکے لئے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر اسے حاصل کیا تھا۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.